• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اختلافات میں غیر اخلاقی وغیر اسلامی طرزعمل سے بچیں

Updated: December 06, 2024, 4:52 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

انسانی تاریخ کی ابتداء سے ہی لوگوں کے درمیان مختلف حوالوں سے اختلافات پائے جاتے رہے ہیں، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختلاف انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔

Disagreement is natural and there is nothing wrong with it, as long as it is constructive and does not cause mischief. Photo: INN
اختلاف فطری ہے اس میں کوئی قباحت نہیں، جب تک کہ یہ تعمیری ہو اور فساد کا سبب نہ بنے۔ تصویر: آئی این این

انسانی تاریخ کی ابتداء سے ہی لوگوں کے درمیان مختلف حوالوں سے اختلافات پائے جاتے رہے ہیں، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختلاف انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے دین فطرت اسلام نے اختلاف کو ایک فطری امر کے طور پر تسلیم کیا ہے اور اس کے آداب سکھائے ہیں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی برقرار رہے۔ چنانچہ اختلاف کے دوران اخلاقیات کا دامن تھامے رہنا، دوسروں کے احترام کو ملحوظ رکھنا اور حدود کا خیال رکھنا اسلامی تعلیمات کا ایک اہم پہلو ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں اختلاف کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ:’’مومن نہ طعنہ دینے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گو اور نہ بدزبان۔ ‘‘ (ترمذی)
 عقلی طور پر بھی اختلاف میں کوئی قباحت نہیں ہے جب تک کہ یہ تعمیری ہو اور فساد کا سبب نہ بنے، ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم بلا وجہ اختلاف کی عادت نہ بنائیں کیونکہ یہ سراسر بے وقوفی ہے۔ جائز اور معقول بات میں بھی اگر ہم اختلاف کریں تو ہمارا مقصد حق کی تلاش اور بھلائی ہو، نہ کہ کسی کو نیچا دکھانا یا اپنی برتری ثابت کرنا۔ اسی طرح اگر دوسرے کی رائے میں حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں ہم کوئی عار محسوس نہ کریں۔ صحابہ کرامؓ اس معاملے میں بہترین مثال ہیں کہ وہ حق کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بعض معاملات میں اختلاف ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے، لیکن ان کا طریقہ ٔ کار اور ادب و احترام ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے:عصر حاضر میں ہر نگہبان بیزار ہے نگہبانی سے

ان کے اختلافات ہمیشہ نیک نیتی پر مبنی ہوتے تھے اور ان کا مقصد دین کی خدمت اور حق کی وضاحت کرنا تھا، نہ کہ ذاتی عناد یا دشمنی۔ جنگ بدر کے بعد کفارِ مکہ کے قیدیوں کے بارے میں صحابہ ٔ کرام کے درمیان اختلاف رائے ہوا۔ جب ستر قیدی لائے گئے تو آپ ﷺ نے اپنے رفقاء سے مشورہ کیا؛ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ یہ آپ ہی کی قوم اور خاندان کے لوگ ہیں، بہتر ہوگا کہ انہیں چھوڑ دیاجائے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ انہیں کفر سے توبہ کی توفیق عطا فرمائیں ؛ البتہ ان سے فدیہ لے لیا جائے تاکہ مسلمانوں کو اس سے مدد ملے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان سب کو تہہ تیغ کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتہ دار کو قتل کردے، رسول اللہ ﷺ سراپا رحمت تھے اور نرم خوئی و عفو و درگزر آپ ﷺ کا خاص مزاج تھا؛ اس لئے آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور ان قیدیوں سے فدیہ وصول کیا گیا، نیز جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان کو کہا گیا کہ وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔ (طبقات ابن سعد) یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے قبول کر لی تو اختلاف رائے کے باوجود حضرت عمر کو کوئی اعتراض نہ ہوا، آپؓ نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ 
 اختلاف کے باب میں اسلام نے جو معیار قائم کیا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بلاوجہ اختلاف کرنے والوں سے بھی نہیں الجھ سکتے، ہاں راستہ ضرور الگ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں مثالی افراد کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ’’اورجب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، تم پر سلامتی ہو ہم جاہلوں (کے فکر و عمل) کو (اپنانا) نہیں چاہتے۔ ‘‘ (القصص:۵۵)
 اختلافات کے سلسلے میں ایک غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور عجیب بات موجودہ معاشرے میں یہ پائی جاتی ہے کہ دو لوگوں یا جماعتوں کے درمیان اختلاف کا کچھ لوگ لطف لیتے پائے جاتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ تو اختلاف کی آگ میں تیل ڈالنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور بھائی چارے کو فروغ دے۔ اختلافات کے دوران قرآن و سنت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے معاشرتی امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ دو لوگوں کے درمیان صلح کروا دی جائے۔ ‘‘ (ابوداؤد)
 خلاصہ یہ ہے کہ اگر اختلاف ناگزیر ہو تو اختلاف کو تعمیری اور مثبت رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ حدود کے اندر رہے اور اس کے لئے جو اصول و آداب وضع کئےگئے ہیں ان کا بھر پور خیال رکھا جائے۔ اس طرح اختلاف فساد کا ذریعہ بننے کے بجائے علم میں اضافے اور معاشرتی ترقی کا سبب بن سکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK