کسی صلاحیت اور خصوصیت کی سب سے بڑی قدر دانی یہ ہے کہ خلق خدا اس سے مستفید ہو۔ اسی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’تم میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘
EPAPER
Updated: October 25, 2024, 3:32 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
کسی صلاحیت اور خصوصیت کی سب سے بڑی قدر دانی یہ ہے کہ خلق خدا اس سے مستفید ہو۔ اسی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’تم میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘
اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو گوناگوں خصوصیات سے نوازا ہے لیکن ہر انسان کو دوسرے سے ممتاز اس طرح فرمایا ہے کہ ایک انسان میں کوئی ایک خوبی ہے تو دوسرے میں کوئی اور۔ عقلی طور پر بھی نظام حیات کو توازن کے ساتھ چلانے کے لئے یہ تفاوت ضروری ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ اگر تمام انسان یکساں صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک ہوتے تو دیگر ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے کس کی طرف رجوع کرتے! قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ جس میں اللہ رب العزت نے حضرت انسان کی عظمت کا ذکر فرمایا ہے، سے ایک لطیف نکتہ یہ بھی نکلتا ہے کہ انسانوں کے میدان عمل مختلف ہیں۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے:
’’ہم نے اولاد آدم کو عزت ِبخشی ہے، ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سواری دی ہے، ان کو پاکیزہ و نفیس رزق عطا فرمائی ہے اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت سے نوازا ہے۔ (بنی اسرائیل:۷۰)
آیت مذکورہ کے تناظر میں ہر شخص اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے کسی کو علم دے کر عزت دی ہے تو کسی کو حکمت سے نواز کر، کسی کو کوئی ہنر عطا فرما کر عزت دی ہے تو کسی کو تجارت میں مہارت دے کر، کسی کو ماہر سیاست بنا کر عزت بخشی تو کسی کو نظم و نسق کا سلیقہ عطا فرما کر۔ یہاں سمجھنے والی ایک بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں اللہ رب العزت نے کسی خاص خصوصیت اور صلاحیت سے نوازا ہے، وہ اس کی قدر دانی کریں اور غرور و تکبر کے شکار نہ بنیں۔ کسی صلاحیت اور خصوصیت کی سب سے بڑی قدر دانی یہ ہے کہ خلق خدا اس سے مستفید ہو۔ اسی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’تم میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘(ابن ماجہ) یاد رکھئے! اگر ہم میں کوئی خصوصیت اور صلاحیت ہے اور ہم اپنے خول میں بند ہیں یا لوگوں کو ہم سے فائدہ اٹھانے کے لئے مشقتیں جھیلنی پڑتی ہے تو ہم کفرانِ نعمت کے شکار ہو رہے ہیں جو ہمارے لئے دنیا و آخرت دونوں جگہ وبال جان ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہماری مضبوطی کیلئے امام کا ہر اعتبار سے مضبوط ہونا ضروری ہے!
اس تناظر میں قرآن مجید میں مذکور ایک واقعہ خوبیوں کے مالک افراد کے لئے نشان عبرت ہے جس میں کچھ لوگوں کو اللہ رب العزت نے باغ عطا فرما کر عزت دی تھی لیکن ان لوگوں نے خلق خدا کو محروم رکھنے کا فیصلہ کر کے اپنے لئے آفت کو دعوت دی۔ یہ واقعہ سورہ القلم کی آیت نمبر ۱۷؍تا ۳۳؍ میں مذکور ہے، اس کا مفہوم ہے:
ایک شخص کا باغ تھا، وہ اپنے باغ کی آمدنی کو تین حصوں میں تقسیم کیا کرتا تھا: ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے، دوسرا باغ کی نشوونما پراور تیسرا حصہ غریبوں پر۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے باغ اور مال میں بڑی برکت عطا فرمائی۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کے بیٹوں نے سوچا اور فیصلہ کیا کہ ہمارا باپ اپنی آمدنی کو خوامخواہ ضائع کرتا تھا۔ انہوں نے قسمیں اٹھائیں کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ جب غریب لوگ سوئے ہوئے ہوں گے، تو ہم صبح سویرے اٹھ کر باغ کا تمام پھل توڑلیں گے۔ پھل توڑنے کا فیصلہ کرنے کے وقت انہوں نے ان شاء اللہ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی آندھی جاری کی کہ جس میں آگ کے بگولے تھے۔ آندھی نے پل جھپکنے میں ان کے باغ کو خاکستر کردیا۔ ادھر یہ اپنے فیصلے کے مطابق علی الصبح اٹھے اور ایک دوسرے کو یہ کہہ کر جگا رہے تھے کہ اگر پھل توڑنا اور اسے غریبوں سے بچانا ہے تو اپنی کھیتی کی طرف جلد پہنچ جاؤ۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر چپکے چپکے اپنے باغ کی طرف چل پڑے تاکہ کوئی مسکین وہاں نہ پہنچ پائے۔ جب اپنے باغ کی جگہ پر پہنچے تو انہوں نے اس جگہ کو چٹیل میدان پایا۔ وہ کہنے لگے اندھیرے کی وجہ سے ہم اپنے باغ کا راستہ بھول گئے ہیں، کچھ نے کہا نہیں ہم بدنصیب ہوچکے ہیں، یوں لگتا ہے کہ ہمارا باغ جلا دیا گیا ہے۔ ان کے ایک بھائی نے کہا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کرو یعنی اس کا شکرادا کرو کہ اس نے تمہیں اپنے باپ کی وراثت میں بہترین باغ عطا فرمایا ہے لیکن تم نے اپنے رب کی ناشکری کی اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم غریبوں پر خرچ نہیں کریں گے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا باغ جلاکر راکھ کردیا گیا ہے۔
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری خوبیاں اور صلاحیتیں ہمارے لئے عزت کا باعث بنیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اختصاص سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں ؛ بصورت دیگر تمام خصوصیتوں کے باوجود ہم باغ والوں کی طرح تہی دست اور تہی دامن رہ جائیں گے۔