• Sat, 11 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونے اسلام کے ابتدائی دَور میں دیکھئے

Updated: January 10, 2025, 9:16 PM IST | Mohammed Tauqeer Rehmani | Mumbai

دورِ نبوی ؐ اور خلفائے راشدین کے ادوار میں ہمیں اس مثالی توازن کی جھلک صاف نظر آتی ہے جس کی آج کے دور میں حد درجہ ضرورت ہے

Make seeking God the focus of your life, and a society based on prosperity and equality can be established. Photo: INN
خداطلبی کو اپنی زندگی کا محور بنالیجئے،خوشحالی اور مساوات پر مبنی معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این


اسلام کی بعثت ایک ایسا معجزہ ہے جس نے انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا اور ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی۔ اسلام کی آمد سے پہلے دنیا اپنی سرمستیوں میں مدہوش تھی، جہالت کے گہرے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی، اور انسانیت پستیوں کے ایسے عمیق غار میں گری ہوئی تھی جہاں سے روشنی کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔ لیکن اسلام کے نور نے ان تاریکیوں کو چیر ڈالا اور انسانی معاشرے کو ایک نئی روح، نئی فکر اور نئی بنیاد عطا کی۔ وہ معاشرہ، جو شراب کے نشے میں دھت تھا، جہاں برائیوں کا غلبہ تھا اور جہاں انسانیت کی قدریں پامال ہو چکی تھیں، اسلام کے دامن میں آکر ایسا بدل گیا کہ کل کے گمراہ آج کے رہنما بن گئے۔ جنہیں کل تک ذلت و رسوائی کا سامنا تھا، وہی وقت کے امام اور حکمت و بصیرت کے مینار بن گئے۔ اسلام نے ان کے دلوں میں ایسا انقلابی شعور پیدا کیا کہ وہ نہ صرف اپنی زندگیوں کو بدلنے میں کامیاب ہوئے بلکہ دنیا کیلئے مشعلِ راہ بن گئے۔

