قوموں اور جماعتوں کی اصلاح، بغیر کسی اصول و ضابطہ کے محض اتفاقات کے تھپیڑوں سے نہیں ہو جایا کرتی، جو قو میں گرنے کے بعد سنبھلنے اور اضمحلال کے بعد اپنے اندر قوت و توانائی پیدا کرنے کی آرزومند ہوتی ہیں وہ اپنے سامنے تربیت و اصلاح کا واضح پروگرام اور عزم رکھتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر وہ رفعت اور سر بلندی کا کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتیں۔
مکہ معظمہ میں واقع غارِ حرا جہاں آپؐ پرپہلی وحی نازل ہوئی تھی۔ تصویر : آئی این این
قوموں اور جماعتوں کی اصلاح، بغیر کسی اصول و ضابطہ کے محض اتفاقات کے تھپیڑوں سے نہیں ہو جایا کرتی، جو قو میں گرنے کے بعد سنبھلنے اور اضمحلال کے بعد اپنے اندر قوت و توانائی پیدا کرنے کی آرزومند ہوتی ہیں وہ اپنے سامنے تربیت و اصلاح کا واضح پروگرام اور عزم رکھتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر وہ رفعت اور سر بلندی کا کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں اس اصول کی نہایت واضح اور صاف لفظوں میں یوں نشاندہی کی گئی ہے:
’’بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کریں۔ ‘‘ (الرعد :۱۱)
مگر اپنی حالت کو بدلنے والی بات ہے بہت مشکل۔ دریاؤں کے رخ بدلنا آسان ہے، زمین کا سینہ شق کرنا اور پہاڑوں کا جگر چیر دینا ممکن ہے مگر قلوب و نفوس کے اندر تبدیلی بہت ہی مشکل ہے۔
اس ناممکن کو ممکن بنانے والی قوت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے ایمان کی قوت۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کی تربیت و اصلاح کا ایک معین وقت ہوتا ہے یعنی سن الطفولہ (بچپن کا دور)۔ اگر یہ وقت گزر جائے تو پھر تکوین ِ عادات اور تہذیب و اخلاق کی کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ اسی طرح وہ اس امر کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں کہ آدمی جس ماحول میں پیدا ہوتا، بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے وہ بھی اس کے بناؤ اور بگاڑ کا بہت حد تک ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن ہم جس قوت ِ ایمانی کا ذکر کررہے ہیں اس کی معجز نمائی و کارفرمائی ہر آن مسلّم ہے۔ چاہے آدمی عمر کے کسی مرحلہ میں ہو اور چاہے اس کے حالات اس کی تبدیلی کی راہ میں سنگ ِ گراں بن کر کھڑے ہوں، ایمان کی ایک لہر ہی اس کے دل و دماغ کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ دربار فرعون سے وابستہ جادوگروں کی قلب ماہیت کا تذکرہ قرآن مجید میں پیش کیا گیا ہے۔ سورہ الشعراء کی آیات ۳۴؍ تا ۵۱؍ ملاحظہ کیجئے کہ ان کی شخصیات کیسے بدل کر رہ گئیں۔ کتنا بڑا اصلاحی انقلاب آناً فاناً ان کے اندر برپا ہوگیا۔ کہاں ان کی سوچ کا یہ انداز کہ ’’شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگر وہ غالب رہے۔ ‘‘ اور کہاں یہ بلندی ٔ فکر کہ ’’جادوگروں نے جواب دیا کہ قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں۔ ‘‘ (طٰہٰ : ۷۲) اور پہلی نیاز مندی کے مقابلے میں ذرا بعد کی جرأت ایمانی کا تیور دیکھئے:’’تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ‘‘ (طٰہٰ: ۷۲)
یہ بھی پڑھئے: مذہب سے دُور اور فطرت سے بغاوت پر مبنی تمدن
آج مغربی تاریخ داں حیران ہیں کہ باشندگانِ عرب جو بکریاں چَرایا کرتے تھے، قوموں اور ملکوں کے حکمراں کیونکر بن گئے؟ جو بادیہ نشین تھے وہ تمدن و حضارۃ کے رموز کیسے پا گئے اور انہیں فتح و نصرت کا کون سا گُر ہاتھ آگیا تھا کہ قیصر و کسریٰ کی با جبروت حکومتوں کے تختے الٹنے میں کامیاب ہوگئے؟ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ وہ راز بھی زیادہ دیر تک راز نہیں رہا بلکہ سرّ عیاں ہوچکا ہے۔ عربوں کی کایا پلٹ دینے والی چیز اکسیر ایمان تھی جس کے ذریعے محمد ﷺ نے اپنے صحابہ کی زندگیوں میں محیرالعقول انقلاب پیدا کیا۔ اسی اکسیر کی بدولت ان کے حالات میں تغیر رونما ہوا، ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا پورا ڈھانچہ تبدیل ہوا، بتوں کو پوجنے والے خداپرست بن گئے اور جاہلیت کی تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے والوں کے سینے نورِ ایمان سے منور ہوگئے۔
اقفالِ حیات کے لئے واحد کلید
حیات ِ انسانی کا عظیم الشان قصر ہر طرف سے مقفل تھا اور اس کے در وَا ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ عقل انسانی مقفل تھی جسے حکماء و فلاسفر کھولنے سے عاجز تھے۔ ضمیر انسانی مقفل تھا اور واعظین و مرشدین اس کا تالہ توڑنے میں ناکام ہوچکے تھے۔ دل و دماغ مقفل تھے جنہیں حوادث ِ زمانہ کے تھپیڑے تک کھول نہ سکے تھے۔ مدرسہ مقفل تھا جسے کھولنے پر اساتذہ و علماء قادر نہ تھے۔ خاندانی نظام مقفل تھا اور اس کے آگے مصلین و مفکرین کی کوئی پیش نہ چلتی تھی۔ قصر ِ حکومت مقفل تھا جسے مظلوم عوام، محنت کش کسان اور غریب مزدور اپنی متحدہ کوشش سے کھول نہ سکتے تھے۔ دولتمندوں کے خزانے مقفل تھے اور ان کے قفل غریبوں کی بھوک اور عورتوں اور بچوں کی برہنگی توڑ نہ سکتی تھی۔ عظیم مصلحین نے بارہا کوشش کی کہ ان تالوں کو توڑ دیا جائے تاکہ انسانیت کو زندگی کی حقیقی مسرتوں سے ہمکنار کیا جاسکے مگر بارہا انہوں نے منہ کی کھائی۔
حیات ِ انسانی کی اس مشکل کو بڑے بڑے دارالحکومتوں میں حل نہ کیا جاسکا اور عظیم الشان یونیورسٹیاں اور درسگاہیں اس سے عاجز آگئیں تو اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک چھوٹے سے غار میں فروکش انسانیت کے ایک عظیم محسن کے ہاتھ پر اس مشکل کو آسان کردیا گیا اور تمام اقفال ِ حیات کی کلید ان کی خدمت میں پیش کردی گئی، یعنی ایمان باللہ والرسول والیوم الآخر (اللہ، رسولؐ اور یوم آخرت پر ایمان) کی شاہ کلید جس نے ایک ایک قفل حیات کو کھول دیا۔
اس کلید نے عقل انسانی کا قفل کھول دیا اور وہ انفس و آفاق میں اللہ کی بے شمار نشانیاں دیکھنے کے قابل ہو گئی اور شرک و بت پرستی کی برائی کو محسوس کرنے لگی۔ اس نے خوابیدہ ضمیر انسانی کا قفل کھول دیا اور وہ بیدار ہو گیا اور شعور حقیقت سے بہرہ ور ہو کر خوب و نا خوب اور اچھے بُرے میں امتیاز کر نے لگا۔ اس نے ان دلوں کے قفل کھول دیئے جو نہ کسی چیز سے عبرت پکڑتے تھے نہ زجر و توبیخ ( زجر و توبیخ= دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ معنی: لعنت ملامت، جھڑکی، سرزنش) کا کوئی اثر ان پر ہوتا تھا اور نہ نرمی و رقت ان میں پیدا ہوتی تھی مگر ایمان باللہ کی کلید کے استعمال سے ان کے اندر خشوع وخضوع پیدا ہوا اور وہ حوادثِ روزگار سے عبرت پکڑنے لگے۔ کسی مظلوم کو دیکھتے تو اُن کے دل کے اندر ارتعاش پیدا ہو جاتا اور ضعیف و ناتواں پر نظر پڑتی تو جذبات ِرحم و شفقت سے مملو ہو جاتے۔ یہ ایمان کی دولت ملنے کا نتیجہ تھا۔ اس سے پہلے حیات انسانی کا دامن اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور دیگر مواہب و قویٰ سے معمور تو تھا مگر یہ تمام استعدادیں مقفل تھیں۔ ایمان باللہ کی کلید نے یہ اعجاز دکھایا کہ انسان کی جملہ مخفی استعدادیں اجاگر کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے چرانے والے اقوام و ملل کے پاسبان بن گئے۔ نیابت الٰہی سے ہمکنار ہوکر عالم پر حکمرانی کرنے لگے اور جو قبیلوں کے سردار تھے وہ ممالک و دول کی قیادت و سیادت پر فائز ہوگئے۔ دیکھا آپ نے اس کلید کے حیرت انگیز کارنامے؟
اس کلید نے درسگاہوں اور دانشکدوں کے قفل کھول دیئے، دُنیا کو علم کے شرف سے آگا ہی نصیب ہوئی اور عالم ومتعلم اور مربی و معلم کے فضل و تفوق پر رشک کرنے لگی۔ گھر گھر تدریس و تعلیم کی مسند بچھ گئی اور ہر بچے بوڑھے اور نوجوان کیلئے زیور علم سے آراستہ ہونا ضروری ٹھہرا۔ اسی کلید نے عدل و انصاف کے مقفل ایوان تک اہل عالم کو رسائی بخشی چنانچہ حکام وقضاۃ عدل و انصاف پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے لگے اور مظلوموں اور ستم کشوں کے دن پھر گئے اور ظلم وجور سے معمور خدا کی خدائی، رحمت الٰہی کا گہوارہ بن گئی۔ کیسی شاندار کایا پلٹ تھی یہ!
اس کلید کے ہاتھ لگنے سے پہلے خاندانی نظام تہ و بالا تھا، بیٹا باپ کے حقوق پر دست درازی کر رہا تھا اور بھائی بھائیوں کو لو‘ٹنے کے درپے تھا۔ مزید بر آں خاندانی نظام کا یہ فساد معاشرہ تک متعدی ہو چکا تھا۔ آقا خادموں پر ستم توڑ رہے تھے اور بڑے چھوٹوں پر۔ ان حالات میں ایمان باللہ کی کلید نے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق یاد دلائے اور ان کا تحفظ کرنا سکھا یا، باہمی رحمت و مودت پر تعلقات استوار کئے، خدا کا خوف اور آخرت کی فکر دلوں پر مسلط کی اور اس حقیقت کا گہرا شعور بخشا کہ آدمیت بنیادی طور پر انسانیت کے احترام اور انسانیت کی خدمت کا نام ہے۔
ایمان سے سرفرازی کے نتیجے میں معاشرتی زندگی کی چولیں جو ڈھیلی ہو چکی تھیں انہیں پھر سےکس دیا گیا اور معاشرہ میں عدل واخوت کی روح دوڑا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی خیر خواہی و ہمدردی کے جذبات پیدا ہوگئے، قوم کا سردار قوم کا خادم بن گیا اور امراء و اغنیاء نے اپنی دولت کا رخ غربا و مساکین اور محروم لوگوں کی طرف پھیر دیا۔
قصہ مختصر یہ کہ افراد ِمعاشرہ کی اصلاح کیلئے جتنا موثر کردار ایمان ادا کرتا ہے اور کوئی چیز نہیں کرتی لہٰذا جس طرح کلید ایمان سے سیکڑوں سال پہلے معاشرہ مبدل بہ اصلاح ہو گیا تھا اسی طرح دور جدید کے تمام مشکل مسائل حیات کو بھی ایمان کی بنیاد پر حل کیا جا سکتا ہے۔
یہا ں ایک وضاحت اہمیت کی حامل اور ضروری معلوم ہوتی ہے۔ قارئین جان لیں کہ جدید مسائل حیات کے لیے اس کلید کو قدیم اور غیر کار آمد بتانا لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مسائل کو جدید سمجھنا ہی غلط ہے چنانچہ ان کے جدید حل کی تلاش بھی غلط ہے۔