• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مذہب سے دُور اور فطرت سے بغاوت پر مبنی تمدن

Updated: June 21, 2024, 1:06 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

سفر نامہ ٔ ری یونین کی پہلی قسط میں ملاحظہ کیجئے ماریشس کے قریب واقع جزیرۂ ری یونین کے حالات جو فرانس کی کالونی اور مغربی تمدن کا ایسا جھروکہ ہے جو مغرب کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

In France, whether in public spaces or seaside resorts, cleanliness is everywhere. Photo: INN
فرانس میں عوامی مقامات ہوں یا ساحلی تفریح گاہیں، ہر جگہ صفائی کا بہترین نظم ہے۔ تصویر : آئی این این

بر اعظم افریقہ کے سمندر میں کئی جزائر ہیں، ان میں ایک ری یونین ہے، دوسرا ماریشس ہے۔ مَیں دونوں جزائر میں پہلے بھی جا چکا ہوں۔ ری یونین فرانس کی کالونی ہے؛ اگرچہ فرانس نے یہاں کے باشندوں کو آزادی کی پیشکش کی تھی لیکن جزیرہ میں رہنے والوں نے فرانس کا حصہ رہنے کو قبول کیا، ماریشس برطانیہ کے زیر قبضہ تھا۔ اُس نے آزادی حاصل کر لی۔ ماریشس میں زیادہ تر ہندوستانی نژاد لوگ رہتے ہیں ؛ اس لئے ہندوستان سے جانے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں ہیں۔ زیادہ آبادی ہندوؤں کی ہے، اس کے بعد مسلمانوں کی، پھر بدھشٹوں اور عیسائیوں کی ہے۔ تہذیب بھی بڑی حد تک یہاں سے ملتی جلتی ہے لیکن ری یونین جو فرانس کا حصہ ہے، وہاں کے لوگوں کو یورپ کی شہریت حاصل ہے؛ اس لئے اُن کے حالات کافی مختلف ہیں اور اُن کی پوری ثقافت یورپ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ یہاں یوں تو ایشیائی نسل کے لوگ ہیں لیکن غلبہ افریقی نسل کے لوگوں کا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ سفید فام لوگ بھی آباد ہیں، مسلمانوں کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے لیکن معاشی اعتبار سے اُن کی حالت کو مستحکم شمار کیا جاسکتا ہے۔ 
 جیسا کہ عرض کیا گیا، ان ملکوں میں یوں تو میں پہلے بھی جا چکا ہوں لیکن مولانا محمد زکریا گنگات کی دعوت پر ۱۸؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو میں براہ ماریشس ری یونین کیلئے روانہ ہوا۔ یہ جمعرات کا دن تھا۔ بعد مغرب ہمارا سفر شروع ہوا، اور وقت کے فرق کی وجہ سے جمعہ کے دن جمعہ سے پہلے ہم لوگ ری یونین پہنچ گئے۔ اس سفر کا خصوصی پروگرام اس لئے بنا کہ وہاں فرنچ زبان میں اسلام پر مولانا انس لالہ صاحب کی کتاب اور عربی زبان میں عزیز مکرم مولانا یحییٰ گنگات سلمہ کی کتاب کی رسم اجراء ہونی تھی۔ آخر الذکر کتاب مغربی ملکوں میں مسلم اقلیت کے شرعی مسائل پر ہے، اور ان کا وہ مقالہ ہے جو انھوں نے المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے تخصص فی الفقہ سال دوم کے لئے لکھا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مائیگی کا احساس بھی ہے

 یوں تو یورپ کے کئی ملکوں کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے اور خود ری یونین بھی ایک سے زیادہ بار جا چکا تھا؛ لیکن اس بار وہاں مسلسل پندرہ دنوں تک قیام کا موقع ملا، اور میرا خیال ہے کہ اگر یورپ کے مزاج کو سمجھنا ہو تو اس کو فرانس سے سمجھنا چاہئے کیونکہ یہیں سے مذہب کے خلاف بغاوت شروع ہوئی اور آج بھی یہ ملک مذہب بیزاری میں سب سے نمایاں ہے۔ ان دو ہفتوں میں وہاں متعدد پروگراموں میں شریک ہونے کا اور بہت سارے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور میں نے گہرائی کے ساتھ یورپ کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی؛ کیوں کہ فرانس ایک فوجی طاقت ہے، چاہے مغرب کی سب سے بڑی طاقت نہ ہو؛ لیکن ثقافتی پہلو سے وہ مغرب کا قبلہ ہے۔ 
 میں نے فرانس کے آئینہ میں پورے یورپ کی تصویر دیکھی جو مجھے دو رُخی نظر آئی، ایک پہلو وہ ہے، جو انسان کو بہت متأثر کرتا ہے، اور اسلام نے جو اخلاقی تعلیمات دی ہیں، اس کا عملی نمونہ نظر آتا ہے، جیسے صفائی ستھرائی، گھر کے اندر اور باہر، سڑک ہو یا بازار، مسجد ہو یا میریج ہال، سمندر کا ساحل ہو یا عوامی مقامات، ہر جگہ اتنی صفائی ستھرائی کہ انسان چاہے تو وہیں لیٹ جائے، روشنی کا بقدر ضرورت استعمال، ہمارے ملکوں کی طرح روشنی کا سیلاب نہیں۔ مغرب ہوتے ہی سر شام پوری مارکیٹ بند ہو جاتی ہے اور سوائے کلبوں اور میڈیکل اسٹور کے کوئی دکان کھلی نہیں رہتی، رات دیر تک جاگنے اور ہوٹل بازی کرنے کا عمومی مزاج نہیں ہے، راستہ چلنے والوں بالخصوص بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور بیماروں کا بہت خیال کیا جاتا ہے، چاہے ریڈ سگنل نہ ہو تب بھی گاڑی روک دی جاتی ہے، نو واردوں کے ساتھ بھی پورے اخلاق کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے، چیخنے چلانے اور جھگڑنے کی آواز نہیں آتی، خرید وفروخت وغیرہ میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دے کر پیسہ اینٹھنے کا مزاج نہیں ہے، انسان کہیں بھی نکل جائے، اپنے کو مامون اور محفوظ سمجھتا ہے۔ سر راہ چھیڑنے اور زور زبردستی کرنے کے واقعات کم ہی پیش آتے ہیں، حکومت ٹیکس اتنا ہی لیتی ہے جتنا ہندوستان میں ہے؛ لیکن وہاں ہر شہری کیلئے مفت علاج، ہر بچہ کیلئے مفت تعلیم اور بے گھر لوگوں کیلئے مکان کا نظم یا کرایہ میں تعاون، بوڑھوں اور مریضوں کیلئے خدمت کا انتظام وغیرہ کی سہولت دی جاتی ہے؛ اس لئے لوگ وہاں کبر سنی کے باجود تنہا زندگی گزارنے پر بھی آمادہ رہتے ہیں۔ 
 انسانی خدمت اور ظاہری اخلاق کے اعتبار سے بہت سی خوبیاں وہاں نظر آتی ہیں، اور یہ لوگوں کے مزاج کا حصہ بن گئی ہیں ؛ لیکن ان کی زندگی کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ خدا اور مذہب کیلئے ان کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس بات نے ان کو فطرت کا باغی بنا دیا ہے، بڑی سے لے کر چھوٹی باتوں تک قدم قدم پر فطرت سے بغاوت کا اظہار ہوتا ہے، انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کی طرف لپکتا ہے، خاص کر کسی مصیبت میں گھر جانے کے بعد۔ قرآن مجید نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کیا، وہ بھی مصیبت کی گھڑی میں اُسے پکارتے ہیں، اور رسمی طور پر ہی سہی، عبادت گاہوں سے رجوع کرتے ہیں مگر یورپ کے چرچ ویران ہیں، اور مردم شماری کے خانہ کے اعتبار سے جو لوگ عیسائی کہلاتے ہیں، وہ بھی چرچوں میں نہیں جاتے۔ 
 جب شیطان کسی فرد یا گروہ کے دل ودماغ کو مسخر کر لیتا ہے تو وہ اسے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی لانے پر اُکساتا ہے: (النساء: ۱۱۹) یورپ اس وقت اس کی واضح مثال ہے۔ اگر کسی کو اس کی عملی مثال دیکھنی ہو تو اس کو یورپ کو دیکھنا چاہئے۔ وضع قطع، باہمی تعلقات اور مردوں اور عورتوں کے ساتھ سلوک گویا ہر جگہ فطرت سے بغاوت کا جذبہ نمایاں ہے۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب ماں باپ کی عمر بڑھتی ہے تو اس کو ان کی خدمت کرنے یہاں تک کہ ان کا غصہ برداشت کرنے میں بھی لطف آتا ہے، بوڑھے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ ایسی لگتی ہے کہ گویا اولاد پر محبت کے پھول برس رہے ہوں ؛ لیکن یورپ میں والدین انسان کو ایسا بوجھ محسوس ہوتے ہیں کہ آدمی کتے اور بلی کی پرورش تو کر لیتا ہے؛ لیکن بوڑھے والدین کو اپنے گھر میں رکھنا نہیں چاہتا۔ یا تو وہ تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یا ان کو اپنے پیاروں سے دور بوڑھوں کے ہاسٹل میں رکھ دیا جاتا ہے، جہاں کوئی ان سے محبت کے دو بول بولنے والا بھی نہیں ہوتا۔ 
 مرد کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے وجود کو اپنی بیوی بچوں کی ملکیت تصور کرتا ہے، ان کے ایک ایک سامان ِ راحت کیلئے ہر طرح کی قربانی دیتا ہے، خود بھوکا رہ کر بچوں کو کھلاتا ہے، خود معمولی پہن کر ان کیلئے اچھے لباس کا انتخاب اور اُس کی خرید کرتا ہے؛ لیکن یورپ کا مزاج ایسا ہے کہ بیوی مرد کے لئے محض نفسانی خواہش پوری کرنے کا ذریعہ ہے، دونوں ایکدوسرے پر قربان ہونے کے بجائے ایکدوسرے سے زیادہ سے زیادہ حقوق کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہ یورپی معاشرہ کا نمایاں پہلو ہے۔ 
 ایک بار لندن میں مجھے ایک ہندوستانی نژاد دکان دار نے بتایا کہ ہندوستان میں میاں بیوی جب کوئی چیز لینے کیلئے آتے ہیں تو شوہر چاہتا ہے کہ بیوی کو اچھی سے اچھی چیز دلائے، چاہے اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہ بچے؛ لیکن یہاں جب مشترکہ استعمال کی چیز خریدتے ہیں تو شروع سے آخر تک لڑائی رہتی ہے کہ دوسرا فریق اس کی ادائیگی کرے، اور جب بیوی کے استعمال کی چیز لی جاتی ہے تو شوہر چاہتا ہے کہ وہی اس کی قیمت ادا کرے، شوہر کو ادا کرنا نہ پڑے۔ 
  اولاد انسان کیلئے اس کی زندگی کے بعد سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے، اور شوہر و بیوی دونوں خواہشمند ہوتے ہیں کہ شادی کے بعد وہ جلد سے جلد ماں باپ بن جائیں، اور جب اللہ کے حکم سے اُن کے ہاں وِلادت ہوتی ہے تو پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، یہ انسانی فطرت ہے۔ قرآن مجید نے کم از کم دو پیغمبروں کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے بڑی گریہ وزاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعافرمائی، ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام، دوسرے حضرت زکریا علیہ السلام، اور پھر وہ اولاد سے نوازے گئے؛ لیکن یورپ میں ایک رجحان اولاد سے اجتناب کا پیدا ہوگیا ہے، شوہر اور بیوی دونوں سمجھتے ہیں کہ بچے ہماری آزادی اور عیش کوشی میں خلل انداز ہوں گے؛ اس لئے ان سے جس قدر دامن بچایا جائے بہتر ہے؛ اس لئے بعض لوگ تو بے اولاد رہ کر پوری زندگی گزار لیتے ہیں، اور بعض دیر سے ماں باپ بننا پسند کرتے ہیں اور اگر کسی کے یہاں ایک سے دو بچے ہو جائیں تو اس کے بعد مزید اولاد ان کیلئے بالکل ناقابل قبول ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فطرت کے خلاف بات ہے، دنیا بھر میں جتنی اہم شخصیتیں گزری ہیں، ان میں سے زیادہ تر کے ماں باپ کثیرالاولاد تھے، اور قدرت کی طرف سے ان کی پیدائش کا نمبر چوتھا، پانچواں، چھٹا وغیرہ تھا۔ اولاد کی جو فطری طلب انسان میں رکھی گئی ہے، اس کو عام طور پر کتوں اور بلیوں سے پورا کیا جاتاہے، کتوں کی وہ ناز برداری کی جاتی ہے جو کسی طرح ہمارے ملک میں بچوں کی ناز برداری سے کم نہیں ہے۔ 
 انسان کی فطرت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ بچوں کو اپنی آغوش محبت میں رکھنا چاہتا ہے؛ اسی لئے ماں بننے کے ساتھ ہی عورت کے سینے سے دودھ کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے، جو نومولود کے کام آتا ہے، ماں سے اگر اس کا بچہ چھین لیا جائے تو اس کیلئے ناقابل برداشت ہوتا ہے، اگر شوہر وبیوی میں علاحدگی کی نوبت آئے تو شوہر کو اسی کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے کہ اس کے بچے اس سے دور ہو جائیں گے۔ محبت کا، پرورش کا اور اپنی گود میں کھلانے کا یہ جذبہ فطری ہے؛ لیکن یورپ میں عورتیں چاہتی ہیں کہ بچہ کو اپنا دودھ پلانا نہ پڑے، بچے ڈبوں کا دودھ پئیں، بہت کم عمری اور بعض اوقات شیر خواری کی عمر میں بچوں کو ایسی پرورش گاہوں اور اسکولوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے، جہاں چھوٹے بچوں کی پرورش ہوتی ہے، ماں باپ اپنی اپنی ملازمت پر چلے جاتے ہیں چنانچہ ماں باپ سے بچوں کا تعلق ۲۴؍ گھنٹوں میں محض چند گھنٹے کا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ فطرت سے بغاوت کی ہی ایک شکل ہے! (سفرنامہ کی اگلی قسط آئندہ ہفتے) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK