بیشتر لوگ ٹال مٹول کو کوئی عیب یا برائی نہیں سمجھتے بلکہ بعض اوقات اس رویے کو معمولی یا قابلِ قبول سمجھ لیتے ہیں۔ ایسے افراد کے نزدیک کام کو مؤخر کرنا ایک عادت یا مزاج کا حصہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں بے ترتیبی اور ناکامی کا شکار رہتے ہیں۔
انسانی زندگی میں نظم و ضبط اور وقت کی قدر بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہر شخص کی کامیابی اس کی وقت شناسی اور کاموں کو بروقت انجام دینے کی صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے۔ لیکن اگر انسان اپنی ذمہ داریوں اور فرائض میں ٹال مٹول کرے تو یہ نہ صرف اس کی ذاتی زندگی بلکہ سماج پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔
ٹال مٹول ایک ایسی سماجی برائی ہے جو فرد کے اندر سستی، کاہلی اور غیرسنجیدگی کو جنم دیتی ہے۔ اسی وجہ سےاسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر وقت کی اہمیت اور ذمہ داریوں کو بروقت ادا کرنے پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کو ذیل کی آیت سے یہ پیغام دیا ہے کہ جب کوئی معاملہ طے پاجائے تو پھر اس میں ٹال مٹول نہ کریں :’’پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں۔ ‘‘ (سورہ آل عمران:۱۵۹)اسی طرح معلم انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا کے ذریعے ٹال مٹول کی بنیادی وجہ سستی وکاہلی سے پناہ مانگی ہے۔ وہ دعاء یہ ہے:’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور فکر سے، عاجزی اور کاہلی سے، بزدلی اور بخل سے، قرض کے بوجھ سے، اور لوگوں کے دباؤ سے۔ ‘‘ (بخاری)
عقلی طور پر بھی ٹال مٹول کے نقصانات بالکل واضح ہیں۔ غور کریں کہ اگر ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو مسلسل ملتوی کرتا رہے، تو اس کا اثر صرف اس کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا خاندان حتیٰ کہ پورا معاشرہ اس رویے سے متاثر ہوتا ہے۔ جب افراد اپنے حصے کے کام وقت پر نہیں کرتے، تو اس کے نتیجے میں اجتماعی سطح پر بے عملی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بے عملی منصوبہ بندی میں ناکامی، کاموں میں تاخیر اور سماجی ڈھانچے میں خلل کی صورت ظاہر ہوتی ہے۔ بدانتظامی اس وقت بڑھتی ہے جب نظام کے مختلف پہیے، جو افراد کی ذمہ داریوں سے چلتے ہیں، رک جاتے ہیں یا سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک طالب علم اسکول جانے میں تاخیر کرے، ایک ملازم اپنے فرائض میں کوتاہی کرے، یا ایک قائد اپنے فیصلوں کو مؤخر کرے تو اس کے اثرات نہ صرف انفرادی بلکہ ادارتی اور معاشرتی سطح پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ اس رویے کا نتیجہ آخرکار انتشار کی صورت میں نکلتا ہے، کیونکہ ہر سطح پر کام کا دائرہ متاثر ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے غیر یقینیت اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اختلافات میں غیر اخلاقی وغیر اسلامی طرزعمل سے بچیں
ٹال مٹول کی سب سے بڑی وجہ انسانی فطرت میں موجود سستی اور کاہلی ہے۔ جب انسان کسی کام کو مشکل یا وقت طلب محسوس کرتا ہے، تو وہ اسے ٹالنے کا رجحان رکھتا ہے۔ یہ رویہ عموماً خوف، خود اعتمادی کی کمی، یا ناکامی کے ڈر سے پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کام کو اس لئے ملتوی کرتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتے یا انہیں لگتا ہے کہ وہ کام کمال درجے پر نہیں کر پائیں گے۔ یہ غیر ضروری طور پر کام کو زیادہ پیچیدہ بنانے کا باعث بنتا ہے اور نتیجتاً کام مزید مؤخر ہو جاتا ہے۔ ٹال مٹول کی ایک اور وجہ غیر منظم زندگی اور منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ جب انسان کے پاس وقت کے مؤثر استعمال اور کاموں کی ترجیح طے کرنے کا نظام نہ ہو، تو وہ اکثر اہم کاموں کو غیر اہم سرگرمیوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، جدید دور کی مصروفیات، جیسے سوشل میڈیا اور تفریحی عادتیں بھی ٹال مٹول کی عادت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اگر انسان اپنے وقت اور توانائی کو بہتر طریقے سے منظم نہ کرے تو وہ غیر ضروری سرگرمیوں میں پھنس کر اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
ایک عجیب اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بیشتر لوگ ٹال مٹول کو کوئی عیب یا برائی نہیں سمجھتے بلکہ بعض اوقات اس رویے کو معمولی یا قابلِ قبول سمجھ لیتے ہیں۔ ایسے افراد کے نزدیک کام کو مؤخر کرنا ایک عادت یا مزاج کا حصہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں بے ترتیبی اور ناکامی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس، اسلام اور اخلاقی تعلیمات ہمیں وقت کی قدر، ذمہ داریوں کی بروقت ادائیگی، اور نظم و ضبط کی تلقین کرتی ہیں۔ جب تک افراد ٹال مٹول کو ایک برائی یا کمزوری کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے اس سے نجات پانا ممکن نہیں ہوگا۔ ٹال مٹول کے عیب کو نہ سمجھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس کے نتائج کو فوری طور پر محسوس نہیں کرتے۔ لیکن طویل مدتی اثرات، جیسے مواقع کا ضیاع، کامیابی میں رکاوٹ اور دوسروں کی ناراضگی وقت کے ساتھ سامنے آتے ہیں تو کف ِ افسوس ملتے ہیں۔ اس وقت تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ ٹال مٹول کی عادت کو ختم کرنے کے لیے خوف خدا کے ساتھ اپنی ترجیحات کو واضح کرنا اور وقت کے مؤثر استعمال کی منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے۔
مزید برآں سماجی اور روحانی پہلوؤں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہر کام میں مثبت نیت رکھنا بھی لازمی ہے کیونکہ اچھی نیت انسان کو عمل کی طرف راغب کرتی ہے۔