کسی کے گھر میں داخلہ کیلئے اذن و اجازت طلب کرنا لازم ہے، یہ اسلامی تعلیم اور روایت ہے۔ اِذن حاصل نہ کرنے والوں کو بار بار متبنہ کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: June 28, 2024, 2:52 PM IST | Dr. Shahza Kausar Cheema | Mumbai
کسی کے گھر میں داخلہ کیلئے اذن و اجازت طلب کرنا لازم ہے، یہ اسلامی تعلیم اور روایت ہے۔ اِذن حاصل نہ کرنے والوں کو بار بار متبنہ کیا گیا ہے۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو مکمل معاشرتی نظام دیا ہے اور ہر قسم کے آداب سکھائے ہیں ۔ انھی آداب میں، گھروں میں داخل ہونے سے قبل، اذن یعنی اجازت طلب کرنے کے آداب بھی شامل ہیں ۔ یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہوں ۔ بغیر اجازت داخل نہ ہونے کی اصل حکمت فرد کی ذاتی زندگی کی اور گھر کے تخلیہ کی حفاظت ہے۔ کسی فرد اور گھر میں رہنے والوں کو یہ تحفظ حاصل ہونا چاہئے کہ کوئی ان کی زندگی میں اطلاع و اجازت کے بغیر نہ آئے، تاک جھانک نہ کرے اور اچانک مخل نہ ہو۔
قرآنی ہدایت: جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ صبح بخير، شام بخیر کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ اللہ تعالی نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیہ کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیہ میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ (تفہیم القرآن )۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں ) غور و فکر کرو، پھر اگر تم ان (گھروں ) میں کسی شخص کو موجود نہ پاؤ تو تم ان کے اندر مت جایا کرو یہاں تک کہ تمہیں (اس بات کی) اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو تم واپس پلٹ جایا کرو، یہ تمہارے حق میں بڑی پاکیزہ بات ہے، اور اللہ ان کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے، اس میں تم پر گناہ نہیں کہ تم ان مکانات (و عمارات) میں جو کسی کی مستقل رہائش گاہ نہیں ہیں (مثلاً ہوٹل، سرائے اور مسافر خانے وغیرہ میں بغیر اجازت کے) چلے جاؤ (کہ) ان میں تمہیں فائدہ اٹھانے کا حق (حاصل) ہے، اور اللہ ان (سب باتوں ) کو جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ ‘‘(سورہ نور: ۲۷؍تا ۲۹)
یہ بھی پڑھئے: عجلت پسندی کا مظاہرہ اور میانہ روی سے دُوری
مندرجہ بالا آیات میں جن ’’آداب‘‘ کا حکم عطا ہوا ہے ان میں مصلحت یہ ہے کہ معاشرے میں برائی پیدا نہ ہو سکے اور صلح اور سکون ہو۔ جہاں معاشرہ صالح ہو گا وہاں تمدن بھی شائستہ ہو گا۔
اجازت کا مسنون طریقہ: اجازت حاصل کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ انسان کو جس کے گھر جانا مقصود ہے، وہاں پہنچ کر گھر والوں کو سلام کرے، اپنا نام بتائے اور اگر ضروری ہو تو گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرے۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے متعلق مروی ہے کہ وہ جب حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے: السلام علیکم یا رسولؐ اللہ، کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟
ابتداء میں جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ ربعیؓ سے روایت ہے، بنی عامر کے ایک شخص نے نبی کریمؐ سے اس وقت اجازت طلب کی جبکہ وہ گھر میں داخل ہوچکا تھا۔ پھر اس نے کہا، کیا میں داخل ہوجاؤں ؟ آپؐ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اس شخص کے پاس جاؤ اور اجازت طلب کرناسکھاؤ اور کہو کہ السلام علیکم کہہ کر اجازت لینا چاہئے کہ کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ اس آدمی نے آپؐ کا فرمان سن لیا اور کہا، السلام علیکم، پھر کہا : کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ آپؐ نے اس کو اجازت دی تو وہ داخل ہوا۔ (بذل المجہود، ج۶)
جابرؓبن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرت کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ نے پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں ہوں ! ‘‘آپ ؐ نے دو مرتبہ فرمایا ’’میں ہوں، میں ہوں ‘‘ (یعنی اس ’میں ہوں ‘ سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو)۔ گویا کہ آپؐ نے اس طرح کہنے کو ناپسند فرمایا۔
تخلیہ کے حق کا اطلاق:گھر خواہ اہل خانہ کی ملکیت ہو یا اس نے کرایہ پر حاصل کیا ہو یا وہ عاریتاً اس میں گزر بسر کرتا ہو، خواہ اس گھر میں محرم ہوں یا غیر محرم مرد رہتے ہوں یا عورتیں ، تمام صورتوں میں جو صاحب خانہ ہے، اس سے اجازت لینی چاہئے۔ گھر والا اجازت دے یا اس نے جس کو اجازت دینے کا اختیار دیا ہے وہ اجازت دے۔ حضورؐ نے تخلیہ کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسروں کے گھروں میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۳)
حضرت عبداللہ بن عباسؓکی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط پر نظر دوڑائی، اس نے گویا آگ میں جھانکا۔ ‘‘ (حافظ المنذری، مختصر سنن ابی داؤد)
دروازے پر کھڑے ہونے کے آداب: رہبر ِ مد نیت رسول مقبولؐ نے اپنے قول و فعل سے اس بات کی ہدایت فرمائی ہے کہ اجازت طلب کرنے والے کو دروازے کے عین سامنے کھڑا نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے۔ حضرت ھذیل بن شرجیل کہتے ہیں، ایک شخص نبی کریم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ حضورؐ نے اسے فرمایا: ’’پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اس لئے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ ‘‘ (بذل المجهود ج ۲) حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لئے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا۔ ‘‘ (ایضاً )
حضورؐ کا اپنا قاعدۂ مبارک بھی یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے۔
طلب ِاجازت کی حد: اجازت لینے کے لئے آپؐ نے زیادہ سے زیادہ تین بار پکارنے کی حد مقرر کردی اور فرمایا کہ ’’اگر تیسری بار پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہوجاؤ۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
حضور ؐ کا اپنا یہی طریقہ تھا۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاں گئے، اور السلام علیکم کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپؐ واپس ہو نے لگے کہ اتنے میں حضرت سعدؓ اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ، میں آپؐ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے میرے لئے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے اس لئے بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا۔ ‘‘ (بذل المجهود، ج۴)
اپنے گھر میں داخل ہونا: اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی ہی صورت میں نہیں ہے بلکہ خود اپنے گھر کی خواتین کے کمروں میں جانے کی صورت میں بھی ہے۔ ایک شخص نے نبیؐ سے پوچھا: ’’کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ۔ ‘‘ آپ ؐنے فرمایا: ’’ہاں ۔ ‘‘ اس نے کہا: ”میرے سوا اس کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے۔ کیا ہر بار اجازت مانگوں ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ جب جب جاؤ تب تب اجازت مانگو۔
آداب استیذان کے فوائد: استیذان یعنی اِذن یعنی اجازت۔ کسی کی ذاتی زندگی اور اس کے تخلیہ کے حق کے تحفظ، اخلاق کی پاکیزگی اور نفس کی طہارت کے لئے دوسرے کے گھر اور پرائیویٹ زندگی میں داخل ہونے سے قبل اذن حاصل کرنا بہت لازمی امر ہے۔ استیذان کے متعلق جتنے آداب کا ذکر کیا گیا ہے ان پر عمل کرنے سے یہ مقاصد حاصل ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں لوگ ان آداب کو بھولتے جارہے ہی۔