مساجد سے منسلک افراد کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں ۔
EPAPER
Updated: October 18, 2024, 5:03 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
مساجد سے منسلک افراد کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں ۔
بہت سارے ایسے اصلاحی کام ہیں جن کے تعلق سے دانشوران اور ذمہ داران کافی عرصے سے متفکر ہیں اور مختلف ذرائع سے عوام میں بیداری لانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے؛ انہی اصلاح طلب کاموں میں سے ایک کام امام و مؤذن کو معاشرے میں اعلیٰ مقام دینا ہے۔ یوں تو کوئی بھی صحیح العقل مسلمان زبانی طور پر امام و مؤذن کی تحقیر نہیں کرتا لیکن عملی گستاخی کی ایک لمبی فہرست ہمارے سامنے ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں پیش ہے، جس کا راقم الحروف نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ ایک دعوت میں امام صاحب جب پہنچے تو بہت سارے نوجوان کرسیوں پر بیٹھے تھے،سبھی نے امام صاحب کو سلام کیا اور کچھ لوگوں نے خیر خیریت بھی معلوم کی لیکن کسی نے ان کیلئے کرسی چھوڑنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ وہ کئی منٹ کھڑے رہ کر مقتدیوں کی بے حسی کامشاہدہ کرتے رہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم یہ بے حسی کا مظاہرہ اس امام کے ساتھ کرتے ہیں جس کو خود اللہ رب العزت نے بہت اعلیٰ مقام سے نوازا ہے۔ جیسا کہ ذیل کی حدیث سے صاف ظاہر ہے: تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ڈھیرپر ہوںگے: ایک وہ جس نے اللہ کے اور اپنے غلاموں کے حقوق ادا کئے ہوں گے، دوسر ا وہ شخص جس نے لوگوں کی امامت کی اوراس کے مقتدی اس سے خوش رہے اورتیسرا وہ شخص جس نے روزانہ پانچ وقت لوگوں کو نمازکی دعوت دی۔‘‘ (ترمذی)
ہمارے معاشرے میں امام و مؤذن کے تعلق سے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ انہیں صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں؛ جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم بھی ان کے کچھ کا موں کیلئے استعمال ہوجاتے۔ کیا ایسا نہیں ہوتا ہے کہ لیڈران وقت آنے پر امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں؛ عوام ضروت پڑنے پر دعا کرانے اور تعویذ لینے کے لئے امام کے پاس پہنچتے ہیں، دکاندار نئی دکان کے افتتاح کے لئے امام کو زحمت دیتا ہے؛ ماں باپ اپنے بچوں کا نکاح پڑھوانے کیلئے امام کو بلاتے ہیں اور جنازہ پڑھانے کیلئے رشتے دار امام کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جہاں ہم امام صاحب سے خدمت لے کر اطمینان محسوس کرتے ہیں اور امام صاحب بے لوث ہو کر ہماری خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔
امام و مؤذن کے تعلق سے کچھ لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ تنخواہ لینے والے ملازمین ہیں، اس لئے ہم جو کام ان سے لیتے ہیں وہ ان کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ اسلام نے امام و مؤذن کو جو مقام و مرتبے سے نوازا ہے یا تو ہم ان سے واقف نہیں ہیں یا واقف تو ہیں لیکن ان باتوں کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ فتویٰ رحیمیہ میں اس تعلق سے ایک بہت عمدہ بات درج ہے:’’ائمہ مساجد کے ساتھ اعزازو احترام کا معاملہ کریں، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصبِ امامت کی سخت تو ہین ہے، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار ،عزت،عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔‘‘ امام و مؤذن کے تعلق سے ایک بڑا مسئلہ ان کی کم تنخواہوں کا بھی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عالیشان مسجدوں میں خدمت انجام دینے والے امام و مؤذن قلیل تنخواہوں پر گزارا کرتے ہیں؟
فتویٰ دارالعلوم میں لکھا ہے کہ: ’’امام کی تنخواہ اتنی ہونی چاہئے کہ جس سے اُس کی ضروریات تنگی اور محتاجگی کے بغیر پوری ہوجائیں اور انہیں یکسوئی حاصل رہے۔‘‘ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ مساجد سے منسلک افراد کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں اور موسم اور حالات کے تفاوت سے قطع نظر ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔
امام و مؤذن کی قلیل تنخواہوں کا حل کچھ حضرات یہ بتاتے ہیں کہ امام و مؤذن مسجد میں اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بعد کوئی تجارت وغیرہ کر لیں۔ اگرچہ یہ شرعی اعتبار سے غلط نہیں ہے لیکن اس زمانے میں تجارت کرنے والے حضرات یہ بتائیں کہ ایک آدمی جو تجارت بھی کرے اور امامت بھی کرے؛ کیا اسے نماز پڑھنے پڑھانے میں مکمل یکسوئی حاصل ہو سکتی ہے؟ جبکہ امامت بہت ہی نازک کام ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے ظاہر ہے: ’’اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے۔‘‘ (شرح نقایہ)
اس حدیث کے آخری حصے سے ایک لطیف نکتہ سامنے آتا ہے جو زیر بحث مضمون کا ماحصل بھی ہے کہ امام ہمارے لئے اللہ کے دربار میں قاصد ہیں؛ اس لئے قاصد کا ہر اعتبار سے مضبوط ہونا ضروری ہے؛ بصورت دیگر ہماری حالت کمزور ہو جائے گی۔