• Sun, 17 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسلام کا انسانیت کو لوح و قلم کی اہمیت سے آشنا کرنا اور اہل اسلام کی عظیم علمی معرکہ آرائی

Updated: October 11, 2024, 5:36 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani

اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب ایک ایسے نبی کی اُمت ہیں ، جن کی نبوت کا سا یہ قیامت تک قائم رہے گا، جن کی لائی ہوئی شریعت ایک زندہ شریعت ہے جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ اور زندگی کی ضرورتوں اور مصلحتوں کو پوری کرنے والی ہے۔

There are a large number of Islamic manuscripts in different regions of the world, among which Turkey is at the top. Photo: INN
دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی مخطوطات کی ایک بڑی تعداد ہے جن میں ترکی سرفہرست ہے۔ تصویر : آئی این این

اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب ایک ایسے نبی کی اُمت ہیں ، جن کی نبوت کا سا یہ قیامت تک قائم رہے گا، جن کی لائی ہوئی شریعت ایک زندہ شریعت ہے جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ اور زندگی کی ضرورتوں اور مصلحتوں کو پوری کرنے والی ہے۔ جو شریعت انسانی زندگی سے متعلق ہو اور جو دین قیامت تک بے آمیز طریقہ پر باقی رہنے کیلئے ہو، ضروری ہے کہ اس سے متعلق علوم و فنون بھی زندہ و پائندہ رہیں، وہ کہنگی نا آشنا ہوں اور ان کی تازگی ہمیشہ برقرار رہے؛ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا کے دیگر مذاہب اور ان کی مذہبی کتابوں سے متعلق علم و تحقیق کا سلسلہ یا تو مسدود ہو چکا ہے یا محدود، مگر اسلام وہ دین برحق اور قرآن مجید وہ از لی کتاب ِ ہدایت ہے، جس میں کسی وقفہ کے بغیر علم وتحقیق کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال کی بہترین ذہانتیں ان علوم وفنون کی آبیاری میں خرچ ہوتی رہی ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ اسلام نے علم کو جو اہمیت دی ہے، مذاہب عالم میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے۔ (طبرانی عن حذیفہ بن یمان، بحوالہ مجمع الزوائد، حدیث نمبر : ۴۷۸) آپ ؐ نے یہ بھی ارشاد فر مایا کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کے ساتھ خیر کا معاملہ فرماتے ہیں تو اس کو تفقہ یعنی علمی گہرائی عطا فرماتے ہیں۔ (سنن ترمذی: ۲۶۴۵) یہ اور ایسے کئی ارشادات نبویؐ ہیں، جن میں علم کو بہ مقابلہ دوسرے اعمال کے ترجیح دی گئی ہے، یہاں تک کہ حضرت علیؓ کا قول مروی ہےکہ اس عبادت میں خیر نہیں، جس کے ساتھ علم نہ ہو اور وہ علم مفید نہیں جس کے ساتھ فہم نہ ہو۔ (سنن دارمی، حدیث نمبر: ۲۹۸) 
یہ اسلام کا فیض ہے کہ اس نے انسانیت کو لوح و قلم کی اہمیت سے آشنا کیا۔ پیغمبرؐ اسلام پر جو پہلی وحی نازل ہوئی، خود اس میں علم کا ذکر موجود ہے۔ قرآن نے قلم کی قسم کھائی ہے: ’’قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ ‘‘ (سورہ القلم )۔ عربوں کا حال یہ تھا کہ انہیں اپنے اُمی ہونے پر فخر تھا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ جب رسولؐ اللہ کی ولادت باسعادت ہوئی تو مکہ میں صرف تیرہ لوگ لکھنا جانتے تھے اور جب آپؐ مدینہ تشریف لائے تو انصار میں صرف گیارہ لوگوں کو لکھنا آتا تھا اور عورتوں کے کا تب ہونے کو تو بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا لیکن یہ آپ ؐ کا فیض ہے کہ صرف آپؐ کے کا تبان وحی کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے، آپؐ نے خواتین کیلئے لکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور خود ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو کتابت سکھوائی۔ اس لئے تحریر و تالیف اور بحث و تحقیق اس امت کو میراث میں ملی ہے۔ مسلمانوں نے کتابت کے وسائل پر بھی توجہ دی ہے، عرب عام طور پر اونٹ کی ہڈیوں، کھجور کی چھالوں اور بعض نرم سفید پتھروں پر لکھا کرتے تھے۔ اسلام کے آنے کے بعد بتدریج اسے ترقی حاصل ہوئی یہاں تک کہ عالم اسلام میں عباسیوں کے دور ہی سے کاغذ کا استعمال عام ہو گیا، اس وقت پریس کا وجود نہیں تھا اس لئے ’’وراقی‘‘ کا پیشہ شروع ہوا، نقل نویس ’’وراق‘‘ کہلاتے تھے اور انہیں معاشرہ میں بڑا مقام حاصل تھا، بڑے اور عظیم شہروں میں ان کے باضابطہ بازار ہوا کرتے تھے۔ علامہ مقریزی نے اپنی کتاب ’’خطط‘‘ میں تفصیل سے وراقین کا اور ان کے تحریری کمالات کا ذکر کیا ہے، یہاں تک کہ اسماء رجال کی کتابوں میں بعض دفعہ شخصیتوں کے تذکرہ میں حسن خط کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ نبی ٔ عربی اُمی کا اعجاز تھا کہ جو قوم لکھنے پڑھنے سے بالکل ہی نابلد تھی، وہ علمی کمالات اور بحث و تحقیق کے میدان میں امامت کے درجہ پرفائز ہوگئی۔ اب ضرورت ہے کہ پھر اسی جام کہن کا دور چلے، علم تحقیق کی مجلسیں آراستہ ہوں اور موجودہ عہد کی ضرورت کے مطابق علماء اسلام دین و علم دین کی خدمت کا فریضہ انجام دینے کو ترجیحات میں رکھیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:نئے (مجوزہ) وقف قانون کی شقیں اور وقف بورڈ پر اعتراضات کی حقیقت قسط ۲

شاید یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی نظام تھا کہ خلافت راشدہ کے عہد زریں تک تو سیاسی اور دینی قیادت کا مرکز ایک ہی رہا لیکن جیسے جیسے سیاسی اقتدار کے ایوانوں پر خدا نا ترس لوگ مسلط ہوتے گئے اور اللہ کے دین کو نافذ کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عیش کوشی کیلئے اس میدان میں طالع آزمائی کرنے لگے، اقتدار کے دوالگ الگ مرکز قائم ہو گئے۔ ایک مرکز سیاسی قیادت کا تھا، دوسرا مرکز دینی رہنمائی کا تھا۔ پہلے مرکز سے ملک و مال کے فاتحین پیدا ہوئے اور دوسرے مرکز سے مفسرین و محدثین، فقہا ء و صوفیاء اور دین کے مخلص شارحین و مبلغین وجود میں آئے۔ اگر چہ اس تقسیم سے بعض نقصانات بھی ہوئے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے دو بڑے فائدے بھی ہوئے، ایک یہ کہ اسلام کا پیغام ہر طرح سے محفوظ رہا، حکومت کا جبر و استبداد بھی اس پر اثر انداز نہ ہو سکا، یہاں تک کہ صورتحال یہ تھی کہ اگر کوئی محدث شاہی دربار میں آمد و رفت رکھتا اور سرکاری عہدہ قبول کرتا تو محدثین اس کی روایت لینے سے گریز کرتے اور اگر کوئی فقیہ ایوان حکومت سے تعلق رکھتا اور کسی سرکاری عہدہ پر بٹھایا جاتا تو لوگ اس کے فتویٰ کو نا معتبر مانتے۔ یہاں تک کہ امام ابو یوسفؒ نے عہد و قضاء کو عباسی خلفاء کی بتدریج اصلاح کیلئے استعمال فرمایا، کتاب الخراج جیسی کتاب لکھی اور اس کے مقدمہ میں نہایت دردمندی کے ساتھ حکمرانوں کو دین و شریعت کی طرف متوجہ فرمایا۔ 
 اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ سیاسی طوفان آتے اور جاتے رہے، اقتدار کے لئے کشت و خون کابازار گرم ہوتا رہا لیکن ان آندھیوں نے علم کے چراغ کو بجھنے بلکہ مدھم تک ہونے نہیں دیا؛ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جو زمانہ شدید سیاسی اتار چڑھاؤ کا رہا ہے، عین اس زمانہ میں بھی اہل علم نے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دیئے ہیں اور ایسی کتا ہیں تالیف کی ہیں، جن کی مثال نہیں ملتی؛ بلکہ ایسا بھی ہوا کہ جب عالم اسلام کا چپہ چپہ تاتاریوں کے قدموں کی دھمک سے لرز اٹھا تو اہل علم نے دوسرے علاقوں میں ہجرت کی اور وہاں سے گیسوئے علم کو آراستہ کرتےرہے۔ 
سلف صالحین علم و تحقیق کے کام کو ایک عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ علامہ ابن جوزیؒ کثیر التصنیف علماء میں تھے، انہوں نے ڈھائی سو کتا بیں تصنیف کی ہیں اور خود فر مایا کہ میری ان انگلیوں نے دو ہزار جلدیں لکھی ہیں۔ انہوں نے حدیث شریف کی جو کتا ہیں لکھیں، ان کے قلموں کے تراشے جمع کرتے گئے اور وصیت کی کہ انہی تراشوں سے میرے غسل کا پانی گرم کیا جائے؛ چنانچہ ان کی وصیت پر عمل کیا گیا۔ امام ابوجعفر طبریؒ کی وفات کے بعد ان کی تصنیفات کو شمار کیا گیا توابتدائے جوانی سے یوم وفات تک ۱۴؍ ورق روزانہ کا اوسط پڑا۔ ابن شہاب زہریؒ کے علمی اشتغال کا حال یہ تھا کہ ان کی بیوی ان کی کتابوں کے بارے میں کہتی تھیں کہ یہ مجھ پر تین سوکنوں (سوتنوں ) سے بڑھ کر ہیں۔ وہ کھانے کے وقت بھی اپنے مسودہ کا مطالعہ کرتے رہتے اور ان کی بہن ان کے منہ میں لقمہ ڈالتی جاتی تھی۔ امام رازیؒ کو افسوس ہوتا کہ ان کے کھانے کا وقت ضائع ہو جاتا ہے؛ کیونکہ وہ وقت علمی اشتغال سے خالی رہتا ہے، پھر جو کچھ لکھا اور پڑھا جاتا، اس کے پیچھے گہری تحقیق اور غیر معمولی محنت کارفرما ہوتی تھی۔ 
افسوس کہ اہل علم کا بہت سارا علمی ذخیرہ آج دستیاب نہیں ہے، بعض کم فہم لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ اگر کسی عالم کی کسی تالیف کا کتابوں میں تذکرہ ملتا ہے، لیکن اب وہ دستیاب نہیں ہے تو لوگ ان کی تصنیفات کو ماننے سے انکار کر جاتے ہیں اور بعض تعصبات کی بنا پر اس کو جھوٹ قرار دیتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جس دور میں علم و فن کے چراغ جلائے، وہ دَور پریس کی سہولتوں کا نہیں تھا علمی کاموں کیلئے دماغ کے ساتھ ساتھ آنکھوں کا چراغ بھی جلانا پڑتا تھا اور الفاظ و نقوش کے لعل و گہر مشینوں کے ذریعہ نہیں ؛ بلکہ اپنے ہاتھوں سے پروئے جاتے تھے، اس لئے بڑی مشقت سے کتاب کی تالیف پایہ تکمیل کو پہنچتی تھی اور کبھی کبھی اتنی ہی دشواری کے ساتھ اس کے قلمی نسخے تیار کئے جاتے تھے، پھر ان کی حفاظت کیلئے معقول انتظام بھی نہیں تھا۔ زیادہ تر انفرادی طور پر لوگ ان علمی جواہر کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے تھے، اس لئے بہت سارے مخطوطات ضائع ہو گئے۔ خاص کر جب تاتاریوں نے بغداد کا عظیم الشان مکتبہ جلا کر خاکستر کر دیا تو علم وفن کے کتنے ہی جواہر پارے ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہو گئے۔ 
کہا جاتا ہے کہ ان کتابوں کی راکھ سے دریائے دجلہ پر پل بنایا گیا، اس سے اس خزانۂ علمی کی کثرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ تا تاری قوم غیر مہذب اور وحشی تھی لیکن موجودہ دور میں جو لوگ اپنے آپ کو تہذیب و شائستگی کا نمائندہ سمجھتے ہیں، انہوں نے بھی علمی خزانہ کی تباہ کاری میں کچھ کم ’’بہادری‘‘ کا مظاہر ہ نہیں کیا۔ کویت اور عراق کی جنگ میں جامع امام ابو حنیفہ بغداد سے منسلک مخطوطات کی ایک بڑی لائبریری کو عصر حاضر کے تا تاری یعنی امریکہ نے بمباری کر کے راکھ کا ڈھیر بنا دیا، اسی طرح کتنے ہی مخطوطات ہیں جن کو مغرب کی استعماری طاقتیں مشرقی اور اسلامی ملکوں سے لوٹ کر لے گئیں، ان میں سے بعضوں نے یقیناً بہتر طور پر ان کی حفاظت کا انتظام بھی کیا لیکن بہت سے مخطوطات ضائع بھی کر دیئے گئے، اس لئے یہ سمجھنا کم فہمی ہوگی کہ جن تالیفات کا کتابوں میں ذکر آیا ہے، اگر وہ آج دستیاب نہ ہوں تو گزشتہ مؤلفین کے بیان کو خلاف واقعہ سمجھا جائے گا۔ 
اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس وقت بھی دُنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی مخطوطات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ترکی، بقول ڈاکٹر حمید اللہ صاحب، ان مخطوطات کا دارالخلافہ ہے اور عالم اسلام کے خاص خاص ملکوں میں ان کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن برصغیر کا مقام بھی اس معاملہ میں کم نہیں ہے۔ سندھ کا علاقہ تو اس کیلئے معروف رہا ہی ہے، لیکن موجودہ ہندوستان میں بھی مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ، شعبه مخطوطات مشرقی حیدر آباد، رضاءلائبریری رامپور، نیشنل لائبریری کلکتہ، ٹونک، بھوپال، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی خاندانی لائبریری اور نہ جانے کتنے انفرادی مکتبے اور دینی درسگاہوں اور علمی اکیڈمیوں کی لائبریریاں ہے، جو اِن خزانوں سے معمور ہیں۔ 
اس کے باوجود آج بھی بہت سے مخطوطات ان دفینوں کی نذر ہیں جہاں تک اہل علم کی رسائی نہیں ہو پائی ہے۔ ابھی بھی بے شمار مخطوطات ہیں جو منظر عام پر نہیں آپائے ہیں، اسی طرح بعض مخطوطات وہ ہیں جو اگر چہ طبع ہوئے ہیں، لیکن ان میں اغلاط کی کثرت ہے، نصوص کی تصحیح پر توجہ کم دی گئی ہے، بعض کتابیں جن مصنفین کی طرف منسوب کر کے شائع کی گئی ہیں، علماء کے نزدیک اس کی نسبت بجائے خود مشکوک ہے؛ اسلئے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں علمی و تحقیقی اکیڈمیاں اور اعلیٰ دینی تعلیمی درسگا ہیں اس اہم خدمت کی طرف متوجہ ہوں اور اس جانب سے کسی قیمت پر غفلت نہ برتیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK