اسماعیل ہانیہ کی شہادت، دراصل جنگ بندی کی کوششوںکے پیچھے جاری اسرائیل کی پشت پناہی کے کھیل کا نتیجہ ہے۔
EPAPER
Updated: August 04, 2024, 6:17 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
اسماعیل ہانیہ کی شہادت، دراصل جنگ بندی کی کوششوںکے پیچھے جاری اسرائیل کی پشت پناہی کے کھیل کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ دنوں تہران میں شہید کئےگئےحماس لیڈر اسماعیل ہانیہ نے جوآخری الفاظ کہے انہیں خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے نقل کیا ہے۔ ان کا بیان اس طرح ہے’’وہ اللہ ہے جو زندگی اورموت دیتا ہے اوراللہ تمام اعمال سے باخبر ہے...ایک لیڈر جائے گاتواس کی جگہ دوسراکھڑا ہوجائے گا۔ ‘‘ اسماعیل ہانیہ نے یہ بات ایران کےسپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سےکہی تھی۔ یہ الفاظ وہی لیڈر کہہ سکتا ہےجو زندگی کے صبر آزما حالات سے بھی واقف ہو، موت کی حقیقت کا بھی ادراک رکھتا ہو اوراسے یہ بھی یقین ہوکہ عملی جدوجہدکے راستے میں کسی کی موت کوئی خلاءپیدا نہیں کرتی بلکہ ایک کے جانے کے بعداس کی جگہ دوسرا لے لیتا ہے۔ اسماعیل ہانیہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ تھے۔ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے حماس کے جو لیڈران اسرائیل کےنشانے پرتھے، اُن میں اِن کا نام نمایاں تھا۔ ان کے قتل کی اسرائیل براہ راست ذمہ داری قبول نہیں کررہا ہےلیکن یہ ظاہر ہے کہ قتل کی سازش میں تل ابیب کےملوث ہونے کوکسی صورت خارج نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ ۷۰-۸۰؍ برسوں سے پورے فلسطین کو کس طرح ایک قید خانہ بناکر رکھا گیا ہے کہ اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہےکہ ایک لیڈرمحصورزمین کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں پیدا ہوا اوراسرائیل جیسی نیوکلیائی طاقت کے خلاف مسلسل جدوجہد کی علامت بن گیا۔ میڈیا کا ایک طبقہ اسماعیل ہانیہ کو’ دہشت گرد‘ قراردےرہا ہے اورایسی کچھ سرخیاں بھی نظر سے گزریں جن میں ان کے خاتمے کو اسرائیل کی بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بات ہے کہ ظالم وجابر حکومتیں جب کسی لیڈر کو ختم کرنے کا منصوبہ بناتی ہیں تواس کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ مزاحمت کو بغاوت کا نام دیتی ہیں۔ وہ اپنے حق کی لڑائی کو دہشت گردی سے تعبیرکرتی ہیں۔ اسرائیل اوراس کے ہمنواؤں کے معاملے میں تو یہ پوری طرح مسلمہ بات ہے۔ دوسری بات یہ ہےکہ اسماعیل ہانیہ جیسے رہنماؤں کویہ اندازہ ہوتا ہےکہ موت ہمہ وقت ان کے تعاقب میں ہے، نہ صرف ان کے بلکہ ان کےاہل خانہ کا ایک ایک فرد بھی غاصب حکومت کے نشانے پر ہے۔ ۳۱؍ جولائی کو اسماعیل ہانیہ کو شہید کیاگیالیکن اس سے مہینوں قبل غزہ میں بمباری کے متعدد کےواقعات میں ہانیہ کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی شہادت کی خبریں آ چکی ہیں۔ اسماعیل ہانیہ نے آخری وقتوں میں ان میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا۔ کوئی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ فلسطین کے حق کی لڑائی کے تقاضوں نے انہیں اپنوں سے دور کردیا تھالیکن مجاہدلیڈروں کا یہی وصف ہوتا ہےکہ مقصد کے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ جلا وطنی کے دور میں انہیں آزادی کی رمق نظر آتی ہے۔ اسیری میں وہ آزادی کا پروانہ دیکھ لیتے ہیں۔ اپنوں کی موت پر وہ صبر جمیل کا ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ موت بھی ان پر رشک کرتی ہے۔
غزہ جنگ میں ہانیہ کی شہاد ت نے کئی طرح کی بحثیں چھیڑ دی ہیں جن میں جنگ بندی کی کوششوں کامستقبل سب سےاہم ہے۔ وہ کوششیں جن کااب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اورنتیجہ برآمد ہو بھی نہیں سکتا جب تک کہ اسرائیل کو جارحیت سے نہ روکا جائے۔ حماس کے ایک حملے کے جواب میں پورے غزہ کوکس نے تباہ کررکے رکھ دیا؟غزہ کی آبادیوں اور بستیوں کو مسلسل بمباری کا نشانہ کون بنا رہا ہے؟کیا عالمی طاقتوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ جنگ بندی ہوتی کیسے ہے؟صرف میز پر مذاکرات کرنے سے یا جو مسلسل جارحیت کا ارتکاب کئے جارہا ہے، اسےروکنے کے متحدہ اقدام سے۔ ۳۹؍ ہزار فلسطینیوں کی شہادت عالمی طاقتوں کونظر نہیں آتی، اہل غزہ کے خلاف اسرائیل کی پہاڑ جیسی جارحیت امریکہ کی نظر میں معمولی ہے، حماس کی ایک پتھر پھینکنے جیسی کارروائی امریکہ کے اتحادیوں کے نزدیک دہشت گردی ہے۔ یہ سب آج سے ہورہا ہے۔ دہائیاں گزرچکی ہیں۔ فلسطینیوں کے حقوق کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلا جارہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی پوری توجہ اسرائیل کے تحفظ پر ہے، اسلئےجنگ بندی کی کوششیں جو مہینوں سے جاری ہیں، صرف کوشش کے دائرہ میں ہیں۔
ان کوششوں میں قطر بھی ثالث ملک کی حیثیت سے شریک ہےجہاں اسماعیل مقیم تھے۔ اس بنیاد پر پہلے تو یہ تسلیم کیاجائے کہ اسرائیل نے جنگ میں شریک کسی لیڈر کونہیں بلکہ مذاکرات کے عمل میں شامل ایک لیڈر کو قتل کیا ہے۔ اگر یہ تسلیم نہیں کیاگیاتوجنگ بندی کو کس بنیاد پر آگے بڑھایا جائے گا۔ حماس اور ایران نے ہانیہ کی شہادت کا انتقام لینے کا عزم کیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کیلئے تیار ہے۔ عالمی طاقتیں کسے روکیں گی اور پہلے تو یہ طے کرے کہ اسے کسے روکنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اور قطر کے و زیر اعظم اب بھی جنگ بندی کی کوشش جاری رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔ کیا یہ طرفہ تماشا نہیں ہےکہ ایک طرف ایک حلقے میں جنگ بندی کی باتیں ہورہی ہیں اوردوسری طرف جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف مذاکرات کے عمل کو فروغ دینے کی کسی نہ کسی سطح پرکوشش ہورہی ہے، دوسری طرف ایک مذاکرات کار کو ہی موت کی نیند سلا دیا گیا! اقوام متحدہ، عالمی عدالت اور دیگر عالمی تنظیمیں اسرائیل کو ہی قصور وار قراردے رہی ہیں، اسے جنگی جرائم کا مرتکب بتارہی ہیں۔ مغربی ممالک میں عوام بھی فلسطین کے حق میں آوازیں اٹھا رہے ہیں، تعلیمی اداروں میں فلسطین اور اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرے ہوئے ہیں لیکن اسرائیل کو روکا جاسکا ہےنہ اس کے رُکنے کےامکانات ہی ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ عا لمی ادارے اسرائیل کو مجرم مانتے ہیں، عوام اسرائیل کومجرم مانتے ہیں لیکن امریکہ اور عالمی طاقتوں کی نظر میں مجرم صرف حماس ہےاوراسے مزاحمت کا بھی حق نہیں ہے۔ یعنی جنگ بندی کی گفتگو کی آڑ میں اسرائیل کی پشت پناہی کا کوئی بڑا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہےکہ اس(حماس) کے جلا وطن لیڈر(اسماعیل ہانیہ) کے قتل کی سازش گزشتہ ۲؍ مہینے سے ہورہی ہے اور اس دوران عالمی طاقتیں اور میڈیاجنگ بندی کے اقدامات میں پیش رفت پر ہی باتیں کرتے رہے۔ ایک جلا وطن لیڈرکو تیسرے ملک میں قتل کردیاگیا تب بھی امریکہ نے اسرائیل پر کوئی تنقیدی بیان جاری نہیں کیا۔ اسرائیل کو روکنے کیلئے کیا کیاجارہا ہے؟جنگ بندی کی شرطیں حماس پر یکطرفہ کیوں عائد کی جارہی ہیں ؟ جنگ بندی کی کوشش اگر واقعی جاری ہوتی تو اسماعیل ہانیہ جیسے سیاسی لیڈرکا تحفظ امریکہ اوردیگر ثالث ممالک کی اولین ترجیح ہوتی۔ یہ ترجیحات میں شامل نہیں تھا اسلئےاسماعیل ہانیہ کے خلاف نہ کسی سازش کو روکا جا سکا نہ غزہ کی تباہی کو۔ کہا نہیں جاسکتا کہ ایسی اور کتنی سازشیں اندرونی طور پر فلسطین، اہل غزہ اورحماس کے خلاف رچی جارہی ہیں اور باہریہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ ہم جنگ بندی کے معاہدہ کے قریب ہیں۔