وہ علاقے جہاں لسانی سطح پر اُردو سر فہرست رہا کرتی تھی وہاں اب اس زبان کی صورتحال غیر اطمینان بخش ہی نہیں تشویش ناک ہوگئی ہے۔
EPAPER
Updated: February 25, 2024, 3:58 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
وہ علاقے جہاں لسانی سطح پر اُردو سر فہرست رہا کرتی تھی وہاں اب اس زبان کی صورتحال غیر اطمینان بخش ہی نہیں تشویش ناک ہوگئی ہے۔
ہر سال ۲۱؍ فروری کو بین الاقوامی یوم مادری زبان کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یونیسکو نے ۱۹۹۹ء میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہر سال ۲۱؍ فروری کو یوم مادری زبان کے طور پر منایا جا ئے گا۔ یونیسکو کے اس اعلان کا مقصد عالمی سطح پر لسانی اور ثقافتی تنوع کو فروغ دینا ہے۔ عہد حاضر میں ٹیکنالوجی کی ترقی اور اقتصادی اصلاحات کے سبب مختلف سماجی اور لسانی پس منظر سے وابستہ افراد کے درمیان رابطہ کو مستحکم بنانے کی خاطر کثیر لسانی رجحان جس سرعت رفتاری کے ساتھ اپنا دائرہ وسیع کرتا جا رہا ہے اس کو کا رآمد بنانے کیلئے مادری زبان سے محبت اور اس کے تئیں حساس ہونا ضروری ہے۔ انگریزی کو عالمی رابطہ کی زبان اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا بیشتر سرمایہ اس زبان میں ہونے کے باوجود آج بھی ایسے ملکوں کی خاصی تعداد ہے جو اپنے سماجی ، ثقافتی اور تعلیمی امور میں مادری زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔چین، جاپان اورجرمنی جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں مادری زبان کو دیگر تمام زبانوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ ان ملکوں کے عوام نہ صرف یہ کہ اپنی انفرادی اور سماجی زندگی میں مادری زبان کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو جن حوالوں سے انفرادیت حاصل ہے ان میں ایک اہم حوالہ اس ملک کا لسانی تنوع بھی ہے ۔ زبانوں کا عجائب گھر کہے جانے والے اس ملک کی لسانی تاریخ بہت دلچسپ ہے ۔اس دلچسپی کو برقرار رکھنے میں اردو کا اہم کردار رہا ہے۔ اس خالص ہندوستانی زبان کے آغاز و ارتقا کی روداد صرف لسانی نقطہ ٔ نظر سے اہم نہیں ہے بلکہ اس زبان کے ارتقائی سفر کے وہ مراحل بھی اہمیت کے حامل ہیں جن کے سبب مختلف تہذیبی اور ثقافتی پس منظر سے وابستہ افراد کے درمیان اخوت اور محبت کا رجحان بھی اس زبان کے ذریعہ پروان چڑھا۔اس زبان میں جو لسانی لچک ہے وہ اس کے سیکولر کردار کو نمایاں کرتی ہے۔یہ زبان اپنے اس کردار کی بدولت آج بھی دیگر ہندوستانی زبانوں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتی ہےلیکن آزادی کے بعد اس ملک کی لسانی اور ثقافتی روایت کو ایک مخصوص رنگ میں ڈھالنے کی خاطر بعض متعصب ذہنوں نے اس زبان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ ملک کی لسانی تاریخ کی ایسی تلخ حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی کے بعد شروع ہونے والی لسانی سیاست نے اردو جیسی زبان کو ایک قوم سے منسوب کر کے اس کی ترقی کے سفر کو مشکل بنادیا ۔اس زبان کے متعلق یہ غلط فہمی بھی پھیلائی جاتی رہی ہے کہ یہ غیر ملکی زبان ہے۔ ان کوششوں کے باوجود یہ زبان آج بھی بیشتر ہندوستانیوں کے دلوں پر راج کرتی ہے اور ملک کی مجموعی آبادی کا بڑا حصہ اپنی روزمرہ زندگی میں اس زبان ہی کو استعمال کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سرکار پر دِل ہار جانے والے جینت عوام کا اعتماد کھو سکتے ہیں
اردو کوایک مذہب اور ایک طبقہ سے وابستہ کرنے والے متعصب سیاستداں اور نام نہاد قسم کے دانشور وں کا گروہ آج بھی لسانی تاریخ کے ان حقائق کو مسخ کرنے کی مہم میں لگا ہوا ہے جو اردو کو خالص ہندوستانی زبان ثابت کرتے ہیں۔اس وقت سیاسی اور سماجی سطح پر جن افکار و نظریات کی تشہیر ہو رہی ہے، اس کے سبب اردو زبان اور اس زبان کو بولنے والوں کو قومی دھارے سے باہر کرنے کی کوشش مسلسل جاری ہے۔ ان حالات میں اردو کے خیر خواہ ہونے کا دم بھرنے والوں کا رویہ بھی کسی خوش آئند مستقبل کے متعلق بہت زیادہ امید نہیں جگاتا۔ اردو کی ترقی کی خاطر تنظیمی اور انفرادی سطح پر جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ بہ ظاہر بہت نتیجہ خیز معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان اقدامات میں اس معروضی اور منطقی رویہ کا بیشتر فقدان نظر آتا ہے جو حقیقی معنوں میں اردو کی ترقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اگر اس حوالے سے مختلف ریاستوں کا موازنہ کیا جائے تو ان ریاستوں کے حالات دگر گوں ہیں جو ریاستیں اب سے نصف صدی قبل تک اردو کے حوالے سے نمایاں شناخت رکھتی تھیں۔ لکھنؤ، دہلی، پٹنہ،بھوپال، رامپور اور مشرقی ہندوستان کے وہ دیگر علاقے جہاں لسانی سطح پر اردو سر فہرست رہا کرتی تھی وہاں اب اس زبان کی صورتحال غیر اطمینان بخش سے آگے بڑھ کر تشویش ناک ہو گئی ہے۔ان ریاستوں میں اردو تعلیم کا معیار انتہائی پست سطح پر پہنچ گیا ہے اور زبان و ادب سے متعلق ہونے والی سرگرمیوں میں اردو کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے اس سے اردو کی ترقی کی توقع کرنا خود فریبی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
