• Sat, 11 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سرکارِ دو عالم ؐنے فرمایا: اللہ سے حیا کرو، جیسا کہ حیا کا حق ہے

Updated: January 10, 2025, 9:37 PM IST | Doctor Shagufta Umar | Mumbai

دنیا کے تمام معاشروں میں گھر اور اجتماعیت میں اخلاق، رہن سہن، حیا، لباس اور انداز و گفتار کے ضابطے طے کئے جاتے ہیں۔ اسلام کیونکہ خود مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے تو یہ ضابطے اسلام کی بنیادی تعلیمات، عبادات اور اخلاقی نظام میں ہی موجود ہیں۔

The protection of chastity and the injunctions of hijab in society are not simply the use of certain clothes or specific actions, but are founded on the attribute of modesty. Photo: INN
معاشرے کی عفت و عصمت کی حفاظت اور حجاب کے احکامات محض چند کپڑوں کے استعمال یا مخصوص اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حیا کے وصف پر قائم کی گئی ۔ تصویر: آئی این این

دنیا کے تمام معاشروں میں گھر اور اجتماعیت میں اخلاق، رہن سہن، حیا، لباس اور انداز و گفتار کے ضابطے طے کئے جاتے ہیں۔ اسلام کیونکہ خود مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے تو یہ ضابطے اسلام کی بنیادی تعلیمات، عبادات اور اخلاقی نظام میں ہی موجود ہیں۔ اسلام کا نظامِ اخلاق نہ صرف انفرادی طور پر میزانِ اعمال میں ایک مسلمان کی خوش بختی کا ذریعہ ہے بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری پر مبنی ایک پُرامن اور عادل معاشرے کے قیام کا بھی ضامن ہے۔ اتنا ہی نہیں،  اسلام کا نظامِ عفت و عصمت بھی درحقیقت اسلام کے مجموعی نظامِ اخلاق کا حصہ ہے۔ معاشرے کی عفت و عصمت کی حفاظت اور حجاب کے احکامات محض چند کپڑوں کے استعمال یا مخصوص اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حیا کے وصف پر قائم کی گئی ہے۔
حیا کا جامع تصور
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے۔‘‘ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ) ایک اور حدیث میں جس میں ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اُٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘ (مستدرک للحاکم، صحیح الجامع للألبانی)
درحقیقت حیا کا تصور بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے جس میں نہ صرف فواحش و منکرات سے اجتناب بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رُک جانا مقصود ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا  کہ اللہ سے حیا کرو، جیساکہ حیا کا حق ہے۔
 صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپؐ  نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہئے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتاہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی، جس طرح حیا کا حق ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح)

یہ بھی پڑھئے: اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونے اسلام کے ابتدائی دَور میں دیکھئے

اسلام میں عفت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لئے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف احادیث کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔‘‘ (بخاری)
 حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم)
 حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو وہ اسے بدنما بنا دیتی ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی و احمد) آپ ؐنے فرمایا:’ ’ہر دین کا ایک خاص وصف ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
احکاماتِ حجاب
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات پر تزکیۂ نفس کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ ایک جگہ فرمایا: ’’بے شک وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی۔‘‘ (الاعلیٰ: ۱۴-۱۵ )
 اسی طرح ارشاد فرمایا گیا: 
’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی اور برائی کا  راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۳۲ )
 مزید ارشاد ہوا  ’’اور بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں۔‘‘ (الانعام: ۱۵۱)
 ان آیاتِ مبارکہ پر غور و خوض کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فحاشی اور منکرات کے کاموں کو انتہائی ناپسند فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں اُن تمام اقدامات کا ذکر کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکر معاشرے میں فحاشی، بے حیائی اور بدکرداری کو روکا جا سکتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے۔‘‘ (النور:۳۰-۳۱ )

یہ بھی پڑھئے: اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونے اسلام کے ابتدائی دَور میں دیکھئے

سورۂ احزاب میں مومن عورتوں سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا : ’’تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دورِ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں۔‘‘(الاحزاب: ۳۳)
اﷲ تعالیٰ نے برائی اور بے حیائی کے فروغ کی انتہائی سخت الفاظ سے مذمت فرمائی: ’’بے شک وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘ ‘ (النور: ۱۹ )
حیا کو بنیاد بناتے ہوئے انسانی معاشرے میں عفت کا جو نظام ترتیب دیا گیا ہے، اس میں ایک انسان سے مطلوب انفرادی طرزِ زندگی اور پھر بتدریج خاندانی اور معاشرتی زندگی کے تمام دائروں کیلئے واضح اور تفصیلی ہدایات قرآن و احادیث مبارکہ کے ذریعے جاری کر دی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں لباس کو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قرار دیتے ہوئے انسان کیلئے ستر پوشی، موسمی اثرات سے حفاظت اور زینت کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور احادیثِ مبارکہ کے ذریعے مرد و خواتین کیلئے ستر کی حدود واضح کی گئی ہیں۔
سورۂ نور میں مرد و خواتین کے لئے نگاہوں اور عفت و عصمت کی حفاظت کا حکم دیا گیا تو پہلے مرد کو مخاطب کیا گیا، البتہ عورت کو اپنی اوڑھنی کے ذریعے اپنی نسوانیت کی حفاظت کا اضافی حکم دیا گیا۔ مزید یہ کہ نامحرم مردوں کے سامنے اپنی زینت کے اظہار کی ممانعت کر دی گئی۔ سورۂ احزاب میں خواتین کو دورِ جاہلیت کی طرز پر بن سنور کر گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت کر دی گئی اور یوں اسے اپنی معاشرتی زندگی میں ایک وقار کے ساتھ شمولیت کی ضمانت دی گئی۔ یہی وہ تمام احکام ہیں جنہیں ہم احکاماتِ حجاب کے حوالے سے جانتے ہیں۔
گزشتہ گفتگو کے تناظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ حجاب کے احکام اس دائرے سے آگے بہت وسیع معنوں میں ہیں، جن میں محرم اور نامحرم رشتوں کی تفریق، ان کے ساتھ تعلقات کی حدود، نکاح کے حوالے سے حرمت کے رشتے، افکار کی پاکیزگی، نگاہوں کی حفاظت، زنا اور اس کے مقدمات کا سدباب، گفتگو میں شائستگی، فحش کلمات پر مبنی گانے، لطائف اور گالم گلوچ کی ممانعت، تفریح کے نام پر اخلاق سوز اشتہارات اور مذہبی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنے والی فلموں اور ڈراموں کی مذمت، معاشرتی زندگی کے دائروں میں بڑھتی ہوئی مخلوط محافل سے پرہیز اور مرد و خواتین کے لباس میں بے حیائی کے بارے میں تشویش و دیگر امور شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK