• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شریعت کے معیار پر رشتہ تلاش کریں

Updated: June 28, 2024, 3:00 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

جب بچے بڑے ہوکر شادی کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اکثر والدین کی سب سے بڑی خواہش اور دلی تمنا یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھ جائیں اور ایک خوشگوار ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جب بچے بڑے ہوکر شادی کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اکثر والدین کی سب سے بڑی خواہش اور دلی تمنا یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھ جائیں اور ایک خوشگوار ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ یہ سوچ توتقریباً تمام والدین میں مشترک ہوتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ کچھ ہی والدین صحیح وقت پر اس ذمے داری کو ادا کر پاتے ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں لیکن موجودہ معاشرے پر باریک نظر ڈالنے سے سب سے بڑی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ والدین کو وہ مناسب رشتہ نہیں مل رہا ہوتا ہے جس کا انہوں نے خواب دیکھا ہے اور منصوبہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مناسب رشتہ نہ ملنے کی شکایت لڑکے والوں کو تو لاحق ہوتی ہی ہے، لڑکی والے بھی اسی پریشانی کا ذکر کرتےنظر آتے ہیں۔ 
 عقلی طور پر اگر مناسب رشتہ نہ ملنے کی بات کو دیکھا جائے تو یہ چیز سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار اچھے لڑکے اور لڑکیوں کے رہتے ہوئے بھی جانبین کو مناسب رشتہ کیوں نہیں ملتا! اس معمے کا جواب یہ ہے کہ ہم لوگوں نے از خود مناسب رشتے کا معیار قائم کر رکھا ہے جس سے نیچے آنے کے لئے ہم تیار ہی نہیں ہوتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے شریعت اور عقل کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: کسی کے گھر میں داخلہ کیلئے اذن و اجازت طلب کرنا لازم ہے

 آئیے! مناسب رشتے کے سلسلے میں شریعت نے جو معیار قائم کیا ہے اس پر ایک نظر ڈالتے چلیں ۔ شادی کے لئے لڑکی کی تلاش میں شریعت نے جس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ دینداری ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ’’کسی عورت سے شادی اس کے حسن وجمال کی وجہ سے کی جاتی ہے یا حسب نسب کی وجہ سے یا مالداری کی وجہ سے یا دیندار ہونے کی وجہ سے، پس تم دینداری کو لازم پکڑلو۔ “ (صحیح ابن حبان) 
 اس حدیث کا معکوس نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح شادی کے لئے دین دار لڑکی کو ترجیح دینی چاہئے اسی طر ح لڑکے میں بھی دین داری وجہ ترجیح ہونی چاہئے۔ انتہائی شرم کی بات یہ ہے کہ موجودہ سماج میں جانبین میں ایک ایسی جماعت موجود ہے جو دینداری کو عار اور پسماندہ و دقیانوس ہونے کی علامت سمجھتی ہے۔ 
 مناسب رشتے کی تلاش میں شریعت مطہرہ کا ایک اہم اصول کفو کا بھی ہے۔ ’کفو‘کا معنی ہے: ہم سر، ہم پلہ، برابر۔ اگرلڑکااورلڑکی نسب، مال، دِین داری، شرافت اورپیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تویہ دونوں ایک دوسرے کے ’کفو‘ قرار پائیں گے، ان کاباہمی رضامندی کے ساتھ نکاح درست ہے اور اگر لڑکا اور لڑکی کے درمیان مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق برابری نہ ہو تو اسے ان دونوں کا آپس میں ’غیر کفو‘ (یعنی ہم پلہ نہ) ہونا قرار دیا جائے گا۔ اگر ولی(والد یا دادا وغیرہ) اور عورت اس رشتے پر راضی ہوں خواہ وہ رشتہ ہم سر نہ ہو تو بھی نکاح جائز ہے۔ 
 کفو کے آئینے میں اگر اب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عموماً لڑکے والے ایسی لڑکی تلاش کرتے ہیں جو مالداری میں ان سے بہتر ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ جہیز لے سکیں۔ حالانکہ تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر شوہر مال داری میں بیوی کے ہم پلہ یا اس سے بڑھ کر نہ ہو تو عموماً نکاح کے حقیقی مصالح و دیرپا مقاصد کا حصول مشکل ہوجاتاہے اور بسا اوقات شوہر کو ساری زندگی جھک کر رہنا پڑتاہے؛ اس لئے شریعت نے فطری جذبے کا لحاظ رکھتے ہوئے کچھ بنیادی اور اہم باتوں میں جانبین سے برابری کو ملحوظ رکھا ہے۔  اسی طرح عموماً لڑکی والے بھی ایسے لڑکے کی تلاش میں رہتے ہیں جو سرکاری ملازم ہو، بڑا تاجر ہو، بیرونی ملک میں برسرکار ہو یا خوب پیسے کماتا ہو۔ حالانکہ یہ سب شادی کے مذہبی معیار اور کفو کے دائرہ سے خارج ہیں۔ اس باب میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر اپنی حیثیت سے زیادہ بڑے گھروں میں جانے والی لڑکیاں پریشان رہتی ہیں۔ 
  یاد رکھیں ! شادی کے معاملے میں اگر ہم نے لچک دار رویہ نہیں اپنا یا تو رشتے میں غیر ضروری تاخیر ہوتی رہے گی۔ اس لئے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو وقت پر مناسب رشتہ مل جائے تو ہمیں خود ساختہ معیار کو چھوڑ کر شریعت کے معیار کو اپنانا ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK