کسان اب یہ کھل کرکہنے لگے ہیں کہ ان کی پریشانیوں کا حل ’بھارت رتن‘ میں نہیں ، ایم ایس پی کی گارنٹی میں ہے، یہ جینت کیلئے نوشتہ دیوار ہے۔
EPAPER
Updated: February 18, 2024, 12:35 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
کسان اب یہ کھل کرکہنے لگے ہیں کہ ان کی پریشانیوں کا حل ’بھارت رتن‘ میں نہیں ، ایم ایس پی کی گارنٹی میں ہے، یہ جینت کیلئے نوشتہ دیوار ہے۔
سیاست کے میدان میں ان دنوں جو کھیل، کھیلے جا رہے ہیں ان کا تجزیہ سیاسی اخلاقیات کے تناظر میں کرنے سے بیشتر مایوسی ہی ہاتھ لگے گی۔ سیاسی کھلاڑیوں خصوصاً ارباب اقتدار نے اس کھیل میں اپنی برتری کو برقرار رکھنے کی خاطر جس طرح کے داؤ پیچ استعمال کرنے کی روش اختیار کر رکھی ہے اس کے سبب یہ کھیل دلچسپ، حیرت انگیز، مایوس کن اور افسوس ناک کیفیات کا حامل ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے سب سے بڑے اعزاز کی تفویض میں اقتدار نے جس دریا دلی کا مظاہرہ کیا، وہ بھی دراصل اس کھیل کا ایک جزو ہے۔ بھارت رتن دینے کے بہانے اپنی سیاسی بساط کو مستحکم بنانے کی جو حکمت عملی برسراقتدار پارٹی نے اختیارکی ہے، اس سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت رین دینے کے معاملے میں سابقہ حکومتوں کے فیصلے سوالات سے مبرا رہے ہوں لیکن موجودہ حکومت نے اس اعزاز کی تفویض میں جن تعصبات اور تحفظات کا مظاہرہ کھلے عام کیا ہے، اس سے اقتدار کا ساز باز والا وہ رویہ عیاں ہوا جو اپنے سیاسی مفاد کیلئے سرکاری مشینری کے استعمال میں تمام آئینی اصولوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔ اقتدار کے اس رویے نے ملک کے سب سے بڑے اعزاز کے امتیاز پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
گزشتہ دنوں جن شخصیات کو یہ اعزاز تفویض کیا گیا، ان میں سے دو شخصیات ایسی ہیں جن کی زندگی میں کسانوں کے مسائل اور مفادات کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ چودھری چرن سنگھ اور ایم ایس سوامی ناتھن نے ملک کے کسانوں کی فلاح وبہبود کیلئے جو اقدامات کئے اور اپنے تجزبات و مشاہدات کی بنیاد پر کسانوں کی معاشی و سماجی زندگی کے مسائل کا تصفیہ کرنے کیلئے جس طرز کی سیاسی پالیسیوں اور تکنیکی عوامل کو ناگزیر قراردیا، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کسانوں کے مسائل سے مثالی بے نیازی برتنے والی حکومت نے جب ان دو شخصیات کو بھارت رتن دینے کا اعلان کیا تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ اقتدار کے اس فیصلے کی بنیاد ان شخصیات کی کارکردگی سے زیادہ اس ممکنہ سیاسی فائدے پر ہے جو آئندہ پارلیمانی الیکشن میں ایک بار پھر اس پارٹی کو حکومت سازی کا موقع فراہم کر سکتی ہے جو اس وقت برسر اقتدار ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کا جینت چودھری نے جس پر تپاک انداز میں خیر مقدم کیا وہ ایک حد تک فطری بھی تھا۔ سابق وزیر اعظم آنجہانی چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن دینے کا مطالبہ کئی برسوں سے کیا جا رہا تھا۔ چرن سنگھ کی سیاسی زندگی سے واقفیت رکھنے والوں کا یہ مطالبہ برحق بھی تھا۔ ملک کے کسانوں کے معاشی و سماجی مسائل کا ادراک اور ان مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں چرن سنگھ کے بعض اقدامات ایسے رہے ہیں جو انھیں کسانوں کا سچا خیر خواہ ثابت کرتے ہیں۔ اقتدار نے کو کو بھارت رین دینے کا جواز بھی یہی پیش کیا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار یہ دُہرا رویہ کیوں اختیار کئے ہوئے ہے کہ ایک طرف تو کسانوں کو اپنی سیاسی زندگی کے مرکز میں رکھنے والے چرن سنگھ کو بھارت رتن سے نوازا گیا اور دوسری طرف انہیں کسانوں کی کوئی سدھ نہیں لی جارہی ہے جو اپنے مطالبات کی عدم تکمیل کے سبب ان دنوں احتجاج کر رہے ہیں ؟حیرت کی بات یہ ہے کہ کسان اپنی معاشی اور سماجی زندگی کی بہتری کیلئے اقتدار سے جو مطالبہ کر رہے ہیں ان کے نفاذ کا مشورہ بھی انہی ایم ایس سوامی ناتھن نے دیا تھا جنھیں کچھ دن قبل بھارت رتن دینے کا اعلان کیاگیا ہے۔ خصوصاً ایم ایس پی کے حوالے سے سوامی ناتھن نے جو مشورے دئیے تھے ان پر عمل کئے بغیر کسانوں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی نہیں آسکتی۔ اگر اقتدار کارپوریٹ پرستی کے رویہ کو ترک کر کے حالات کا تجزیہ کرے تو کسانوں کی مانگ کو تسلیم کرنے میں اسے کوئی عار نہیں محسوس ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے: تعلیم اور کریئر کے سلسلے میں حکومت کے دو اچھے فیصلے
کسانوں کے مسائل سے انتہا درجے کی بے اعتنائی برتنے والی حکومت جب ان شخصیات کو بھارت رتن سے نوازے جن کی زندگی میں کسانوں کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے، تو بہ آسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس سیاسی کھیل کا مقصد کیا ہے؟ آنجہانی چرن سنگھ کے پوتے اور ان کے سیاسی وارث کہے جانے والے جینت چودھری نے اقتدار کے اس فیصلے پر جن تاثرات کا اظہار کیا اس سے بڑی حد تک یہ واضح ہو گیا کہ اقتدار نے اس کھیل میں انھیں وہ مہرہ بنا لیا ہے جس کے ذریعہ مغربی اتر پردیش اور اس کے گرد و اطراف کے جاٹ اکثریتی علاقوں میں وہ اپنی انتخابی زمین ہموار کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پینترا صد فیصد کامیاب نہ ہو لیکن جو صورتحال ہے اس کے پیش نظر یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ اس فیصلے کے سبب انڈیا اتحاد میں ایک اور دراڑ پڑ گئی۔ دادا کو بھارت رتن ملنے پر پوتے نے جس انداز میں اپنا رد عمل ظاہر کیا وہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی وراثت کے وقار کو برقرار رکھ پانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔
چرن سنگھ کو بھارت رتن دینے کے فیصلے سے ان تمام لوگوں کو خوشی ہوئی جو دیہی زندگی خصوصاً کسانوں کی روزمرہ زندگی کے مسائل اور معاملات سے حقیقی واقفیت رکھتے ہیں۔ سیاسی سطح پر سماجوادی نظریہ کے حامیوں نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا لیکن اقتدار کے اس فیصلے کے عقب میں جو سیاسی منشا ہے اس پربھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جینت کے ’کس منہ سے انکار کروں ‘ والے ریمارک نے اس امکان کی توثیق کر دی ہے کہ یہ فیصلہ صاحب اعزاز کی عظمت سے زیادہ سیاسی مفاد کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ کسانوں کے مسائل اور چرن سنگھ ا ور ایم ایس سوامی ناتھن کی ان مسائل سے وابستگی کے تناظر میں اگر جینت کے رد عمل کا تجزیہ کیا جائے تو اس دلچسپ حقیقت کو انداز کرنا مشکل ہو جائے گا کہ یہ وہی جینت چودھری ہیں جو اس اعلان سے قبل تک خود کو دادا کی کسان مرکوز سیاست کا سچا وارث کہتے تھے۔ یہ دعویٰ وہ آج بھی کرتے ہوں گے لیکن ان کے دعوے کی حقیقت پر بہرحال سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اس وقت اقتدار نے کسانوں کے متعلق جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، کیا وہ یہ ثابت نہیں کرتا کہ کسانوں کیلئے سیاست کرنے والے چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن دینا اور کسانوں کے مسائل پر اخلاص و سنجیدگی سے غور کرنے کے معاملے میں اس کے رویے میں تضاد ہے ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ جینت چودھری کا دل جیت لینے کے کچھ ہی دنوں کے بعد سے کسانوں کے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کیلئے حکومتی سطح پر جو اقدامات کئے جا رہے ہیں اس پر اب تک کوئی ایسا رد عمل جینت کی جانب سے نہیں آیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ وہ اپنے دادا کی سیاسی وراثت کے سچے امین ہیں۔ اس سیاق میں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اصول و نظریات کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کرنے والے جینت اور ان جیسے دوسرے سیاسی وارثین کی نظر میں ان عوام کی کیا حیثیت ہے جو اُن کے بڑوں کی سیاسی قد آوری میں مرکزی مقام رکھتے ہیں ؟سیاست میں در آنے والی تمام خرابیوں کے باوجود آج بھی یہ شعبہ عوام کے محور پر ہی گردش کرتا ہے اور اگر کوئی لیڈر اس محور ہی کو کمزور اور غیر اہم تصور کرنے لگے تو یہ یقینی طور پر جمہوری طرز سیاست کا ایک بڑا خسارہ ہے۔ دادا کو اعزاز ملنے پر جینت چودھری نے جو رد عمل ظاہر کیا وہ ان کے اس سیاسی رویہ کو آئینہ کرتا ہے جو عوام کو اپنی مرضی کا مطیع سمجھتا ہے۔ ممکن ہے کہ عوام کا ایک طبقہ اس طرز کے سیاسی رویہ کو قبول کرلے لیکن سبھی کو ایک صف میں کھڑا کرنا جمہوریت کی تردید کے مترادف ہوگا۔
سرکار کی عنایت خاص پر دل ہار جانے والے جینت چودھری عوام کا اعتماد کھو بھی سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پوتے کا وہ سیاسی سفر ختم بھی ہو سکتا ہے جو دادا کے نام کی بیساکھیوں کے سہارے شروع ہوا ہے۔ بھارت رتن کی تفویض میں حکومت کے حالیہ طرز عمل نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی سودےبازی کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ارباب اقتدار کے ذریعہ بھارت رتن جیسے عظیم اعزاز کو اپنے سیاسی مفاد کی خاطر استعمال کرنے کی اس حکمت عملی نے اس اعزاز کی عظمت اور وقارکو متاثر کیا ہے۔ اس حکمت عملی کے سبب اب ایسے افراد کو بھی یہ اعزاز دینے کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے جن کی کارکردگی کی سطح ایک عام آدمی سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ حکومت کو سیاسی ساز باز سے بالاتر ہو کر یہ اعزاز تفویض کرنا چاہئے اور اس امر میں سیکولر طرز عمل اختیار کرنا چاہئے تاکہ یہ اعزاز انھیں بھی ملے جنھوں نے مختلف شعبوں میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے جن کی بنا پر وہ بھارت رتن ہونے کا حق رکھتے ہیں۔