شمالی ہند کے مقابلے جنوبی ریاستوں خصوصاً مہاراشٹر، کرناٹک، تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں اردو کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کو حتمی سچائی تسلیم کرنے والوں کو اس سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن زمینی حقائق کو مد نظر رکھنے والے اس سے انکار نہیں کریں گے کہ ان ریاستوں میں اردو کی ترقی کیلئے تنظیمی اور انفرادی سطح پر وقتاً فوقتاً ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جو اس زبان کی ترقی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں لیکن اس ضمن میں بھی بعض ایسے مسائل ہیں جنھیں کسی مصلحت ، سہل پسندی یا مثالی رجحان کے سبب اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جو زبان کی ترقی کی راہ کو پر پیچ بناتا ہے ۔ان ریاستوں میں جس تواتر اور تناسب میں اردو کی شعری محفلیں اور ادبی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیںان سے بلاشبہ اس زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس مقبولیت کو بامعنی اور مستحکم بنانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیمی سطح تک اردو کے معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے۔ اردو کے ادبی و ثقافتی پروگراموں کے ساتھ اردو کے علمی پروگراموں کی تعداد میں بھی اضافہ درکار ہے تاکہ اس زبان کو زندگی کے ان امور سے منسلک کیا جا سکے جو امور کسی فرد یا معاشرہ کی سماجی و اقتصادی ترقی میں ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔بحیثیت مادری زبان اردو کے تحفظ کیلئے اس طرز کے اقدامات اشد ضروری ہیں۔
ملک میں ایک دہائی کے دوران رونما ہونے والی سماجی تبدیلیوں میں ایک نمایاں تبدیلی یہ بھی ہے کہ اب شدت پسند ہندوتوا میں یقین رکھنے والے افراد اردو سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس کرتے۔ اس گروہ میں شامل بیشترافراد ہندوستان کی لسانی تاریخ سے یکسر نابلد ہوتے ہیں لہٰذا وہ اس خالص ہندوستانی زبان کو غیر ملکی زبان کہتے ہیں اور اس بنا پر اردو بولنے والوں کو مشکوک اور نفرت آمیز نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ اس رویہ کے سبب اب وہ بھی اردو سے دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں جن کے گھروں میں کل تک یہ زبان راج کرتی تھی۔سماجی سطح پر یہ رجحان مشرقی ہندوستان میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان علاقوں میں نہ صرف تعلیمی سطح پر بلکہ خانگی اور سماجی سطح پر بھی اردوآخری سانسیںگن رہی ہے۔ اس علاقے کا اردو داں طبقہ اب نہ صرف ہندی کے استعمال میں فخر محسوس کرتا ہے بلکہ اس زبان کے پروردہ اس کلچر کو بھی اختیار کرنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس کرتا جو کلچر اس طبقہ کی تہذیبی روایت کیلئے ناموزوں ہے۔ زبان و تہذیب کے مابین ربط باہم کو پیچیدہ بنانے والے اس رجحان کے سبب اردو کا سماجی دائرہ روز بہ روز محدود ہوتا جا رہا ہے۔
اردو کی ترقی کیلئے کارہائے نمایاں انجام دینے والے اردو کے (نام نہاد) خادموں کو اس حقیقت پر بھی غورکرنا چاہئے کہ گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں تشکیل پانے والا سماجی اور لسانی منظرمانہ اب اپنی تکمیل کے اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں اردو کی ترقی کی جگہ اردو کی بقا کا سوال اہم ہو جاتا ہے ۔اس زبان کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ گھروں میں اس کے چلن کو فروغ دیا جائے اور ساتھ ہی تعلیمی سطح پر اس کے معیار کو بلند کرنے کی دیانت دارانہ کوشش کی جائے،لیکن یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ان ’ خادموں‘ کے ذریعہ اردو کی ترقی کیلئے منعقد ہونیوالے پروگراموں کے دعوت نامےبھی اب ہندی یا انگریزی زبان میں نظر آنے لگے ہیں۔ یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ اردو کی ترقی کا ڈھول پیٹنے والا گروہ اقتدار پرستی میں اپنے اس ورثہ کو ملیا میٹ کر رہا ہے جو اس کی سماجی اور تہذیبی شناخت کا امین رہا ہے ۔
اس زبان کی بقا کیلئے نتیجہ خیز اقدام کی ضرورت ہے ناکہ صرف یہ کہ اردو کے نام پر پرشکوہ اور پرتکلف بزم آرائی پر اکتفا کیا جائے۔یہ بزم آرائی چند اشخاص کیلئے شہرت کا وسیلہ تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے اردو کی ترقی اس طور سے ہو کہ اس کے لسانی امتیاز، تعلیمی معیار اور سماجی مقبولیت میں اضافہ ہو،اس کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