• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

روحانیت کے لئے اوصاف ِحمیدہ کا خوگر بننا ضروری ہے

Updated: August 02, 2024, 3:30 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

جب انسان نماز، ذکر و تسبیح اور دیگر نیک کاموں کے بعد فورا ًموبائل پکڑنے کا عادی ہوگا اور کچھ بھی دیکھنے اور سننے میں لگ جائے گا تو اس کو سکون کہاں سے حاصل ہوگا؟

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اگر کوئی شخص روحانیت کی تلاش میں ہو اور کام ایسے کرتا ہو جو روحانیت کے منافی ہوں تو وہ کبھی بھی روحانیت کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ ہاں ! اس صورت حال میں وہ روحانی تنزلی کی آخری منزل پر ضرور پہنچ سکتا ہے۔ روحانیت کوئی ایسی چیز نہیں جو محض دلی خواہش سے، روحانیت کے موضوع پر اعلیٰ ترین کتابوں کے مطالعے سے یا کسی باکمال پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے حاصل ہو جائے۔ روحانیت کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان شریعت میں مطلوب اعمال پر جمنے کے ساتھ تمام مناہی سے بھی بچتا رہے۔ اس اعتبار سے رب کائنات کی مرضی کے مطابق اعمال صالحہ کرنے یا برے اعمال کے ترک میں مجاہدہ و ریاضت سے جو نورانیت پیدا ہوتی ہے اسی کا نام روحانیت ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:شریعت نے مطلقہ اور بچوں کیلئے نفقہ و کفالت کا ایک پورا نظام رکھا ہے

روحانیت کے مذکورہ اتار چڑھاؤ کو ہم قرآن مجید کی ذیل کی آیتوں سے صاف طور پر سمجھ سکتے ہیں : ’’بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا، اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا، بلکہ تم (اﷲ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں ) کو اختیار کرتے ہو، حالانکہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ ‘‘ (سورۂ الاعلیٰ: ۱۴؍تا۱۷)
 یہاں سمجھنا یہ ہے کہ ہمارے اندر فطری طور پر روحانیت کی جستجو موجود ہے لیکن ہم اس جستجو کو منزل آشنا کرنے کیلئے جس تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں کر پاتے ہیں بلکہ ستم یہ کرتے ہیں کہ الٹی سمت میں سفر جاری کر دیتے ہیں۔ ایک زاویے سے یہی بات اوپر کی آیتوں میں کہی گئی ہے کہ کامیابی کے لئے روحانیت والے اعمال ضروری ہیں لیکن ہم ہیں کہ دوسری ہی دنیا میں مگن ہیں ؛ جہاں کامیابی کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔ 
 انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ روحانیت کے حصول میں مانع اعمال کی شکلیں ہر زمانے میں بدلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے لوگ باہر نکل کر بد نظری کے مرتکب ہوتے تھے اور گانوں کی محفلوں میں شرکت کرکے کان کے لئے سامان لذت فراہم کرتے تھے لیکن اب اس کے لئے نہ ہی باہر جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی محفل میں شرکت کی ضرورت ہے بلکہ ہر ایک ہاتھ میں جو موبائل نامی شے موجود ہے، اس میں روحانیت کا جنازہ نکالنے والی مذکورہ بیماریاں پہلے سے بھی کہیں زیادہ باعتبارکمیت اور کیفیت موجود ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ آج لوگ اگر ’ریل‘‘ اور’’ `شارٹس‘‘ اچھی معلومات سننے کے لئے بھی چلاتے ہیں تو وہ’’ `اسکرول‘‘ کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ یہیں سے وہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اور وجہ سمجھ میں آجاتی ہے کہ لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ نیک اعمال کرنے کے باوجود دماغی اطمینان اور دلی سکون حاصل نہیں ہے اور روحانی کمزوری دور نہیں ہو رہی ہے! ظاہر کہ جب انسان نماز، ذکر و تسبیح اور دیگر نیک کاموں کے بعد فورا موبائل پکڑنے کا عادی ہوگا اور کچھ بھی دیکھنے اور سننے میں لگ جائے گا تو اس کی یہ حالت ہونی ہی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک انسان بالٹی میں پانی بھرنے کی کوشش کرے اور اس بالٹی میں نیچے سے سوراخ ہو۔ جس طرح یہ بالٹی کبھی نہیں بھر سکتی اسی طرح بداعمالی کے ساتھ نیک اعمال روحانیت کی کیفیت پیدا نہیں کرسکتے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ پیچیدگیوں سے نکلنے کے لئے ہمیں علمائے ربانیین کے بیان کردہ اس فلسفے کو سمجھنا ہوگا کہ روحانیت کی سب سے پہلی منزل اوصاف رذیلہ کا انسان کے دل سے نکلنا ہے اوردوسری منزل دل کا اوصاف حمیدہ کا خوگرہو نا ہے۔ اس راستے پر چلنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے اور پھر روحانیت کے حصول کے لئے نیک راستوں پر چل پڑنا چاہئے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں اسی امر کی طرف بلایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے: ’’ اور اے ایمان والو ! سب مل کر اللہ کے سامنے توبہ کرو ؛ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ ‘‘ (النور:۳۱)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK