• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عجلت پسندی کا مظاہرہ اور میانہ روی سے دُوری

Updated: June 28, 2024, 2:41 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

دین اور دُنیا کی پائیدار ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں عجلت پسندی کا مظاہرہ اور میانہ روی سے دُوری۔

There is no area of ​​life where things are not happening at an alarmingly fast pace.  In the midst of this fanfare, people have forgotten the lesson of moderation. He is creating stress in his own life through haste. Photo: INN
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں کام قیامت خیز تیز رفتاری سے نہ ہورہے ہوں۔ اس دھوم دھام کے بیچ انسان میانہ روی کا درس بھول چکا ہے۔ وہ عجلت پسندی کے ذریعہ اپنی ہی زندگی میں تناؤ پیدا کررہا ہے۔ تصویر : آئی این این

ہمارے تعلیمی اداروں سے جب طلباء وطالبات فارغ ہوتے ہیں تو وہ سند یافتہ تو ہو جاتے ہیں لیکن صحیح معنی میں کیا وہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ؟اس لئے کہ کچھ کو اگر چھوڑ دیا جائے تو بیشتر طلبہ امتحان کے نقطۂ نظر سے اور امتحان سے پہلے ہی پڑھائی کرتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جیسے تیسے کرکے امتحان تو کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن ان کتابوں سے ان کے اندر جو تعلیمی نکھار پیدا ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہوپاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے اس کائنات کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ یہاں جلدبازی سے کوئی کام انجام دیا جائے تو وہ بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوپاتا۔ ہاں جس کام میں ایک مناسب رفتار، ایک مناسب وقت لگے وہ کام نہایت مہارت اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام کو پہنچتا ہے۔ مفسرین نے زمین و آسمان کو بنانے کے لئے لگنے والے سات دنوں کے تذکرہ پر، جوقرآن مجید میں آیا ہے، یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ سب کن فیکون کہہ کر یکلخت پیدا کردیتا، لیکن انسان کو تدریج، ترتیب اور صبر سکھانے کے لئے سات دن میں زمین وآسمان بنائے گئے۔ اسی نکتے سے اگر ہمارے طلبہ یہ سمجھ جائیں کہ وہ صرف امتحان سے پہلےبہت ساری پڑھائی کرنےکے بجائے شروع تعلیمی سال ہی سے تھوڑی تھوڑی پڑھائی کریں توان پر پڑھائی بوجھ نہیں بنے گی۔ طلبہ کی یہ مثال صرف انسان کا یہ مزاج سمجھنے کیلئے ہے کہ انسان بہت سارا کام تھوڑے سے وقت میں کرکے بہت اچھے نتائج کا امیدوارہوتا ہے ۔ ہر عمر، مزاج اور میدان میں انسان کا حال یہی ہوتا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ عزوجل انسان کی اسی جلد بازی، عجلت پسندی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ‘‘ (الانبیاء: ۳۷) ایک اور جگہ اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے: ’’انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ ‘‘ (الاسراء:۱۱)

یہ بھی پڑھئے: دُنیا کے ہر قفل کی واحد کلید ہےایمان

اب انسان کا کمال یہی ہے کہ وہ اپنی اس جلدبازی پر قابو پائے اور صبر وتحمل کے ساتھ کام کرنا سیکھے۔ اسی لئے اسلامی تعلیمات میں ہمیں میانہ روی کا درس ملتا ہے تاکہ انسان اپنی اس عادت پر قابو پائے اور اعتدال، میانہ روی اور بردباری کا پیکر بنے۔ یہ اعتدال تو امت مسلمہ کی خاص صفت ہے۔ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور ( مسلمانو !) اسی طرح توہم نےتم کوایک معتدل امت بنایاہے، تاکہ تم دوسرےلوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پرگواہ بنیں ۔ ‘‘ (سورۃالبقرہ: ۱۴۳)۔ معلوم ہوا کہ اعتدال اس امت کے وجود کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ اگر ہم اسلام کے ابتدائی دو رکودیکھیں تو دین و دنیا کے ہر عمل میں اعتدال اور میانہ روی نے ہی امت کی دینی و دنیاوی اور روحانی وعلمی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مفسرین، محدثین، فقہاء و علماء نے اپنی زندگیاں اس امت کی علمی ترقی میں قربان کردیں تب جاکر فن ِ اسماء الرجال وجود میں آیا جس میں سند کے ذریعہ صحیح اور موضوع احادیث میں تفریق ہوسکی، تب جاکر فقہ کے مسائل مدون ہوسکے، تب جاکر عباسی دور میں بیت الحکمہ اور دار الترجمہ جیسے دو عظیم مرکز قائم ہوئے جن سے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور تب جاکر جغرافیہ، فلکیات، علم طب، تاریخ، فلسفہ اور دیگر علوم میں مسلمانوں نے وہ علمی کارنامے انجام دئیے جن کی وجہ سے وہ ساری دنیا پر مسلمان چھاگئے۔ 
 آج کے دور میں امت مسلمہ کے تنزل کی سب سے بڑی وجہ امت وسط کی صفت کو بھلادینا، افراط وتفریط کا شکار ہوجانا اور اعتدال و میانہ روی کی اہمیت کو فراموش کر دینا ہے۔ اس نکتہ کو سمجھانے کے لئے ایک عمدہ مثال مطالعے میں آئی کہ ہم ایک شاہ بلوط کے درخت کو دیکھیں اور کوئی عام سی بیل کو دیکھیں ۔ کوئی بھی پھل یا پھول کی بیل چند ہی مہینوں میں پوری دیوار پر پھیل جاتی ہے، اس کی ترقی بہت تیز ی کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اس کا اختتام بھی بہت جلد ہوجاتا ہے، اس کی عمر طویل نہیں ہوتی۔ جبکہ شاہ بلوط کے تناور اور بڑا ہونے کے لئے پندرہ تا بیس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، لیکن ایک مرتبہ جب یہ درخت مضبوط ہوجاتا ہے تو پھر اس کی عمر چھ سو سے ہزار سال کے درمیان ہوتی ہے۔ یعنی فطرت کا کارخانہ خود انسان سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اگر کوئی بھی کام درجہ بدرجہ اور میانہ روی کے ساتھ کیا جائے گا تو اس کے فوائد بھی بڑے دور رس اور طویل مدتی ہوں گے، اس کے برخلاف کوئی بھی کام اگر صرف بنا مضبوط بنیاد اور مستقل مزاجی کے ادا کردیا جائے تو پھر اس کے نتائج دیرپا ہوتے ہیں نہ ان کی اہمیت ہوتی ہے۔ 
 لیکن افسوس، فتنوں کے اس دور میں فطرتاً عاجل اور جلد باز انسان میں پروان چڑھنے والی دیگر بُرائیوں کے ساتھ ساتھ جلد بازی کی عادت بھی مستحکم ہورہی ہے۔ اب صبر وتحمل، بردباری اور میانہ روی جیسے الفاظ بالکل اجنبی سے محسوس ہونے لگے ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے زندگی میں ہر کام کو ایک نئی رفتار عطاکردی ہے۔ اب گھوڑا گاڑی اور بیل گاڑی کے بدلے ریل اور ہوائی جہاز سے سفرہونے لگے ہیں ۔ اب خط لکھ کر ہفتوں انتظار نہیں کیا جاتا، چند لمحات میں پیغام کی ترسیل ہو جاتی ہے۔ اب اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے پیدل چلنا دشوار ہوگیا ہے، اس کے بجائے بائیک اور کار کا سہارا لیا جاتا ہےاور اس پر بھی بعض لوگ ایک جنونی کیفیت کے ساتھ سوارہوتے ہیں کہ اپنی جان جائے یا کسی اور کی، ان کو بالکل بھی پروا نہیں ۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں کام قیامت خیز تیز رفتاری سے نہ ہورہے ہوں ۔ اس دھوم دھام کے بیچ حضرت انسان اسلام کا میانہ روی کا سکھایا ہوا درس بھول چکے ہیں ۔ جبکہ یہی میانہ روی، یہی مدھم رفتار ہے جو انسان کے ہر عمل کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ نماز، ذکر واذکار، حج اور دیگر عبادات الٰہیہ میں اسلام اسی متانت اور ٹھہراؤ کا ہم سے تقاضہ کرتے ہیں اور اسی کا درس ہمیں دنیاوی کاموں میں بھی دیا گیا ہے مگر نہ تو ہم سننے اور سمجھنے کیلئے تیار ہیں نہ عمل کرنے کا جذبہ ہم میں پایا جاتا ہے۔ اس عجلت پسندی اور تیز رفتاری کو ترک کئے بغیر اور صبر و تحمل کو اپنائے بغیر ہم کبھی حقیقی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ جو لوگ عبادات میں بھی عجلت پسند واقع ہوئے ہیں اُنہیں خاص طور پر سوچنا ہوگا کہ کیا اُن کا طرز عمل درست ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK