یہ عام مشاہدہ ہے کہ اکثر طلاق کے بعد مطلّقہ عورت اور بچوں سے متعلق جن حضرات کی جو ذمہ داریاں ہیں، وہ ان کو پورا نہیں کرتے، اس کی وجہ سے بہت سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی کوتاہ عملی کی وجہ سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے کا موقع ملتا ہے۔ زیرنظر سطور میں مطلقہ اور بچوں کی کفالت کے شرعی پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
نفقہ کے معاملہ میں شریعت نے بیٹی کو بیٹے پر مقدم رکھا ہے۔ تصویر : آئی این این
بدقسمتی سے مطلقہ عورت کے نفقہ کے بارے میں بار بار عدالت کی طرف سے شریعت کے موقف کے خلاف فیصلے سامنے آتے ہیں، اور مسلم تنظیموں اور ذمہ دار شخصیتوں کی طرف سے اس کا جواب دیا جاتا ہے، یہ ضروری بلکہ ایک شرعی فریضہ بھی ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ صرف جواب دے دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے؛ بلکہ طلاق کے واقعات سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، اور خاص کر مطلقہ عورتیں جن دشواریوں سے گزرتی ہیں، ان کا حل کرنا بھی ضروری ہے۔ علماء اور ملت کی ذمہ دار شخصیتوں کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مثبت حل کی طرف مسلمانوں کی اور خاص کر مطلقہ عورت کے خاندان کو توجہ دلائیں۔ اگر ہم صرف فکری اور علمی طور پر معترضین کے سوالات کے جواب دیں تو اس سے زبانیں بند ہو سکتی ہیں ؛ لیکن مسائل حل نہیں ہوں گے اور جب مسائل حل نہیں ہوں گے تو دل ودماغ بھی مطمئن نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے:آخرت کی زندگی
اصل یہ ہے کہ نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جس کے ذریعہ شوہر و بیوی کو جہاں شریک حیات اور غمگسار میسر آتا ہے، وہیں عورت او ربچوں کو ایک سہارا حاصل ہوتا ہے، عورت ذہنی یکسوئی کے ساتھ بچوں کی پرورش کرتی ہے، بچے اطمینان و سکون کے ساتھ تعلیم و تربیت میں مشغول ہوتے ہیں، شوہر کسب ِمعاش کی تگ و دو میں اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے اور گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد رہتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو عورت سب سے زیادہ دشواریوں سے دوچار ہوتی ہے، اس کے لئے خود اپنی زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور بچے چوں کہ ماں کی ممتا کے بغیر زندگی کے ناہموار راستوں کا سفر طے نہیں کرسکتے؛ اس لئے جیسے ایک مرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپائے رکھتی ہے؛ اسی طرح ماں اپنی بے سہارگی کے باوجود بچوں کو اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتی ہے اور بچے بھی ماں کی گود میں جو سکون و راحت محسوس کرتے ہیں، سونے کی پلنگ بھی انہیں وہ راحت نہیں پہنچاسکتا؛ اسی لئے اگر رشتہ ٹوٹ جائے اور طلاق کی نوبت آجائے تو خاندان بکھر جاتا ہے اور ماں اور بچے بے سہارا ہوجاتے ہیں۔
ایسے مسائل کوحل کرنے کیلئے شریعت نے نفقہ و کفالت کا ایک پورا نظام رکھا ہے اور اس میں عورت اور چھوٹے بچوں کی خصوصی رعایت کی گئی ہے، افسوس کہ ہمارے سماج میں ایک تو طلاق کے بہت سے بے جا واقعات پیش آتے ہیں، اور اگر طلاق کا واقعہ پیش آہی گیا تو طلاق کے بعد مطلقہ عورت اور بچوں سے متعلق جن حضرات کی جو ذمہ داریاں ہیں، وہ ان کو ادا نہیں کرتے، اس کی وجہ سے بہت سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی کوتاہ عملی کی وجہ سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے کا موقع ملتا ہے۔
اگر کسی عورت کو طلاق دی جائے تو عدت کا نفقہ توواجب ہے ہی، (المحیط البرہانی : ۳؍ ۵۵۳) اور بہتر ہے کہ یکمشت کوئی رقم بھی دے دی جائے تاکہ مستقبل کی زندگی کیلئے کوئی سہارا بن سکے۔ اس کو ’’متاع ‘‘کہتے ہیں۔ قرآن مجید نے متاع دینے کی ترغیب دی ہے: وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرۃ:۲۴۱) اور متاع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، یہ طلاق دینے والے مرد کی استطاعت اور اس کے ظرف کے اعتبار سے ہے کہ جس عورت کے ساتھ وہ زندگی ۰یا، اس کا کچھ حصہ) گزار چکا ہے اور جس کو زندگی کی راہ میں اس نے تنہا چھوڑ کر بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے، وہ اس کے ساتھ جس قدر ممکن ہو، بہتر سلوک کرے تاکہ اس کی اس حرکت کی کچھ تلافی ہوسکے۔
لیکن عدت کے خرچ اور متاع کے علاوہ دیگر ذمہ داریاں بھی ہیں جو اکثر حالات میں طلاق دینے والے شخص پر عائد ہوتی ہیں اور وہ دو ہیں : ایک یہ کہ اگر اس کے بچے بھی ہیں تو وہ ان کا مناسب نفقہ ادا کرے، جس سے خوراک، علاج، پوشاک، تعلیم اور رہائش کی ضرورت پوری ہو اور وہ جس سماج میں رہتا ہے، اس سماج کے معیار کے مطابق پوری ہو۔ اگر اس نے دوسرا نکاح کیا اور دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والے بچے اس کے ساتھ ہیں اور مطلّقہ بیوی سے پیدا ہونے والے بچے اپنی ماں کے ساتھ ہیں تو جس معیار کے مطابق اپنے ساتھ رہنے والے بچے کی پرورش کرتا ہے، ضروری ہے کہ اسی معیار کے مطابق اپنی سابقہ بیوی سے ہونے والے بچے کی بھی پرورش کرے، اگر اس نے ان دونوں بچوں کے درمیان مساوات اور برابری کا معاملہ نہیں کیا تو وہ گنہگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی باز پرس ہوگی۔ اگر اپنی اولاد کے درمیان برابری کا برتاؤ نہیں کیا جائے یا ایک بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں اور دوسری بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں میں عدل اور برابری کا معاملہ نہ کرے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کوجور ( ظلم ) قرار دیا ہے۔ ( صحیح مسلم، کتاب الہبات، حدیث نمبر:۱۶۲۳)