یہ بھی پڑھئے: موجودہ حالات میں مکاتب، اسلامی اسکول اور دینی مدارس کا کردار

اسلام نے اخلاق و کردار کا ایسا اعلیٰ معیار متعارف کروایا جس کی نظیر دنیا کے کسی فلسفے یا تہذیب میں نہیں ملتی۔ وہ تہذیب جسے اسلام نے جنم دیا، اس نے انسانیت کو وقار، احترام اور عدل و انصاف کی وہ قدریں دیں جنہوں نے دنیا کو ایک نیا طرزِ حیات عطا کیا۔ اخلاقی معراج کا وہ منظر، جہاں انسانیت محبت، اخوت اور مساوات کے حسین رنگوں میں رنگ گئی، جو آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔اسلام کے اس انقلاب میں علم و حکمت، فلسفہ و منطق، اور علم کلام کی وہ گہرائیاں ہیں جنہوں نے فکر و شعور کے نئے دروازے کھولے۔ یہ محض ایک دینی تحریک نہیں تھی، بلکہ یہ انسانیت کی فکری آزادی، روحانی بالیدگی اور اخلاقی ارتقا کا ایک ایسا عظیم مظہر تھا جس نے ہر دور کے انسان کو جھنجھوڑا اور زندگی کے حقیقی مقصد کی طرف متوجہ کیا۔ دنیا آج بھی اس مثالی معاشرے پر رشک کرتی ہے جسے اسلام نے تخلیق کیا تھا، اور اس روشنی کو یاد کرتی ہے جو ان تاریکیوں میں ایک مینارہ نور بنی۔
اگر آج کے ترقی یافتہ دور پر غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جاہلیت کی وہی تاریک تاریخ ایک نئے رنگ و روپ میں دوبارہ رقم کی جا رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب اس پر ٹیکنالوجی اور ترقی کا پردہ ڈال دیا گیا ہے، اور وہی اعمال جو کبھی جہالت کی علامت سمجھے جاتے تھے، اب جدیدیت اور آزادی کے نام پر فروغ پا رہے ہیں۔ زنا اور بے حیائی، جو کبھی اخلاقی انحطاط کی سب سے بڑی علامت تھی، آج آزادیٔ انتخاب کے پردے میں لپیٹ دی گئی ہے۔ جسم فروشی، جو انسانیت کی تذلیل کا ایک واضح مظہر ہے، آج تہذیب کے نام پر تسلیم کی جا رہی ہے۔ عورت، جو اسلام کے عطا کردہ مقام سے دنیا کی عزت و تکریم کی مستحق تھی، آج آزادی کے خوشنما نعروں کے پیچھے پھر سے استحصال اور حق تلفی کا شکار ہے۔ شراب وقمار بازی اور دیگر نشہ آور اشیاء، جو انسانیت کے زوال اور تمام فتنوں کی جڑ ہیں، آج مہذب معاشروں میں تفریح کا سامان سمجھی جا رہی ہیں۔ ان کے مضر اثرات، جنہوں نے نسلوں کو تباہ کیا اور سماجی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا، اب جدید پیکنگ میں پیش کر کے انہیں خوشنما بنا دیا گیا ہے۔
یہ دور، جو خود کو روشنی اور علم کا علمبردار کہتا ہے، درحقیقت پرانی تاریکیوں کا تسلسل ہے، بس اس کا انداز بدل گیا ہے۔ آج کی ترقی اگرچہ ظاہری چمک دمک سے مزین ہے، لیکن اس کے بطن میں وہی اخلاقی زوال اور فکری تاریکی پوشیدہ ہے جو انسان کو اس کے اصل مقام سے گرا رہی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے سمجھنے کے لئے ہمیں نہ صرف ظاہری آنکھ بلکہ باطنی بصیرت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے اس مصنوعی عروج پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حقیقی ترقی صرف وہی ہے جو انسان کو اخلاقی بلندی، روحانی پاکیزگی اور فکری وسعت عطا کرے، ورنہ یہ ’’ترقی‘‘ محض ایک دھوکہ ہے، ایک سراب ہے۔
دنیا کی تاریخ میں دو ایسے ادوار گزرے ہیں جنہوں نے انسانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ایک مادیت کا دور، جس نے انسان کو حیوانیت کے قریب کر دیا اور اسے اخلاقی زوال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ دوسرا روحانیت کا بے قابو تصور، جس نے انسان کو عملی زندگی سے دور کر کے بے عملی اور پستی کا شکار کر دیا۔ ان دونوں انتہاؤں نے انسان کو ایسی نہج پر پہنچا دیا کہ اس کا وجود خطرہ میں پڑ گیا اور انسانیت کی بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسے بحران میں اسلام نے جسم و روح کے امتزاج پر مبنی ایک متوازن تہذیب پیش کی۔
 اسلام نے انسان کو یہ حقیقت باور کرائی کہ وہ محض جسم یا صرف روح نہیں، بلکہ ان دونوں کا حسین مرکب ہے۔ اگر جسم کو روحانی اصولوں سے آزاد کر دیا جائے تو اخلاقی انحطاط اور خودغرضی انسان کو سفاکی کی انتہا تک پہنچا دے گی، جہاں وہ اپنی منفعت اور خواہشات کی تکمیل کیلئے دوسروں کے وجود کو مٹا دینے میں بھی تامل نہیں کرے گا۔ دوسری طرف، اگر روح کو جسم سے جدا کر کے یکسر غالب کر دیا جائے، تو انسان عملیت سے دور ہو کر بے معنی تصورات کی بھول بھلیوں میں کھو جائے گا۔
اسلام نے جسم کو روحانیت کے تابع کر کے انسان کو اخلاقی بلندی اور روحانی پاکیزگی کی راہ دکھائی۔ یہ وہی صالح تہذیب ہے جسے اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں عملی شکل دے کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ دورِ نبویؐ اور خلفائے راشدین کے ادوار میں ہمیں اس مثالی توازن کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ دن کے وقت ایک مسلمان تجارت اور معاش کے انتظامات میں مصروف ہوتا، مگر رات کے اندھیروں میں وہی شخص عبادت کے شعلے میں جلتا ہوا زہد و تقویٰ کا امام بن جاتا۔
یہی وہ دور تھا جب حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، اور حضرت علیؓ جیسی جلیل القدر شخصیات تاریخ کے افق پر نمودار ہوئیں۔ وہ بیک وقت عظیم سلطنتوں کے حکمران، عدل و انصاف کے علمبردار، سیاست کے مدبر، جنگ کے شہسوار اور عبادت کے امام تھے۔ ان کی سادگی اور عوامی خدمت کا یہ عالم تھا کہ ایک اونٹ پر خلیفہ اور خادم باری باری سوار ہوتے، اور لباس اتنا سادہ کہ کئی جگہ پیوند لگے ہوتے۔ لیکن ان کا انصاف اور عوام کی فکر ایسی تھی کہ ان کے زیرِ سایہ جانور بھی محفوظ تھے، اور وہ وقت آیا کہ ان کے عہد میں کوئی فقیر اور محتاج دکھائی نہ دیتا تھا۔
 یہ آج بھی ممکن ہے، بشرطیکہ دنیا اسلام کے ان اصولوں کو اپنائے۔ اگر انسان دنیا طلبی کے بجائے خدا طلبی کو اپنی زندگی کا محور بنائے اور نبوی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرے، تو وہی دور پھر سے آ سکتا ہے، جہاں جانور بھی عدل سے محروم نہ ہو اور خوشحالی کا یہ عالم ہو کہ کوئی ضرورتمند باقی نہ رہے۔ مساوات، اخوت اور ہمدردی کا وہ بول بالا ہو جو انسانیت کو اس کے حقیقی مقام پر واپس لے آئے۔ یہ اسلام کا چیلنج اور اس کی معجزانہ تعلیمات کا اعجاز ہے، اور دنیا اگر ان اصولوں کو اپنائے، تو وہی عہدِ زریں پھر سے نمودار ہو سکتا ہے۔n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK