دل کو چھو لینے والی اس سچی روداد کا پہلا حصہ نذرِ قارئین ہے۔ یہ ِاِس روداد کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو آئندہ جمعہ کو اسی صفحہ پر ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
EPAPER
Updated: November 29, 2024, 4:59 PM IST | Sumayya Ramadan | Mumbai
دل کو چھو لینے والی اس سچی روداد کا پہلا حصہ نذرِ قارئین ہے۔ یہ ِاِس روداد کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو آئندہ جمعہ کو اسی صفحہ پر ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن مجید تو عمل ہی کے لئے اُترا ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں سفرِزندگی طے کرنا دراصل دنیا میں جنت بسانا ہے۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے کتنے زخم مندمل ہوئے ، کتنی جدائیاں ختم ہوئیں ، کتنے گھر تباہ ہوتے ہوتے سلامتی کے گھر بنے ، یہ سب کچھ قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ قرآنی رہنمائی سے انفرادی اصلاح کس طرح ہوتی ہے ، اس سلسلے میں ایک بہن کا اپناتجربہ اُسی کے الفاظ میں بیان کررہی ہوں :
’’مجھے رات دیر تک جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ جب مؤذن نماز فجر کے لئے اذان دیتا تو میں غافل و لاپروا سوئی رہتی۔ اللہ کے فرشتے مجھے نمازیوں میں نہ پاتے۔ اس مبارک وقت میں ، مَیں اور میرے گھر والے شیطان کی گرفت میں ہوتے تھے ، ہم سب گہری نیند سوتے۔ بیدار ہونے کے بعد مجھے سارا دن اس کا قلق رہتا۔ میں نے کئی بار صبح سویرے نماز کیلئے اٹھنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے نے کبھی عملی صورت اختیار نہ کی۔ ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ پھر میں نے بہن سمیہ رمضان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا اور ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے مجھے ذیل کے ارشاد الٰہی کو بار بار دہرانے کی تاکید کی: ’’جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو ، اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ ‘‘ (الشعرا ء: ۲۱۸-۲۱۹)
یہ بھی پڑھئے:نوجوانوں میں شدت پسندی کا بڑھتا رجحان
چنانچہ میں اس نورانی ارشاد کو بار بار دہراتی رہتی اور میں نے کوشش کی کہ یہ ارشاد مبارک جس طرح میری زبان پر جاری ہے اسی طرح دل میں بھی پیوست ہوجائے۔ بالآخر وہ وقت آگیا ، فیصلہ کن وقت ، آیت کے مطابق حرکت اور عمل کرنے کا لمحہ ، اُدھر مؤذن نے اللہ اکبر ، اللہ اکبر کے کلمات ادا کئے ، اِدھر میں نے اپنے بستر پر کروٹیں بدلنا شروع کر دیں۔ میں مؤذن کی آواز پر لبیک کہنے سے ہچکچا رہی تھی ، شیطان میرے لئے نیند کو خوشگوار بناکر پیش کر رہا تھا اور نماز کے معاملے کو میری نظر میں معمولی بناکر دکھا رہا تھا۔ اُدھر مؤذن کے کلمات مجھے یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ مؤذن کہہ رہا تھا: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ ، اب مؤذن میرے رسولِ محترم کا ذکر کر رہا تھا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کو بیان کر رہا تھا ، اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ۔ اس کے بعد مؤذن مجھ سے مخاطب ہوکر نماز کیلئے بلا رہا تھا ، حیّ علی الصلاۃ ، حیّ علی الصلاۃ۔ مؤذن مجھے بتا رہا تھا کہ فلاح و کامیابی نماز ادا کرنے میں ہے حیّ علی الفلاح۔ مؤذن کے یہ الفاظ اور قرآن کی اس آیت کے کلمات اور جس آیت کو بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کا مجھے مشورہ دیا گیا تھا ، مجھے نماز کے لئے پکار رہے تھے۔ پھر اذان اور آیت کے کلمات میرے دل میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اب نیند میری آنکھوں سے دھل چکی تھی۔ میں نے اللہ رحمٰن کو اپنے قریب محسوس کیا اور اس احساس کے بیدار ہوتے ہی میں یکدم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے کپڑے سنبھالے ، بڑی شدت سے احساس ہوا کہ میں کمرے میں تنہا نہیں ہوں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ وہی جو میری شہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ اُس کے قرب کا احساس ہوا تو میں وضو کیلئے لپکی۔ نماز فجر ادا کرنے کیلئے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی ، کتنی بار ارادے باندھے اور توڑے۔ میری آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں اور نماز کے بعد میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے: اللہ کا شکر ہے ، وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے جس نے مجھے ، میرے مرنے سے پہلے اس نماز کی توفیق دی اور یوں مجھ پر بڑا کرم کیا۔ اللہ نے مجھ پر چار نہیں پانچ نمازیں فرض کی تھیں مگر میں اپنی سُستی و کاہلی کے سبب اب تک صرف چار نمازیں ہی ادا کرتی رہی تھی۔ میں نے رو رو کر اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگی اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے آخری عمر تک اسی طرح پانچوں نمازیں بروقت ادا کرنے کی توفیق دے۔