صاحب اولاد مطلّقہ عورت کا دوسرا حق یہ ہے کہ جب تک وہ عورت ان بچوں کی پرورش کرتی رہے، اس وقت تک اس عورت کو پرورش اور نگہداشت کے عمل کی اُجرت دی جائے، جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ اُجرت حضانت‘‘ کہتے ہیں، (البنا یہ:۵؍۶۴۴) یہ اُجرت اتنی ہونی چاہئے کہ عورت کے کھانے پینے کی، لباس و پوشاک کی اور علاج و معالجہ کی ضرورت پوری ہوجائے، اور یہ بھی واجب ہوگا کہ اس کیلئے مناسب رہائش کا انتظام کرے۔ (ردالمحتار:۳؍۵۶۱) گویا جب تک عورت طلاق دینے والے سابق شوہر کے بچوں کی پرورش کررہی ہے، نفقہ کے بقدر اس کی اُجرت ادا کرنا واجب ہے اور حق پرورش لڑکوں کے سات آٹھ سال تک اور لڑکیوں کے بالغ ہونے تک ماں کو حاصل ہوتا ہے، یہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے پر ہے، (العنایۃ:۴؍۳۷۱)۔ امام مالکؒ کے نزدیک لڑکی اگر بالغ بھی ہوجائے تو جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے، ماں پرورش کی حقدار ہے۔ (البیان والتحصیل : ۵؍۱۲۰) اور موجودہ دور میں یہی رائے زیادہ قابل عمل ہے۔ جو ان لڑکی کو تنہا باپ کی پرورش میں دے دینا یا ایسی جگہ رکھ دینا جہاں اس کے قریب العمر سوتیلے بھائی بھی رہتے ہوں، فتنہ سے خالی نہیں ہے، ماں جس طرح بیٹی کی عفت و عصمت اورعزت و آبرو کی نگہداشت کرسکتی ہے نہ باپ کرسکتاہے اورنہ سوتیلی ماں سے اس کی اُمیدکی جاسکتی ہے، اس طرح طلاق پانے والی عورت کو پانچ دس سال کی ایسی مہلت مل جاتی ہے جس میں اس کو اپنے گزران کاسہارا ہوجاتا ہے اور یہ ایسی مدت ہوتی ہے جس میں وہ اپنی زندگی میں سنبھل سکتی ہے، زندگی کو ایڈجسٹ کرسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:نفقہ ٔمطلقہ کی بابت مضمرات ِشریعت و انصاف کو سمجھئے!
مطلّقہ عورت سے متعلق بڑی ذمہ داری اس کے باپ کی ہے۔ اگر طلاق دینے والامرد موجود نہ ہو، یا عورت کو ضروریات زندگی حاصل نہ ہوپارہی ہوں، خواہ اس لئے کہ کسی بچہ کی پرورش اس کے ذمہ نہیں ہے تاکہ وہ اُجرت ِ پرورش کی حقدار ہو، یا اس لئے کہ مرد کو دینا چاہئے لیکن اللہ سے بے خوفی اور اپنی ذمہ داری سے غفلت کی بناپر وہ اپنا فریضہ ادا نہیں کرتا تو ان تمام صورتوں میں باپ کی ذمہ داری ہے کہ بیٹی کا نفقہ ادا کرے، اس کے پیدا ہونے کے وقت جس طرح اس نے اس کا استقبال کیا تھا، اسی طرح خدا نخواستہ وہ بیوہ یا مطلقہ ہوکر واپس آتی ہے تو اس وقت بھی اس کا استقبال کرے اور اسے بوجھ نہ سمجھے؛ کیوں کہ وہ اسی کے دل کا ٹکڑا اور اسی کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
نفقہ کے معاملہ میں شریعت نے بیٹی کو بیٹے پر مقدم رکھا ہے، بیٹا اگر بالغ ہوجائے تو باپ پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی، (فتاویٰ قاضی خاں علی الہندیۃ:۱؍۲۱۹) اسی طرح اگر بیٹا کسب ِمعاش پر قادر ہے تو باپ اسے مجبور کرسکتا ہے کہ وہ خود محنت کرے اور اپنی روزی روٹی کے مسائل کو حل کرے؛ لیکن اگر لڑکی بالغ ہوجائے تو جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے، باپ پر اس کا نفقہ واجب ہے، (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰) اور اگر وہ کسب ِمعاش پر قادر ہو تب بھی باپ اسے اس پر مجبور نہیں کرسکتا۔ (فتح القدیر: ۴؍۴۱۰)
اسی طرح اگر بیٹی بیوہ ہوجائے یا اسے طلاق دے دی جائے اور اس کے پاس اتنی دولت نہ ہوکہ وہ خود اپنی ضروریات پوری کرسکے تو پھر والد پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری لوٹ آئے گی اور اس پر بیٹی کے اخراجات پورے کرنا ضروری ہوگا۔ (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰) نیز باپ کایہ نفقہ ادا کرنا بطور احسان کے نہیں ہے؛ بلکہ یہ اس کا شرعی فریضہ ہے؛ اس لئے اس کے دوسرے بیٹے اور بیٹیوں کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کو اپنی بہن پر خرچ کرنے سے روکیں۔
یہ بھی پڑھئے:کردار کی بلندی کامیابی کا بہترین راستہ ہے
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جیسے دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا باعث اجر وثواب ہے، اسی طرح اپنی اولاد پر خرچ کرنے میں بھی ثواب ہے۔ حضرت ابن مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے بال بچوں پر اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتا ہے تو اس میں بھی صدقہ کا ثواب ہوتا ہے: اذا أنفق المسلم نفقۃ علی أھلہ وھو یحتسبھا کانت لہ صدقۃ (صحیح البخاری، باب فصل النفقہ علی الأھل، حدیث نمبر: ۵۳۵۱) اور خاص کر بیوہ عورت کی خدمت و اعانت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، حضرت ابوہریرہؓ آپؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ بیوہ عورت کی خدمت کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح، یا اس شخص کی طرح ہے، جو رات بھر نماز پڑھتا ہو اور دن میں روزہ رکھتا ہو: کالمجاھد فی سبیل اﷲ أو کالقائم اللیل، الصائم النھار (صحیح البخاری، باب السعی علی الأرملہ، حدیث نمبر: ۶۰۰۶) ایک اور موقع پر آپؐ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا، جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ دینگے، اس میں آپؐ نے یتیم یا بیوہ کی کفالت کرنے والے کو بھی شمار کیا : من کلف یتیماً أو أرملۃ أظلہ اﷲ فی ظلہ وأدخلہ جنتہ (المعجم الاوسط : ۸؍۱۱۷، حدیث نمبر : ۹۲۹۲) نیز حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے اپنی وفات کے قریب بالکل آخر آخر میں تین باتوں کی نصیحت فرمائی: نماز کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، غلاموں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، دو کمزور لوگوں (بیوہ عورت اور یتیم بچہ) کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو۔ (شعب الایمان: ۱۳؍۴۰۴)
جو حکم بیوہ کا ہے وہی حکم بہ درجۂ اولیٰ اس مطلقہ عورت کا ہے، جس کا کوئی سہارا نہیں ؛ کیونکہ بیوہ کو لوگ رحم کا مستحق سمجھتے ہیں اور مطلقہ کے بارے میں عام طورپر یہ سوچ ہوتی ہے کہ اس کو اس کی بدزبانی و بد اخلاقی کی وجہ سے طلاق دی گئی ہوگی؛ اس لئے رحم کا جذبہ کم ہوتا ہے، اور اس کی مجبوری اور بڑھی ہوئی ہوتی ہے؛ حالانکہ طلاق کے اکثر واقعات میں مرد کی زیادتی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی؛ اس لئے وہ زیادہ رحم کی مستحق ہے، پس جو اجر کسی بیوہ کی پرورش میں ہے، مطلقہ کی پرورش میں بدرجہ اولیٰ ہوگا اور اگر وہ مطلقہ بیٹی یا بہن وغیرہ ہو تو اس میں اجر اوربھی بڑھ جائے گا؛ کیونکہ یہ ایک بے کس اور ضرورتمند کی مدد بھی ہے اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ بھی۔
اگر مطلقہ کے پاس خوداپنے نفقہ کا سامان نہ ہو اور والد بھی نہ ہوں تو پھر اس کے نفقہ کی ذمہ داری دوسرے محرم رشتہ داروں (مثلاً چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں غیرہ) سے متعلق ہوجاتی ہے۔ بہت بڑے حنفی فقیہ علامہ سرخسیؒ نے صراحت کی ہے کہ یہ جو مختلف رشتہ داروں پر نفقہ واجب ہوتاہے، یہ صرف مستحب یا مستحسن نہیں بلکہ واجب ہے؛ اسلئے محرم رشتہ دار بچوں ، عورتوں اور معذور مردوں کا نفقہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ (المبسوط للسرخسی : ۵؍۲۲۳)
لیکن اللہ سے بے خوفی، احکام شریعت سے بے اعتنائی، رشتوں کے معاملہ میں بےمروتی اور خود غرضی کی وجہ سے آج کل والدین اور دادا، دادی کے علاوہ دوسرے لوگوں سے یہ توقع رکھنا صحرا سے پانی کی اُمید رکھنے کے مترادف ہے کہ وہ احکامِ شریعت کے مطابق مطلقہ خواتین کا نفقہ ادا کریں گے؛ اسلئے والدین کی موجودگی میں بیٹی اگر خدانخواستہ طلاق یا بیوگی سے دوچار ہوجائے تو اولاً تو اس کے نکاحِ ثانی کی فکر کرنی چاہئے، قرآن نے ایسے لوگوں کے نکاح کا حکم دیا ہے: (سورۂ نور:۳۲) رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے عہد میں جوں ہی کوئی خاتون بیوہ یا مطلقہ ہوتی تھی، جلد سے جلد اس کا نکاح کردیا جاتا تھا۔ عدت گزرنے سے پہلے ہی ان کے رشتے آنے لگتے تھے؛ اسلئے قرآن مجیدنے عدتِ وفات گزرنے سے پہلے رشتہ طے کرنے کومنع فرمایا۔ (سورۂ بقرہ:۲۳۲) اس طرح نہ صرف ان کی کفالت ہوتی تھی؛ بلکہ ان کو ایک مکمل خاندان مل جاتا تھا۔
افسوس کہ آج کل والدین ایسی خواتین کے نکاح کی طرف توجہ نہیں دیتے، بعض اوقات ایک نوجوان لڑکی بیوہ ہوتی ہے اوراسے پوری زندگی بیوگی میں گزارنا پڑتا ہے، وہ خودحیا کے مارے کہہ نہیں پاتی اور ماں باپ توجہ نہیں دیتے۔ غور کیجئے یہ خواتین کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے۔ اگر کوئی شوہر یا بیوی چند دنوں ایک دوسرے سے دُور رہیں تو یہ چیز ان کو ذہنی طورپر بے سکون کردیتی ہے، توایک لڑکی کو زندگی بھر تجرد کی سزا دی جائے، کیا یہ انصاف کی بات ہے؛ اس لئے ان کے نکاح کی فکرکرنی چاہئے، اور اگر وہ خود حیا کریں تو ان کو سمجھانا چاہئے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے ان کا نکاح نہ ہوسکے تو کم سے کم اتنا تو ہو کہ ان کی کفالت کا مناسب انتظام کیا جائے۔ اس انتظام کی ایک شکل یہ ہے کہ والدین اپنی جائیداد کا ایک حصہ ایسی بے سہارا بیٹی کو ہبہ کر دیں، جس سے آئندہ اس کی گزر اوقات کا انتظام ہوسکے۔
رسولؐ اللہ نے عام حالات میں اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ اولاد کے درمیان نابرابری برتی جائے، اولاد میں سے کسی ایک کو کوئی چیز دی جائے اور دوسرے کو نہیں دی جائے۔ حضور ؐ کے سامنے اس طرح کا ایک معاملہ آیا، حضرت بشیربن سعد ؓنے اپنے صاحبزادہ نعمان ابن بشیرؓ کو کوئی خاص چیز خصوصی طورپر ہبہ کرنی چاہی اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر رسولؐ اللہ کوگواہ بنایا جائے؛ چنانچہ وہ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے، اور اپنی گزارش پیش کی۔ آپؐ نے دریافت فرمایا : کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو یہ چیز دی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں ، آپؐ نے فرمایا: پھر میں ایسے نامنصفانہ اور ظالمانہ عمل پر گواہ نہیں بن سکتا۔ (نسائی، کتاب النحل، حدیث نمبر:۳۷۱۱) چنانچہ وہ (حضرت نعمانؓ) اس سے باز آگئے؛ لیکن یہ حکم عام حالات کیلئے ہے۔
اگر خصوصی حالات کی بنیاد پر کسی کو زیادہ دے دیا جائے، یا اولاد میں سے ایک کو دیا جائے اوردوسرے کو نہ دیا جائے تو وہ اس ممانعت میں شامل نہیں ہے، مثلاً ایک شخص کے کئی بچے ہیں، بعضوں نے تعلیم حاصل نہیں کی، بعض کاروبار میں لگ گئے ؛ لیکن ایک بیٹا تعلیم کی طرف متوجہ ہے اور اس نے میڈیکل انٹرنس پاس کرلیا ہے تو اب باپ ایک خطیر رقم اس کی فیس پر ادا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛ کیوں کہ یہ ایک خاص مصلحت کی وجہ سے ہے، اگر ایسا نہ ہو تو ایک بچہ کے جاہل رہنے کی وجہ سے یا اس کی تعلیم کے وقت والد کے تنگ دست ہونے کی وجہ سے تمام ہی بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنا پڑیگا جو مزاج ِ شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے:فتاوے: مشترکہ ھبہ، ایصال ثواب، وضو خانے کی ٹنکی میں گلہری کا گرنا
اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگرچہ تمام اولاد کے درمیان مساویانہ سلوک کرنا چاہئے، اوریہی بہتر ہے لیکن یہ ہر حال میں واجب نہیں ہے۔ اگر اولاد میں سے کسی کی مجبوری یا اس کی کسی خاص ضرورت کی وجہ سے اس کو خصوصی طورپر کچھ زیادہ دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مجمع الانہر : ۲؍۳۵۸۱) صحابہ کے دور میں بھی ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو عطیہ دینے میں ترجیح دی۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو کھجور کی پیداوار میں سے بیس وسق ( اس زمانہ کا ایک پیمانہ) اپنے تمام بچوں کے مقابلہ زیادہ دیا کرتے تھے، حضرت عمرؓکو اپنے صاحبزادہ حضرت عاصمؓ سے خصوصی اُنس تھا؛ چنانچہ انہوں نے ان کو خصوصی طورپر کچھ چیزیں عطا فرمائی تھیں، (شرح السنہ للبغوی : ۸؍۲۹۷) حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے اپنی ایک صاحبزادی کو اپنی دوسری اولاد کے مقابلہ چار ہزار درہم زیادہ عنایت فرمائے تھے۔ (عمدۃ القاری: ۱؍۱۴۷) غرض کہ ماں باپ کیلئے گنجائش ہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کی خصوصی حالت اورضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کو جائیداد کا کوئی حصہ اضافی طورپر ہبہ کردیں اسلئے اگر والدین کے اندر استطاعت ہو اور خدا نخواستہ کوئی بیٹی ایسی حالت سے دوچارہو اور اس کے اندر ایسی صلاحیت نہ ہو کہ وہ خود کسب ِمعاش کرسکے توبہترہے کہ اس کیلئے کچھ سرمایہ محفوظ یا زمین ومکان کا کوئی حصہ ہبہ کردیں ، جو اس کیلئے سہارا بن سکے۔
اگر والد موجود نہ ہوں یا اس موقف میں نہ ہوں کہ اس کی کفالت کرسکیں تو پھر خاندان کے لوگوں کو اجتماعی طورپر اس ذمہ داری کو انجام دینا چاہئے، جیسے اگر مطلقہ عورت کے چار بھائی ہیں تو چاروں مل کر اس کے خرچ کو اپنے اوپر تقسیم کرلیں، اگر اس کے کئی چچا یا کئی ماموں ہوں تو ان سب کو مل کر اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے، ورنہ عند اللہ سب کے سب جوابدہ ہونگے اور حق تلفی ایسا گناہ ہے کہ انسان کی عبادتیں بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ مسلم سماج میں خاندان کا ایک اجتماعی نظام تکافل ہو، جیسے ایک شخص کے تحت آنے والی دو پشتیں ، بیٹا، باپ اور دادا مل کر ایسا نظام بنائیں کہ اگر خاندان کی کوئی عورت بیوہ ہوجائے یا طلاق کی نوبت آجائے یا اس کا شوہر معذور و مفلوج ہو اور اس کیلئے کوئی سہارا نہ ہو، تو ہم اجتماعی طور پر ایسی خواتین کی کفالت کرینگے۔ اگر خاندان کی دو پشتوں کو سامنے رکھا جائے، جو دادا سے لے کر پوتوں تک ہو تو عام طورپر اس کی تعداد پچیس تیس تک پہنچ جاتی ہے، اس میں دس پندرہ افراد کمانے والے ہوتے ہیں اور ان کمانے والوں میں بعض پر زکوٰۃ بھی واجب ہوتی ہے اورخاندان کے اس مختصر ڈھانچہ میں بمشکل ایک آدھ ایسی مطلقہ یا بیوہ عورت ہوسکتی ہے جس کی اولاد کمانے اور اس کی کفالت کرنے کے لائق نہیں ہوئی ہو، اتنے سارے افراد مل کر بآسانی ایسی ایک آدھ بیوہ و مطلقہ عورت کی بے سہارگی کو دُور کرسکتے ہیں ۔ یہ رسولؐ اللہ کی سنت بھی ہے۔ حضورؐ کے چچاؤں میں حضرت ابو طالب غریب تھے، دوسرے چچا حضرتعباسؓ صاحب ثروت تھے اور حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد خود آپؐ کی مالی حالت بہتر ہوگئی تھی، آپؐ نے اس موقع پر حضرت عباسؓ کو تیار کیا اور حضرت ابوطالب سے پیشکش کی کہ ہم دونوں آپ کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتے ہیں، حضرت ابوطالب حضرت عقیلؓ کو تو اپنے پاس سے ہٹانے پر آمادہ نہ ہوئے لیکن حضرت علیؓ کو آپ کی اور حضرت جعفرؓکو حضرت عباسؓ کی کفالت میں دے دیا، پس اپنے اعزہ کی کفالت کرنا اور ان کا سہارا بننا رسولؐ اللہ کی سنت ہے۔
افسوس کہ اُمت میں ترجیحات کا شعور ختم ہوگیا ہے، بعض حضرات بار بار عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں، حج نفل ادا کرتے ہیں، مسجد کی تزئین و آرائش پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، چھوٹی سی آبادی جہاں سو پچاس مصلی بھی جمع نہیں ہوتے، وہاں لق و دق مسجد تعمیر کرتے ہیں، پہلے سے اچھی خاصی موجود مسجد کو منہدم کرکے پرشکوہ مسجد بناتے ہیں ؛ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کی قبولیت بڑھ جائے؛ لیکن صلہ رحمی کا جو فریضہ شریعت کی طرف سے عائد کیا گیا ہے، اس سے غافل ہیں، ایک بے سہارا عورت کی سسکی ان کے گوشِ دل تک نہیں پہنچ پاتی اور باپ کی شفقت و محبت سے محروم بچوں کے آنسو انھیں تڑپانے سے عاجز ہیں۔ ہماری یہ بے شعوری نہ صرف سماج میں نا انصافی اور ظلم کو بڑھاوا دیتی ہے؛ بلکہ اس سے اخلاقی مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے اور انگلیاں اُٹھانے کا موقع ملتا ہے، کاش ! ہم سماج کے اس فراموش کردہ طبقہ پر بھی محبت کی نگاہ ڈالیں اور ایمانی تقاضوں کو پورا کریں۔