ہر انسان کے دل میں خدا کا تصور موجود ہے۔ اس کی عبادت کیلئے وہ کوئی نہ کوئی گوشہ یا جگہ مخصوص کرتا ہے، جس سے اسے انسیت ہوتی ہے اوریہ اُنسیت جذباتی معاملہ بن جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 25, 2024, 4:55 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
ہر انسان کے دل میں خدا کا تصور موجود ہے۔ اس کی عبادت کیلئے وہ کوئی نہ کوئی گوشہ یا جگہ مخصوص کرتا ہے، جس سے اسے انسیت ہوتی ہے اوریہ اُنسیت جذباتی معاملہ بن جاتا ہے۔
خدا کی پہچان اور اس کی محبت انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے، موحد ہو یا مشرک خدا کی صحیح پہچان رکھتا ہو یا حقیقی معرفت سے بے بہرہ ہو، خالق کا پرستار ہو یا خالق کو مخلوق کے قالب میں تلاش کرتا ہو اور شجر و حجر یا آگ پانی کی پوجا کرتا ہو، اس کی تہہ میں خدا کی محبت ہی کار فرما ہے۔ آتش پرست آتشکدے کیوں سلگاتے ہیں ؟ انسان اپنے ہاتھوں سے رنگ برنگی خوبصورت مورتیاں کیوں بناتا ہے؟ گرجا گھروں میں ناقوس کیوں بجائے جاتے ہیں ؟ یہود اپنی عبادتگاہوں میں گھٹنے کے بل کیوں کھڑے ہوتے ہیں ؟ مسجدوں میں اذانیں کس کی طرف پکارنے کیلئے دی جاتی ہیں ؟ یہ سب خدا کی محبت اور اس کی چاہت کے مظاہر ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر قوموں نے خدا کی حقیقی پہچان کو کھو دیا ہے اور انہوں نے منزل کے بجائے راستہ اور خالق کے بجائے مخلوق ہی کو اپنا کعبۂ مقصود بنالیا ہے۔ پیغمبرؐ اسلام دُنیا میں اسی لئے تشریف لائے کہ انسانیت کو اس کے حقیقی خالق و مالک کے ساتھ جوڑا جائے اور زندگی کے صحیح طریقوں کے ساتھ ساتھ خدا کی بندگی کا صحیح طریقہ انسان کو بتایا جائے لیکن بہر حال مختلف قوموں میں عبادت کے جو طریقے مروج ہیں، وہ در حقیقت انسان کی فطرت میں چھپی ہوئی آواز ہے، خدا کی محبت، خدا کی چاہت، خدا کو پانے کا شوق، خدا کو اپنے آپ سے راضی کرنے کا جذبہ، خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی کو بچھانا اور اس کے حضور اپنی ضرورت و احتیاج کیلئے ہاتھ اٹھانا، مانگنا، رونا اور گڑ گڑانا، یہ سب انسانی فطرت کا حصہ ہے اور یہ بجائے خود خداکے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
خدا ہر جگہ ہے اور تہہ تہہ پر اس کی حکمرانی ہے لیکن خدا کی جو عظمت اور جلالت ِشان انسان کے قلب و ذہن میں رچی بسی ہے، اس کے تقاضا سے آدمی چاہتا ہے کہ خدا کی بندگی اور اس سے سرگوشی کیلئے پاک صاف جگہ ہو، جہاں سکون ہو، جہاں انسان کی روحانیت مادی آلائشوں سے آزاد رہ سکے اور وہ گھڑی چند گھڑی خدا کے حضور یکسو‘ ہو سکے۔ اسی مقصد کے تحت ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر علاقہ میں عبادت گاہوں کی تعمیر کا ذوق رہا ہے۔ اس سلسلہ کا آغاز کس عبادت گاہ سے ہوا؟ اس کا جاننا بہت دشوار ہوتا، اگر خود اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے بارے میں نہ بتایا ہوتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کیلئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں (کعبۃ اللہ)ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کیلئے (مرکز ِ) ہدایت ہے۔ ‘‘ ( آل عمران : ۹۶)
قرآن مجید میں کعبہ کی تعمیر ابراہیمی کا صراحتاً ذ کر موجود ہے۔ فرمایا گیا:
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دُعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘ ( البقرۃ:۱۲۷)؛ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انسان حضرت آدمؑ یا ان سے بھی پہلے فرشتوں نے خدا کے اس گھر کو تعمیر کیا تھا۔ یہ عبادت گاہ توحید کا مرکز تھی، ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک رہے گی، مگر رسولؐ اللہ کی بعثت سے قریب دو ڈھائی سو سال پہلے سے لے کر آپؐ کی بعثت کے اکیس سال بعد تک یہ مرکز توحید ’’بتکدہ ‘‘بنا ر ہا لیکن آپؐ نے کبھی اس گھر کی بے حرمتی نہیں فرمائی۔ مکہ فتح ہونے کے بعد آپؐ نے اس کے بت صاف کردیئے اور اس کو اپنی اصل وضع پر لے آئے، لیکن اس کے درودیوار سے ایک اینٹ بھی نہ کھینچی گئی اور حالانکہ اس کی تعمیر بِنائے ابراہیمی سے کسی قدر مختلف تھی پھر بھی اس کی توقیر و اکرام میں کوئی کمی روا نہیں رکھی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں عبادت گاہیں کس قدر قابل احترام اور لائق رعایت ہیں۔
جب بیت المقدس کا علاقہ فتح ہوا تو صورتحال یہ تھی کہ مقام ’’صخرہ ‘‘کو عیسائیوں نے کوڑا کرکٹ اور نجاستیں پھینکنے کی جگہ بنا رکھا تھا اور یہ یہودیوں کی عداوت کی بناء پر تھا کیونکہ یہود اسی کو اپنا قبلہ بناتے تھے۔ سیدنا عمر ؓ جب بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی تو ’’صخرہ‘‘ پر جو مٹی اور گندگی جمع تھی اسے اپنی چادر اور قباء ِمبارک کے دامن میں رکھ کر منتقل کرنا شروع کیا۔ اس طرح تمام مسلمان اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس مقام کو صاف ستھرا کیا۔ عیسائیوں کا یہ عمل در اصل یہودیوں کے ردعمل میں تھا؛ کیونکہ جس مقام پر حضرت عیسیٰ کو عیسائی عقیدہ کے مطابق سولی دی گئی تھی، اس مقام پر یہودسڑی گلی چیزیں پھینکا کرتے تھے۔ (البدایہ والنہایۃ: ۷/۵۶)
رسولؐ اللہ نے مذہبی جذبات کی رعایت اور عبادت گاہوں کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ آپؐ نے نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ فرمایا اس میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ نہ کوئی چرچ منہدم کیا جائے گا اور نہ کسی مذہبی رہنما کو نکالا جائے گا۔ ( ابو داؤد، حدیث نمبر : ۳۰۴۱) بعض مؤرخین نے معاہدہ نجران میں یہ دفعات بھی نقل کی ہیں کہ پادریوں، راہبوں اور پجاریوں کو اپنے عہدوں اور منصبوں سے برطرف نہیں کیا جائے گا اور نہ صلیبیں اور مورتیاں توڑی جائیں گی۔
(مقالات شبلی:۱۸۹ بحوالہ فتوح البلدان۔ ۶۵)
شام کا علاقہ فتح ہوا تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت عمرو بن عاصؓ اور دو اور صاحبان کی گواہی کے ساتھ دستاویز تحریر فرمائی، جس میں نام بنام ۱۴؍ گر جوں کا ذکر فرمایا اور ن کے تحفظ کی تحریری ضمانت دی۔ (البدایۃ والنہایۃ:۷/۲۱)
تاریخ شاہد ہے ککہ مسلمانوں کو عبادتگاہوں کا ہمیشہ اتنا لحاظ رہا کہ حضرت معاویہؓ نے جب دمشق کی جامع مسجد میں یوحنا سے موسوم گرجا کو شامل کرنے کی کوشش کی اور عیسائی اس پر راضی نہ ہوئے تو آپ اس سے باز رہے۔ لیکن عبدالملک بن مروان نے بالجبر گرجا کو مسجد میں شامل کرلیا۔ پھر خلیفۂ عادل و راشد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عہد میں عیسائیوں نے فریاد کی اور اس کا حوالہ دیا، چنانچہ حضرت عمرؒ نے دمشق کے گورنر کے نام حکم جاری فرمایا کہ گرجا کا جو حصہ مسجد میں ملایا گیا ہے وہ انہیں واپس کردیا جائے۔ (فتوح البلدان:۱۳۱)
مسلمانوں کے عہد حکومت میں غیرمسلم اقلیتوں کو نہ صرف اپنی قدیم عبادت گاہوں کو باقی رکھنے کا حق تھا بلکہ نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کی بھی اجازت تھی۔ مولانا عبدالسلام ندویؒ لکھتے ہیں :
’’خود عیسائیوں کو اپنی آبادی میں گرجا بنانے کی ممانعت نہ تھی، چنانچہ جب فسطاط میں عیسائیوں نے ایک نیا گرجا بنایا اور فوج نے اس کی مخالفت کی تو حضرت سلمہ بن مخلد نے یہ استدلال کیا کہ یہ تمہاری آبادی سے باہر ہے اور اس پر تمام فوج نے سکونت اختیار کی (حسن المحاضرہ: ۲/۵)۔ ہارون رشید کے زمانۂ خلافت میں مصرف کے گورنر عامر بن عمر نے جب عیسائیوں کو گرجا بنانے کی عام اجازت دینا چاہی تو لیث بن سعد اور عبیداللہ سے مشورہ لیا، ان بزرگوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور یہ استدلال پیش کیا کہ مصر کے تمام گرجے صحابہ اور تابعین ہی کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں۔ ‘‘ (ولاۃ مصر:۱۳۲)
مسلمانوں نے نہ صرف مذہبی عبادت گاہوں کو قائم رکھا اور ان کی تعمیر کی اجازت دی بلکہ عبادت گاہوں کے اوقاف، عہدے اور ان کے وظیفے بھی برقرار رکھے۔ علامہ شبلی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
عمرو بن عاصؓ نے حضرت عمرؓ کے عہد میں جب مصر فتح کیا تو جس قدر اراضیات گرجاؤں پر وقف تھیں، وہ اسی طرح بحال رہنے دیں، چنانچہ اس قسم کی جو اراضیات ۷۵۵ھ تک موجود تھیں ان کی مقدار ۲۵؍ہزار فدان تھی۔ (مقالات شبلی:۲۰۲)
محمد بن قاسم نے جب سندھ کو فتح کیا تو برہمنوں کے ساتھ خصوصی حسن سلوک، تہوار وغیرہ سے متعلق ان کی مذہبی تقریبات اور ان کو جو دان اور تحائف ملا کرتے تھے، ان سب کو برقرار رکھا۔ (حوالہ سابق : ۲۰۰۳)۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے تاریخی حقائق سے دوسری قوموں کے ساتھ خالص مذہبی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رواداری اور فراخ قلبی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ عبادت گاہ خواہ کسی قوم کی ہو، بہر حال اسے خدا کی عبادت و بندگی سے ایک نسبت ہے، اس لئے اس کی بے حرمتی کو ہرگز رواقر ار نہیں دیا جا سکتا، اس سے لوگوں کے گہرے جذبات متعلق ہیں ، یہی وجہ ہے کہ عبادت گاہوں کے تعلق سے جب کوئی ناشائستہ بات یا معاملہ سامنے آتا ہے تو پوری قوم کو ٹھیس لگتی ہے اور ان کے قلوب مجروح ہوتے ہیں ، اسلئے عبادت گاہوں پر حملہ اور ان کی بے حرمتی اسلامی نقطہ نظر سے انتہائی غیر شریفانہ حرکت ہے۔ اسلام کے اس نظریہ کو عام کرنے اور برادران وطن تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ خیرسگالی کا جذبہ پروان چڑھے اور عبادتگاہوں کی بنیاد پر تنازعات نہ جنم لیتے رہیں جیسا کہ وطن عزیز میں اب ہونے لگا ہے۔