• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

میدانِ حشر کے پانچ سوال

Updated: June 28, 2024, 4:17 PM IST | Mohammad Yusuf Islahi | Mumbai

ان کا جواب دیئے بغیر مجال نہیں کہ انسان خدا کے حضور سے قدم ہٹا سکے۔

It is also important to be satisfied whether you are spending according to God`s will or not.  Photo: INN
یہ بھی اطمینان کرنا ضروری ہے کہ آپ خدا کی مرضی کے مطابق خرچ کررہے ہیں یا نہیں۔ تصویر : آئی این این

خدا کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ میدانِ حشر میں ہر شخص سے پانچ سوال کئے جائینگے اور جب تک وہ ان پانچ سوالوں کے جواب نہ دے لے گا، مجال نہیں کہ وہ خدا کے حضور سے قدم ہٹا سکے:
 ۱) اپنی زندگی کن کاموں میں لگائی؟
 ۲) اپنی جوانی کو کن کاموں میں کھپایا؟
 ۳) مال و دولت کن ذرائع سے حاصل کیا؟
 ۴) مال و دلت کن کاموں میں خرچ کیا؟ اور
 ۵) جو علم حاصل تھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟
  بہت جلد وہ دن آنے والا ہے جب ہم اور آپ حشر کے میدان میں کھڑے ہوں گے اور ان سوالوں کے جوابات دے رہے ہونگے۔ کس قدر خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس زندگی میں ان سوالوں کے صحیح جوابات تیار کررہا ہے اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے شعور کی زندگی گزار رہا ہے۔ زندگی آپ کو بھی ملی ہے، جوانی کی نعمت سے آپ بھی نوازے گئے ہیں، مال و دولت کے آپ بھی مالک ہیں، مال آپ بھی خرچ کررہے ہیں ، آپ کو بھی بہت کچھ علم حاصل ہے اور آپ بھی عمل کررہے ہیں … سوچئے، آپ کیا جوابات تیار کررہےہیں اور کل خدا کو خوش اور مطمئن کرنے کے لئے کیا کچھ کررہے ہیں ؟
 اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے… دنیا کی زندگی بہت مختصر اور فانی ہے۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے، وہاں کا سکھ بھی ہمیشہ کا ہے اور وہاں کا دکھ بھی ہمیشہ کا۔ دُنیا کی اس قلیل زندگی میں آپ کے رب نے آپ کو مہلت اور موقع دے رکھا ہے کہ آپ اپنی کوششوں سے اپنے لئے آخرت کی زندگی جیسی چاہیں بنالیں۔ ہمیشہ کا سکھ بھی آپ اپنے لئے فراہم کرسکتے ہیں اور ہمیشہ کا دکھ بھی آپ ہی کے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔ آپ ہر لمحہ دنیا کی زندگی سے دور اور آخرت کے انجام سے قریب ہورہے ہیں ، آپ کو شعور ہو یا نہ ہو، آپ کی زندگی ان سوالوں کا جواب تیار کررہی ہے۔ یہ جوابات خدا کے فضل سے آپ کو حسن ِ انجام سے بھی ہمکنار کرسکتے ہیں اور یہی جوابات آپ کو خدا کے غضب میں بھی گرفتار کرسکتے ہیں۔ 
 مسئلہ آپ کی اپنی زندگی کا ہے، نہ محض عقلی طور پر حل کرلینے کا یہ مسئلہ ہے نہ اس کا تعلق کسی اور سے ہے۔ آپ اور صرف آپ سے اس کا تعلق ہے۔ صرف آپ ہی کو اسے حل کرنا ہے، کوئی دوسرا اگر اس کے حل کرنے میں اپنا سب کچھ کھپا دے تب بھی آپ کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا اور اگر آپ اپنے مسئلہ کو صحیح صحیح حل کرنا چاہیں تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ آپ کا ذاتی اور شخصی مسئلہ ہے، آپ ہی اس کے ذمہ دار ہیں اور آپ ہی کو اپنے کئے کا اچھا یا برا انجام دیکھنا ہے۔ آپ اس پر سوچنے کی زحمت اٹھائیں یا نہ اٹھائیں آپ کی زندگی بہرحال ان سوالوں کے جوابات تیار کررہی ہے اور اپنے وقت پر یہ جوابات (خدا کے حضور) بہرحال پیش ہوں گے۔ 
 پھر معاملہ اس خدا سے ہے جس کے علم سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں۔ آسمان کی فضائیں ہوں یا زمین کی تہیں، پہاڑوں کی چٹانوں کے سینے ہوں یا سمندر کی اتھاہ گہرائیاں، جہاں کہیں جو کچھ ہورہا ہے اس کے علم میں ہورہا ہے، وہ عادل و حکیم ہے، اس کے یہاں کسی کے ساتھ ناانصافی ہرگز نہیں ہوسکتی۔ آپ نے ذرّہ بھر نیکی کی ہوگی تو یقیناً اس کا صلہ آپ کے سامنے آئے گا اور ذرّہ بھر برائی کی ہوگی تو لازماً اس کا بدلہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ حشر کا فیصلہ اٹل ہے، سنجیدگی سے سوچئے کہ آپ کیا فیصلہ چاہتے ہیں … آج ہی آپ کو موقع حاصل ہے، آج آپ دارالعمل میں ہیں، کل دارالحساب میں ہوں گے اور عمل کی مہلت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکی ہوگی۔ 

یہ بھی پڑھئے: وقت، کہ پگھلتا جارہا ہے

کیا آپ کو کبھی اس سوال نے لرزایا کہ آپ نے مال کہاں خرچ کیا؟ بظاہر یہ کتنا معمولی سا سوال ہے مگر یہ ہرگزمعمولی نہیں ہے۔ اس سوال پر آپ کی آخرت بننے اور بگڑنے کا دارومدار ہے۔ اس وقت ہم صرف اسی ایک سوال پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ اچھے اچھے دیندار اور باشعور افراد بھی اکثر اس سوال کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے اور انہیں یہ حقیقت لرزہ براندام نہیں کرتی کہ ہم جس طرح اور جن کاموں میں اپنا مال خرچ کررہے ہیں اس کے بارے میں کل خدا کے حضور کھڑے ہوکر ہمیں خدا کو جواب دینا ہے۔ 
  آپ پابندی سے زکوٰۃ دیتے ہیں، صدقہ و خیرات میں بھی خرچ کرتے ہیں اور کبھی تنگ دلی اور بخل کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن یہ بھی اطمینان کرلیجئے کہ آپ جہاں جہاں اور جس جس طرح خرچ کررہے ہیں، ٹھیک ٹھیک خدا کی مرضی کے مطابق کررہے ہیں یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دین کی ضرورت اور خدا کی مرضی کچھ اور ہو اورآپ کا طرز عمل کچھ اور ہو۔ 
  آپ نے حج ادا کرلیا اور خدا نے آپ کو اتنا دیا ہے کہ بار بار آپ نفلی حج کریں۔ بلاشبہ، بیت اللہ کی حاضری مومن کے لئے بہت بڑی سعادت ہے۔ آپ بار بار اس سعادت سے بہرہ ور ہورہے ہیں مگر آپ کے پڑوس میں ایک بیوہ ہے جو نانِ شبینہ کو محتاج ہے، محلہ ہی میں ایک دق کا مریض ہے جس کے کئی بچے ہیں، خستہ حال، فاقوں کے مارے، تعلیم و مذہب سے محروم، آپ کی بستی میں کتنے ہی نوجوان بے مقصد گھوم رہے ہیں ، نہ ان کے روزگار کا کوئی بندوبست ہے نہ ان کی تعلیم و تربیت کا، ان کی آوارگی اور بے راہ روی نہ صرف معاشرے کے لئے وبالِ جان ہے بلکہ ان کا وجود اسلام کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہے۔ دق کے اس مریض نے آپ کو متوجہ بھی کیا، بیوہ نے بھی اپنی خستہ حالی آپ کو بتائی، نوجوانوں کی بے راہ روی سے بھی آپ کو روشناس کرایا گیا…لیکن آپ نے کوئی نوٹس نہ لیا… آپ کو تو یہ دھن ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کر آئیں۔ 
 برسات کی رات تھی، کرائے دار کو آپ نے اپنے گھر سے نکال دیا، اس نے آپ سے گڑگڑا کر التجا کی کہ دو ماہ کی مہلت دے دیجئے، وہ آپ کا مکان خالی کردیں گے لیکن آپ نے زبردستی دھکے دے کر اسے نکال دیا۔ ان مظلوموں نے پیڑ کے نیچے بارش میں رات گزاری اور دوسرے دن آپ نے وہ مکان مدرسہ کیلئے وقف کردیا، آپ کو دھن تھی کہ جلد از جلد زندگی ہی میں یہ کام کرجاؤں !
 آپ کی زندگی کی یہ چند جھلکیاں ہیں۔ خدارا غور کیجئے کہ کل جب خدا آپ سے پوچھے گا کہ تو نے مال کہاں کہاں خرچ کیا تو آپ اپنا یہ طرز عمل بتا کر واقعی خدا کو خوش کرسکیں گے کہ آپ نے اپنا مال واقعی صحیح مصارف میں خرچ کیا؟ کیا آپ مطمئن ہیں کہ آپ نے دین کے تقاضوں کے مطابق خرچ کیا اور آپ کا یہ صدقہ و خیرات خدا کے یہاں قبول ہوگا؟
 آپ کا کام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ راہِ خدا میں خرچ کریں، یہ بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے کہ صحیح مصارف میں خرچ کریں، دین کا جہاں جہاں تقاضا ہو وہاں وہاں خرچ کریں۔ بے شک مال آپ کا ہے، لیکن اگر آپ خدا کی راہ میں خرچ کرکے خدا سے صلہ چاہتے ہیں تو خدا کے دین سے یہ بھی معلوم کیجئے کہ میں کہاں صَرف کروں اور کس طرح صرف کروں۔ اپنے ذوق کی تسکین اور اپنے نفس و قلب کے اطمینان کیلئے خرچ کررہے ہیں تو خدا سے صلے کی تمنا نہ کیجئے۔ خدا سے صلہ تو اُسی کو ملے گا جو خدا کی مرضی کے مطابق اور دین کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق خرچ کرے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK