ملک بھر میں جاری شدید بارش کے سبب کئی ریاستوں میں جو سیلابی کیفیت ہےاس سے انفرا سٹرکچر کو بھاری نقصان ہوا ہے، بالخصوص سڑکیں اکھڑ کر رہ گئی ہیں۔ عوام آواز اٹھا رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ مانسون میں سڑکیں بنانے کے ساتھ ہی ٹوٹ جاتی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 28, 2024, 6:01 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
ملک بھر میں جاری شدید بارش کے سبب کئی ریاستوں میں جو سیلابی کیفیت ہےاس سے انفرا سٹرکچر کو بھاری نقصان ہوا ہے، بالخصوص سڑکیں اکھڑ کر رہ گئی ہیں۔ عوام آواز اٹھا رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ مانسون میں سڑکیں بنانے کے ساتھ ہی ٹوٹ جاتی ہیں۔
ملک بھر میں جاری شدید بارش کے سبب کئی ریاستوں میں جو سیلابی کیفیت ہےاس سے انفرا سٹرکچر کو بھاری نقصان ہوا ہے، بالخصوص سڑکیں اکھڑ کر رہ گئی ہیں۔ عوام آواز اٹھا رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ مانسون میں سڑکیں بنانے کے ساتھ ہی ٹوٹ جاتی ہیں۔ گڑھوں کو بھرا نہیں جا سکتاکیونکہ ایک جگہ گڑھےبھرنے کے بعد اسی جگہ یا دوسری جگہ نئے گڑھے ابھر آتے ہیں۔ یہ ملک کے کئی بڑے شہروں کا مسئلہ ہے اورقابل تعجب نہیں کہ عروس البلاد ممبئی میں یہ مسئلہ کئی شہروں سے زیادہ سنگین ہے۔ وہ شہر جو عا لمی معیار کا ہے، وہ شہر جومیٹروپولیٹن ہے۔ وہ شہر جسےشنگھائی اور ٹوکیو بنانے کا خواب دیکھا اور دکھایا جارہا ہے لیکن آنکھوں کو خیرہ کردینے والے ان شہروں سے ابھی آمچی ممبئی برسوں پیچھے نظر آتی ہے!!
کرلا کپاڈیہ نگرسے بی کے سی تک جانے والے ایس سی ایل آر بریج کوجوبہ مشکل سال ڈیڑھ سال قبل آمدورفت کیلئے کھولاگیا تھا، گزشتہ دنوں بند کردیاگیا۔ وجہ یہ ہےکہ دو سیزن کی بارش میں ہی اس فلائی اوور کے درمیان میں ایسے گڑھے پڑگئے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔ بہترہوا کہ اسے کسی حادثہ سے قبل ہی مرمت کیلئے بند کردیاگیا۔ یہ ایک مثال ہے ممبئی کی سڑکو ں کی خستہ حالی کی۔ یہ عروس البلادکاحال ہےجوملک کی معاشی راجدھانی کہلاتی ہے۔ ایک طرف مرکزی حکومت ہے جو ملک کو کبھی۳؍ ٹریلین توکبھی ۵؍ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کااعلان کر تی ہے اور دوسری طرف ملک کی اقتصادی راجدھانی کا یہ حال ہے کہ یہاں آمد و رفت کا بنیادی انفراسٹرکچر عالمی معیار کا تو کیا، عوامی سطح پر بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔
بی ایم سی کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۳ء تک ممبئی میں کم و بیش ۵۹؍ ہزار۵۳۳؍ گڑھوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ امسال مانسون سے قبل، شہری ا نتظامیہ نے گڑھوں کی مرمت کیلئے ۲۷۵؍ کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ممبئی میں ۸؍ جولائی کو بھی شدید بارش ہوئی تھی اور۶؍گھنٹوں کے اندر۳۰۰؍ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ کئی نشیبی علاقوں میں پانی بھر گیاتھا۔ ان دنوں تعمیراتی اور مرمتی کاموں کا معیار دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہےکہ جہاں پانی بھرے گاوہاں گڑھوں کا بننا یقینی ہے اورگڑھےبنے ہیں۔ ان گڑھوں کو بھرنے اور ان کی مرمت کیلئے بی ایم سی نے اپنے۲۲۷؍ وارڈوں میں سے ہر ایک میں انجینئروں کو گڑھوں کی نشاندہی اور مرمت کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ اس کے علاوہ اب تک گڑھوں کی مرمت میں کوتاہی کرنے والے ٹھیکیداروں پر۵۰ء۵۳؍ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ بی ایم سی گڑھوں کے تعلق سے حساس اور متحرک تو ہےلیکن ا س احساس وحرکت کا کیا فائدہ جس سے سامنے نظر آنے والے نقصان سے بچا نہ جا سکتا ہو۔ جرمانہ کی شکل میں بی ایم سی کوغیر متوقع آمدنی تو ہوگی لیکن اس میں کنٹریکٹروں کو بڑا نقصان برداشت کرنا پڑےگا۔ اگر بی ایم سی ہر سال مانسون میں گڑھوں کی مرمت میں ہی دوڈھائی سوکروڑ مختص کر تی رہے گی توسڑکیں عالمی معیار کی کس طرح بنیں گی ؟
ایک رپورٹ کے مطابق سٹیزن ویلفیئر کے ایک ادارے ممبئی نارتھ سینٹرل ڈسٹرکٹ فورم(ایم این سی ڈی ایف)کے بانی ایڈوکیٹ تریون کمار کرنانی کا کہنا ہےکہ انہیں شہر بھر سے اور بالخصوص ایس وی روڈ پرولے پارلے، سانتا کروز، کھار اور باندرہ میں ہر روز گڑھوں سے متعلق کئی شکایات موصول ہوتی ہیں۔ ویسٹرن ایکسپریس ہائی وے پر بوریولی اورکاندیولی میں بھی گڑھوں پر شہریوں کا رونا عام بات ہے۔ کرنانی کا کہنا ہےکہ’’ یہ گڑھے بڑے پیمانے پر ٹریفک جام کا باعث بن رہے ہیں، ان سے شہریوں کی جان کو خطرات ہیں۔ اور ان سے شہریوں کو آئین کے آرٹیکل ۲۱؍ کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اچھی سڑک شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ ‘‘کرنانی نے اس کی جوابدہی طے کرنے پر زور دیا ہےاورلا پروائی پر ٹھیکیداروں کے خلا ف مجرمانہ بنیاد پرکارروائی کی وکالت کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: نیٹ تنازع :امتحان منعقد کیاجارہا ہے یا جوئے اور سٹے کا کاروبار چلایاجارہا ہے؟
ہندوستانی ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق’پوٹ ہول واریئرس‘ نامی ایک غیر منافع بخش تنظیم کے بانی مشتاق انصاری کا اس مسئلہ پر کہنا ہےکہ اس ماہ شدید بارش شروع ہونے کے بعد سے انہیں گڑھوں کی روزانہ ۱۰؍ سے۱۲؍ شکایات موصول ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی شکایات کو مشتاق انصاری ’ایکس ‘پر بی ایم سی کو ٹیگ کرکے پوسٹ کرتے ہیں اورکئی شکایات پر ان کی ٹیم بھی کارروائی کرتی ہےاورخود جہاں ممکن ہو، گڑھوں کو بھرتی ہے۔ مشتاق انصاری کے مطابق ’’یہ(گڑھے) خطرناک ہیں اور حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے بائیک اوررکشا کو کافی نقصان ہوتا ہے، ان کے ٹائر اور شاک اَپ خراب ہوتے ہیں، اس کی مجھے بہت سے لوگوں نے شکایت کی ہے۔ ‘‘ انہوں نے بہر حال کہا کہ گزشتہ ۳؍ سال میں سڑکوں کو کنکریٹ کا بنانے کے نتیجے میں گڑھوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن اب بھی شہرومضافات میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں بارش شروع ہوتے ہی گڑھوں کا مسئلہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ ‘‘
جوائنٹ کمشنر آف پولیس (ٹریفک) انیل کمبھارے نے گڑھوں کو ایک دائمی مسئلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ جہاں گڑھے ہیں وہاں حادثات کوٹالنےکیلئے ہم گاڑیوں کی نقل و حرکت کا رخ موڑنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے پر مجبور ہیں اور یہ اقدامات ٹریفک جام کا باعث بنتے ہیں۔ ‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں ’’ ٹریفک پولیس افسران گڑھوں کی تصویریں کھینچتے ہیں اور بی ایم سی کو مطلع کرتے ہیں۔ امسال گڑھوں کی شکایت پر بی ایم سی نے تین گھنٹے کا ریسپانس ٹائم طے کیا ہے یعنی شکایت ملنے پرمتاثرہ مقام پراسے تین گھنٹوں کے اندر اندر پہنچ کر گڑھے بھرنے کی کارروائی کرنی ہے۔ ہم بی ایم سی کے ساتھ روزانہ گڑھے بھرنے، راہیں ہموار کرنے ا ور سفر محفوظ بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ‘‘ایک بی ایم سی افسرکاکہنا ہےکہ ایک گڑھے کو مہینے بھر میں آٹھ آٹھ بار بھرا گیا ہے کیونکہ ایک بار بھرنے کے بعدوہیں دوبارہ گڑھا پڑجاتا ہے۔
ایڈیشنل میونسپل کمشنر ابھیجیت بانگرکے مطابق بی ایم سی نے شہر کے ۷؍ زونس میں سے ہر ایک کیلئے ۲؍ ٹینڈر دیے ہیں ۔ ایک۹؍ میٹر سے کم چوڑی سڑکوں کیلئے اور دوسرا ۹؍ میٹر سے سے زیادہ چوڑی سڑکوں کیلئے۔ ویسٹرن ایکسپریس ہائی وے اور ایسٹرن ایکسپریس ہائی وے اور ان کی سروس روڈز کیلئے الگ الگ ٹھیکے دیے گئے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر، بی ایم سی نے معاہدوں پر تقریباً۵۰۰؍ کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔
یہ سب کچھ شہر میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کیلئے کیاجارہا ہے۔ ممبئی میں کئی انتظامی ادارے ہیں۔ بی ایم سی بھی ہے، میونسپل کارپوریشن آف گریٹر ممبئی (ایم سی جی ایم) بھی ہے، ممبئی میٹروپولیٹن ریجنل ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (ایم ایم آر ڈی اے) بھی ہے۔ اس کے علاوہ میٹروکاکام کرنے والا الگ ادارہ ہے۔ یہ ادارےمل کرممبئی و مضافات کی تصویر بدلنے کاکام کررہے ہیں لیکن ساری کوششوں پر مانسون میں پانی پھر جاتا ہے۔ سارےپروجیکٹ اس وقت بے معنی نظر آتے ہیں جب شہرکی سڑکیں گھٹنوں اورکہیں کہیں کمرتک پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ سب ویز بند کرنے پڑتے ہیں۔ گاڑیاں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ گڑھوں کے سبب فلائی اووَر بند کرنے پڑتے ہیں۔ یہ تسلیم کہ انفراسٹرکچرکی تیاری اور اس کی تعمیر ومرمت ایک طویل اورمرحلہ وار عمل کا تقاضا کرتی ہے لیکن ممبئی جیسے شہر میں اور اس کے قریب آباددیگرچھوٹے شہروں میں یہ مسائل برسوں سے حل نہ ہوئے ہوں تو اس صورتحال کو کیا کہا جائے ؟ گڑھوں کا مسئلہ تو بالکل بنیادی ہے۔ اس پر تو مانسون سے پہلے اور بعد میں جنگی پیمانے پرکام کی ضرورت ہے لیکن دیکھا گیا ہےکہ مہینوں کام چلتا رہتا ہے اور مانسون سے پہلے بھی نامکمل رہ جاتا ہے۔ کس طرح کام ہورہا ہے، کیا مٹیریل استعمال کیا جا رہا ہے، کسی چیز کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ یہاں یہ سوال بھی اب بے معنی معلوم ہوتا ہےکہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