• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عصر حاضر میں ہر نگہبان بیزار ہے نگہبانی سے

Updated: December 06, 2024, 4:39 PM IST | Mujahid Nadwi | Mumbai

مذہبِ اسلام میں فضیلت اور بڑا درجہ ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے اور زندگی کے ہر میدان میں اسلام نے اس تفوق کو اسی طرح احساس ذمہ داری کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔

For the betterment of the society, it is necessary that every responsible person fulfills his responsibility well. Photo: INN
معاشرے کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ہر ذمہ دار شخص اپنی ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھائے۔ تصویر: آئی این این

اسلامی تعلیمات میں ایک بات جس کا بڑے زور وشور سے تذکرہ ملتا ہے، وہ ذمہ داری کا اٹھانا ہے۔ اسلام ہر کام میں کسی کو ذمہ دار بنا کر اس سے ذمہ داری کی ایماندارانہ اور منصفانہ تکمیل کا طالب ہوتا ہے۔ جیسے عوام میں ایک کو حکمراں منتخب کیا جاتا ہے۔ مسجد میں کسی کو امام بنایا جاتا ہے۔ جماعت میں کسی کو استاذ مانا جاتا ہے۔ ایسے ہی گھرمیں والدین اور دیگر بڑے بزرگوں کا مقام و مرتبہ اسلام نے بلند رکھا ہے۔ یہاں تک کہ سفر کے موقع پر بھی کسی ایک کو امیر اور ذمہ دار بنالینے کی تعلیم احادیث میں ملتی ہے: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں۔ ‘‘ (ابوداؤد) 
 کسی ایک کو امیر اورقائد بنانے کا مقصد شریعت اسلامیہ میں ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا اور اپنے ماتحتوں کی اصلاح اور ان کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنا اور ان کو ہر مضرت سے بچانا ہے۔ 
  اسلام میں فضیلت اور بڑا درجہ ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے۔ اور زندگی کے ہر میدان میں اسلام نے اس تفوق کو اسی طرح احساس ذمہ داری کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔ اولاد کے لئے والدین کا درجہ ضرور بڑا ہے لیکن والدین پر اولاد کی دینی تربیت اور ان کی کفالت کےحق بھی واجب ہیں۔ بیوی کے لئے شوہر کا درجہ بڑا ہے، لیکن بیوی کے نان ونفقہ اور اس کی دینی، اخلاقی و معاشی کفالت کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔ بادشاہ کا درجہ اپنی رعایا میں ممتاز ہے، لیکن اس کے کاندھوں پر اپنی رعایا کی دیکھ بھال اور ان کی ہر ضرورت کی تکمیل بھی واجب ہے۔ جس طرح ایک بس میں کوئی ڈرائیور سب سے آگےاور مرکزی سیٹ پر بیٹھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بس میں سوار سبھی مسافروں کی، منزل تک محفوظ رسائی کا ذمہ اس کے سر ہوتا ہے، بالکل ایسےہی اسلام نے زندگی کے ہر مرحلے میں کسی ایک کو ذمہ دار بنا کر اس پر اپنے پیچھے چلنے والوں کی صحیح قیادت کا ذمہ ڈال دیا ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اس سے بازپرس ہوگی۔ 

یہ بھی پڑھئے:یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی!

بخاری شریف کی روایت میں اس ضمن میں ایک حدیث ہر معاملے میں ذمہ دار شخص کی ذمہ داری کو نہایت ہی بلیغ انداز میں متعین کرتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آگاہ ہوجاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس امام ( امیرالمؤمنین) لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھروالوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھروالوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور کسی شخص کا غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پرسش اور جواب طلبی ہوگی۔ ‘‘ 
 اس احساس ذمہ داری کے بیان کے بعد جب ہم آج اپنے مسلم معاشرے کی طرف ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہر نگراں، ہر نگہبان گویا کہ اپنی ذمہ داری کچھ اس طرح نبھارہا ہے، جیسے وہ کوئی بوجھ ہوکہ اس کو جیسے تیسے ادا کرکے بری الذمہ ہوجانا ہےبس۔ صرف والدین کی ہی بات کریں تو اسکول میں داخلہ کرواکر، کسی کے پاس ٹیوشن کے لئے بھیج کر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ادا ہوگیا۔ عالم تو یہ ہے کہ اگر بچہ غلطی کرے تواس کو طنزیہ طورپر کہہ دیا جاتا ہے کہ اسکول میں یہی سیکھ رہے ہو کیا؟ جبکہ یہ سوال والدین سے ہونا چاہئے، اس لئے کہ ماں باپ کی گود بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہے۔ ہمارے جتنے بڑے بڑے علماء، ائمہ، مفسرین و محدثین گزرے ہیں ان میں سے اکثرکے بارے میں یہی ملتا ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ا ن کے گھر پر ہی ہوئی، پھر اس کے بعد وہ حصول علم کے لئے باہر نکلے۔ آج احساس ذمہ داری سے فرار کا عالم تو یہ ہوچلا ہے کہ سال دو سال کا بچہ اگر ضد کرنے لگے تو والدین اس کو موبائیل دے کر گھنٹوں تک مشغول رکھ رہے ہیں تاکہ وہ روئے دھوئے نہیں، اور ان کی جان کو آرام ملے۔ پھر بھلے ہی اس معصوم پر موبائل کے کیسے ہی منفی اثرات مرتب کیوں نہ ہورہے ہوں۔ 
 یہ صرف والدین کی ہی بات نہیں ہے، بلکہ آفس کے انچارج سے لے کر کسی جماعت کے استاذ تک ہر جگہ احساس ذمہ داری ہمارے معاشرہ سے تقریبا ختم ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر ہو یا اسکول، آفس ہو یا دکان، ہر جگہ حاکم و محکوم کے مابین کوئی تال میل نہیں ہے۔ ہر جگہ بدظنی کا عالم ہے۔ والدین اولاد سے ناراض ہیں، اولاد والدین سے خفا ہے۔ استاذ طلباء سے مایوس ہے، طلباء استاذکے شاکی ہیں۔ رعایا حکمرانوں سے بدظن ہیں، حکمران رعایا کے معاملے میں بے پروا ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اسلام نےہر معاملے میں ذمہ داری کا بوجھ جس ایمانداری اور احساس جوابدہی کے ساتھ اٹھانے کا حکم دیا تھا، اس کو ترک کرنے کی وجہ سے پورے انسانی معاشرے میں گویا اصلاح اور اچھائی کا جنازہ نکلنے لگا ہے جبکہ برائی ہے کہ دن بہ دن پیر پسار رہی ہے۔ ذمہ داروں کے راہ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے اصلاح اور سدھار کا کام بالکل تھم سا گیا ہے۔ اس لئے اگر ہر ذمہ دار شخص مکمل دیانتداری، ایمانداری اور خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ اپنے ماتحت اور متبعین کی ذمہ داری نبھانے کے لئے کمر بستہ ہوجائے تو تنزل کی جانب رواں دواں انسانی معاشرہ آج بھی انہی اعلیٰ مدارج پر فائز ہوسکتا ہے جو اس کے لئے لائق وزیبا ہیں، اور جو ماضی میں اس کا طرۂ امتیاز اور اس کی بنیادی شناخت ہوا کرتے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK