رسول اللہ ﷺ نے عجلت پسندی کو شیطانی عمل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ٹھہراؤ اور تحمل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، جب کہ جلد بازی شیطان کا عمل ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: December 06, 2024, 5:05 PM IST | Mohammad Tauqeer Rahmani | Mumbai
رسول اللہ ﷺ نے عجلت پسندی کو شیطانی عمل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ٹھہراؤ اور تحمل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، جب کہ جلد بازی شیطان کا عمل ہے۔‘‘
آج کے اس برق رفتار ترقی کے دور میں، جہاں جدید ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ایجادات نے مشکل ترین کاموں کو چٹکیوں میں حل کرنے کا مؤثر اور سہل طریقہ فراہم کیا ہے، وہیں ان ایجادات نے انسان کی فطری رفتار کو متاثر کرتے ہوئے اسے عجلت پسندی کی عادت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی بھی کام کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کے مثبت اور کارآمد نتائج دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن کبھی کبھار نتیجے کی اسی فکر میں کام ادھورا رہ جاتا ہے۔ یوں نہ تو کام مکمل ہوپاتا ہے اور نہ ہی مطلوبہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے، بلکہ جلد بازی کے چکر میں کی گئی تمام محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ جلدی میں اٹھایا گیا ہر قدم اور عجلت میں کیا گیا ہر فیصلہ عموماً نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے فیصلوں کے نتائج نہ صرف غیر متوقع ہوتے ہیں بلکہ انسان کو پچھتاوے اور حسرت کے سوا کچھ نہیں دیتے، یہاں تک کہ کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔
موبائل اور خصوصاً مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی حیرت انگیز ایجاد نے گویا انسان کو ’’کن فیکون‘‘ جیسی خدائی صفت سے متصف کرنے کا خواب دکھایا ہے۔ ان ایجادات نے انسانی مزاج میں عجلت پسندی اور جلد بازی کو اس طرح رچا بسا دیا ہے کہ وہ اس کی فطرت کا حصہ بن گئی ہیں۔ نتیجتاً، لوگ گھنٹوں موبائل کی اسکرین پر شارٹ ویڈیوز اور ریلز دیکھنے میں مگن رہتے ہیں، جیسے ان کی زندگی کا مقصد یہی ہو۔ لیکن جب بات علم و دانش سے معمور کسی آدھے گھنٹے کی ویڈیو دیکھنے یا اپنے مستقبل سے وابستہ چند منٹ کی آن لائن کلاس میں دھیان دینے کی ہو، تو ان پر بے قراری اور اکتاہٹ کا ایسا غلبہ طاری ہوتا ہے کہ بار بار جماہیاں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور غنودگی ان کا پیچھا کرنے لگتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:اختلافات میں غیر اخلاقی وغیر اسلامی طرزعمل سے بچیں
انسان فطرتاً جلدباز ہے جیساکہ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۱۱؍ میں ارشاد خداوندی ہے۔ لیکن یہ عجلت پسندی اس وقت نقصان دہ بن جاتی ہے جب وہ شعوری فیصلہ سازی کو متاثر کرتی ہے۔ جذباتی جلد بازی نہ صرف فرد کے لئے بلکہ معاشرتی اور اخلاقی نظام کے لئے بھی مضر ہے۔ لیکن قرآن کریم عجلت پسندی سے اجتناب کی تلقین کرتے ہوئے اس کا بہترین حل بھی پیش کرتاہے:’’پس اے محمدؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کریں، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کریں۔ ‘‘ (طٰہٰ: ۱۳۰)
اکثر اوقات انسان غصے یاجذبات کی رو میں بہہ کر عجلت میں ایسا قدم اٹھا لیتا ہے یا ایسا فیصلہ کر بیٹھتا ہے جو بعد میں پچھتاوے اور نقصان کا باعث بنتا ہے۔ جذبات کے اس لمحاتی غلبے میں وہ دور اندیشی اور حکمت کو پس پشت ڈال دیتا ہے، جس کا خمیازہ اسے دیرپا نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے عجلت پسندی کو شیطانی عمل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ٹھہراؤ اور تحمل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، جب کہ جلد بازی شیطان کا عمل ہے۔ ‘‘ (جامع ترمذی) ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب کسی کام کا ارادہ کرو، تو اس پر گہرائی سے غور و خوض کرو۔ ‘’(مشکوٰۃ المصابیح)
یہ رہنمائی اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ کسی بھی کام میں جلد بازی کے بجائے تدبر اور حکمت کو اختیار کیا جائے، تاکہ اعمال درست سمت میں ہوں اور ان کے نتائج کارآمد اور دیرپا ثابت ہوں۔ جلد بازی انسان کو شعور اور حکمت سے محروم کر دیتی ہے۔ یہ جذباتی کمزوری اور عقل سے کام نہ لینے کی علامت ہے۔ یہ نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی نقصان کا باعث بھی بنتی ہے۔ اعتدال اور میانہ روی بہترین اخلاقی صفات ہیں۔ انسان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے جذبات کو عقل کے تابع رکھے۔ عجلت پسندی اس اصول کی نفی کرتی ہے اور فرد کو جذبات کی سطح پر قید کر دیتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں صبر اور حکمت کو اعلیٰ صفات میں شمار کیا جاتا ہے۔ امام غزالی ؒ نے عجلت کو ’’نفس کی کمزوری ‘‘قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عاقل انسان وہ ہے جو اپنے اعمال کے نتائج کو پہلے سے سوچ لے۔
انسانی زندگی کی کامیابی اور سکون کا راز اعتدال اور میانہ روی میں پوشیدہ ہے۔ عجلت پسندی جہاں زندگی کے فیصلوں کو پیچیدہ بناتی ہے، وہیں حکمت اور صبر سے کئے گئے فیصلے ہمیشہ بہترین نتائج فراہم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا صبر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے تحمل کو مومن کی بہترین صفات میں شمار کیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر قدم پر غور و فکر، تدبر اور صبر کو اختیار کیا جائے۔
یہی وہ راستہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا ضامن ہے۔