منشیات :اس زہر سے معاشرے کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔
EPAPER
Updated: July 05, 2024, 1:26 PM IST | Principal Jawaria Qazi | Mumbai
منشیات :اس زہر سے معاشرے کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔
اسلام میں منشیات کا استعمال سختی سے ممنوع ہے۔ قرآن اور حدیث میں مختلف حوالوں سے اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ ( بخاری) جس شئے کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ (ترمذی ) یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ عام طور پر نشہ کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شرو ع کرتاہےاور آگے بڑھتا جاتا ہے۔ نشہ آور اشیاءمعاشرتی آفت ہیں جو صحت کو خراب، خاندان کو بر باد اور بجٹ کو تباہ کر ڈالتی ہیں ۔ ان کے استعمال کی تاریخ کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی، تاہم اس برائی نے اب بہت تیزی سے اپنی جڑیں پھیلالی ہیں۔
نئی نسل کسی بھی سماج کی ہمہ جہت ترقی کی اساس ہوتی ہے۔ علامہ اقبالؔ ان کے لئے کہتے ہیں کہ جوانوں کو مری آہ و سحر دے یا پھر یوں بھی امید دلاتے ہیں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، لیکن افسوس وہ نم اب آنکھوں میں اتر آیا ہے۔ انسانی زندگی اللہ کا عطیہ ہے اور اس نعمت کی قدر اور حفاظت ہر ہوش مند آدمی پر واجب ہے لیکن دن بدن ہم اپنی متاعِ حیات سے اس حد تک غافل ہو رہے ہیں کہ احساسِ زیاں بھی جاتا رہا۔ وہ جس زہرِ َہلاہل کو قند سمجھ رہے ہیں وہ سوائے پستی کے کچھ نہیں دے سکتا۔
منشیات کے استعمال کی لت ایسی بیماری ہے جو ملک کے سماجی تانے بانے کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ یہ صرف ایک شخص کی صحت کو متاثر نہیں کرتا بلکہ پورے کنبے اور معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے، یہ جسمانی امراض کے ساتھ نفسیاتی بیماری حادثوں ، خود کشی اور تشدد کا سبب بھی بنتا ہے ۔ ہر سال کی طرح امسال بھی، گزشتہ ہفتے منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کے خلاف بین الاقوامی دن منایا گیا۔ یہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے قائم کیا گیا دن ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر منشیات کے مسئلے پر آگاہی بڑھانا، منشیات سے پاک معاشرہ کے حصول میں کارروائی اور تعاون کو مضبوط کر نا اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات کو فروغ دینا ہے۔ اس دن کے درج ذیل مقاصد ہیں :
آگاہی بڑھانا: منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کے خطرات اور نتائج کے بارے میں عوامی فہم کو بڑھانا اور اس پیغام کو پھیلانا کہ منشیات کا استعمال صحت، ترقی اور سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
احتیاطی تعلیم: تعلیمی اداروں اور سماجی فلاحی اداروں، تنظیم ِ والدین اور اساتذہ، محکمۂ پولس اور انتظامیہ کے ذریعے پروگراموں کا انعقاد کر نا جن سے تمام افراد کو منشیات سے منسلک خطرات سے آگاہ کیا جاسکے۔
متاثرہ افراد کی حمایت: ان افراد کے لئے علاج اور بحالی کی اہمیت کو اجاگر کرنا۔ ایسی پالیسیوں کی حمایت کرنا جو مدد فراہم کر سکیں اور جو افراد مدد حاصل کرنے پر آمادہ ہوں انہیں سماجی اور جذ باتی تحفظ فراہم کرنا۔
یہ بھی پڑھئے:وقت، کہ پگھلتا جارہا ہے
عالمی تعاون: منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا، حکومتوں، تنظیموں اور سماج کے درمیان شراکت داری کو مضبوط کرنا تا کہ اس مسئلے کا موثر طریقے سے سامنا کیا جا سکے۔
پالیسی اور قانون سازی : ایسے قوانین اور پالیسیوں کے نفاذ و ترقی کی حوصلہ افزائی کرنا جو منشیات کی سپلائی اور ڈیمانڈ دونوں پہلوؤ ں کو حل کرتے ہوں۔ قومی پالیسیوں کو بین الاقوامی منشیات کنٹرول معاہدہ کے مطابق ڈھالنے کو فروغ دینا۔
منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کے خلاف بین الاقوامی دن ان اقدامات کی حمایت کو متحرک کرنے میں مدد کرتا ہے جو سنجیدگی سے اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے جو اس کثیر الجہتی مسئلے سے نمٹنے کے لئے احتیاط، علاج اور قانون نافذ کرنے کے طریقوں کو اپنا نے کے لئے ہے۔ منشیات کی لت کے کئی نقصانات ہیں جن میں سرِفہرست طبی اور مالی نقصان ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً ۲۷۵؍ ملین لوگوں نے منشیات کا استعمال کیا اور تقریباً ۳۶ ؍ ملین منشیات سے لاحق ہونے والے عوارض میں مبتلا ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی منشیات کی لت ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جو مختلف طبقات اور علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اس مسئلے کے معاشی، سماجی ثقافتی اور قانونی پہلو ہیں۔ وطن عزیز ہندوستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد متاثر ہے جو اکثر نو عمری میں اس کا آغاز کرتے ہیں۔ غربت، تعلیم کی کمی، نفسیاتی مسائل، بچہ مزدوری، ہم عمروں کے دباؤ، تعلیمی تناؤ اور تجسس اس کے عام عوامل ہیں ۔ یہ لت شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں عام ہے۔ منشیات کی اقسام اور وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، ایک مشکل یہ بھی ہے کہ تکنالوجی کے غلط استعمال سے اس کا لین دین آسان ہو رہا ہے اور انسدادی کوشش دن بہ دن زیادہ پیچیدہ ہورہی ہے۔
منشیات کی لت کو ختم کرنے کیلئے ایک جامع نقطۂ نظر کی ضرورت ہے جس میں قانونی فریم ورک کو مضبوط کرنا علاج اور بازآبادکاری تک رسائی کو بہتر بنانا، عوامی آگاہی کو بڑھانا اور بنیادی سماجی و معاشی عوامل کو حل کرنا شامل ہے۔ اس مسئلے سے موثر طور پر نمٹنے کے لئے سرکاری ایجنسیوں، غیر سرکاری تنظیموں، حفظانِ صحت کے مراکز اور سماج کے درمیان تعامل اور تعاون ضروری ہے۔
اسی لئے ایک قومی لائحہ عمل کا نفاذ کیا گیا ہے جس کے تحت ریاستی سرکاروں اور مرکز کے زیر ِانتظام علاقوں کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے تا کہ نشہ چھوڑنے والے لوگوں کی صلاحیت سازی، ہنر مندی، پیشہ ورانہ تربیت، ذریعہ معاش اور نشہ کے خلاف بیداری پیدا کی جاسکے۔ اس کے علاوہ این جی اوز کے ذریعے نشے کی مانگ کو کم کرنے کے پروگرام ہوتے ہیں، ساتھ ہی نشے کے عادی لوگوں کی باز آباد کاری کے مراکز چلائے جاتے ہیں ۔ یہ دنیاوی کوششیں ہیں۔ اصل ہے مذہبی نقطہ نظر، ہمیں اپنے مذہب اسلام میں نشے سے بچنے کی تعلیمات کو بہتر طور پر ذہن نشین کرنا چاہئے۔ اسلام میں جن کاموں کی سختی سے مذمت کی گئی ہے اور جن سے منع فرمایا گیا ہے ان میں سے ایک نشہ کا استعمال بھی ہے۔ سورہ المائدہ، آیت نمبر ۹۰؍ میں فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام اعمالِ شیطان سے ہیں، سو ان سے بچتے رہو تاکہ نجات پاؤ۔ ‘‘ انسان کا سب سے اصل جوہر اس کا اخلاق و کردار ہے اور نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کر کے برے افعال اور نا پاک حرکتوں کا مرتکب کرتا ہے اور روحانی اور باطنی ناپاکی ظاہری ناپاکی سے زیادہ مضر ہے۔
غرض اس خطر ناک لَت سے نجات تب ہی ممکن ہوگی جب تمام شعبۂ ہائے زندگی سے متعلق افراداپنا قومی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس کے خلاف ایک منظم حکمت ِ عملی کے ساتھ بر سر پیکار ہو جائیں گے۔ یہ کارِ خیر بہت سوں کو تحفظ فراہم کریگا۔