• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کامیابی کی چار منزلیں: ایمان، عمل صالح، توحید حق اور صبر

Updated: June 28, 2024, 3:14 PM IST | Abul Kalam Azad | Mumbai

کامیابی کا مقصد ِاعلیٰ بغیرکسی شرط و قید کے حاصل ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے اہم مقصد کے لئے کچھ کرنا نہ ہو گا؟ پس قرآن کہتا ہے، قومی و اجتماعی مقاصد علیا کے لئے بھی شرائط و قیود ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 تمہارے سامنے کوئی مقصد ہے جس کو تم حاصل کرنا چاہتے ہو اور اس کے حصول کے لئے بے قرار ہو۔ اس کی محرومی سے تم تلخ کام ہو۔ تمہارا ایک مطلب ہے جس کے حاصل کرنے کی تم جستجوکر رہے ہو۔ کوئی مراد ہے جس کے تم متلاشی ہو۔ کوئی مقصود ہے جس کی طلب سے تم تشنہ کام ہو۔ اس کی طلب و تلاش میں تم سرگرداں ہو۔ وہ اگر حاصل ہو جائے تو تم کامیاب و کامران ہو۔ اس کا حصول تمہاری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ وہ ثمرہ ہے جس کا پا لینا تمہاری فلاح و کامیابی ہے۔ اس کی طلب و تلاش میں تم سرگرداں ہو۔ اس کا ملنا تمہارے دل کی تمنا و آرزو ہے۔ اسی کے ملنے میں تمہاری سرخروئی وسرفرازی ہے۔ وہی تمہارا منتہائے عروج ہے۔ فرض کرو اگر وہ نہ حاصل ہو تو تم خائب وخاسرہو اور اس کے عدم حصول پر تم ماتم کناں و گریہ کناں ہو۔ اس کا نہ ملنا ہی تمہاری ناکامی ہے۔ اس کونہ پانے سے تم ذلت و انحطاط کے گڑھے میں پہنچ جاتے ہو۔ یہی تمہاری رسوائی و اہانت ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ تمہاری کوئی بے عزتی ہوسکتی ہے اور نہ نامرادی وخسران۔ 
تو کیا ایسامقصد ِاعلیٰ بغیرکسی شرط و قید کے حاصل ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے اہم مقصد کے لئے کچھ کرنا نہ ہو گا؟ پس قرآن کہتا ہے، قومی و اجتماعی مقاصد علیا کے لئے بھی شرائط و قیود ہیں۔ جب تک وہ شرائط نہ پوری کی جائیں، جماعتیں محروم و نامراد رہتی ہیں  اور یہی ان کاخسران و محرومی ہے اور یہی ان کی رسوائی و ذلت ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: شریعت کے معیار پر رشتہ تلاش کریں

’’گردش زمانہ شاہد ہے کہ ہر جماعت خسارہ میں گھری ہوئی ہے مگر وہی جو یہ چار کام انجام دیں۔ ایمان لائیں  اور عمل صالح کریں، حق و صداقت کا اعلان کرتے رہیں  اور صبر کی تلقین کریں۔ ‘‘ (سورہ العصر)
زمانہ اس لئے شاہد ہے کہ اس آسمان کے نیچے قوموں  اور جماعتوں کی بربادی و کامیابی اور ارتقاء انحطاط کی کہانی جتنی پرانی ہے اتنا ہی پرانا زمانہ بھی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی اس انقلاب اقوام کا ہم عصرہوسکتا ہے تو وہ صرف زمانہ ہے۔ پھر قوموں کی تباہی و بربادی اور کامیابی و فلاح جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ زمانہ کی گود میں ہوا۔ پس انقلابِ امم پر اگر کوئی چیز گواہ ہوسکتی ہے یا تھی تو وہ صرف گردش ایام ہی تھے۔ اس لئے قرآن نے زمانہ کواس پر شاہد اور گواہ بنایا کہ زمانہ اور اس کی گردش و رفتاراس بات پر شاہد ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان اصولِ چہار گانہ کونہ اپنا لے۔  پس قرآن اعلان کرتا ہے کہ اس آسمان کے نیچے نوع انسان کے لئے، انسانوں کی تلاشوں  اور جستجوؤں کے لئے اور امیدوں و تمناؤں کے لئے بڑی بڑی ناکامیاں ہیں، گھاٹے اور ٹوٹے ہیں، خسران اور نامرادی ہے، محرومی اور بے مرادی ہے۔ لیکن دنیا کی اس عام نامرادی سے کون انسان ہے، کون جماعت ہے جو کہ بچ سکتی ہے اور ناکامی کی جگہ کامیابی اور نا امیدی کی جگہ امیداس کے دل میں اپنا آشیانہ بنا سکتی ہے؟ وہ انسان یا وہ لوگ جو کہ دنیا میں ان چار شرطوں کو قولاً و عملاً اپنے اندر پیدا کر لیں۔ 
 پہلی شرط وہ ہے جس کا نام قرآن کی بولی میں ایمان ہے۔ الا الذین اٰمنوْا۔ تم جبھی کامیابی پا سکتے ہو جب تمہارے دلوں کے اندر اور روح و فکر میں وہ چیز پیدا ہو جائے جس کا نام قرآن کی زبان میں ایمان ہے۔ ایمان کے معنی عربی زبان میں زوال شک کے ہیں یعنی کامل درجہ کابھروسہ اور کامل درجہ کا اقرار تمہارے دل میں پیدا ہو جائے۔ جب تک کامل درجہ کا یقین تمہارے دلوں کے اندر پیدا نہ ہو اور اللہ کی صداقت و سچائی اور اللہ کے قوانین و اصولوں پر کامل یقین تمہارے قلوب میں موجزن نہ ہو جائے تب تک کامیابی کا کوئی دروازہ تمہارے لئے نہیں کھل سکتا۔ شک کا اگر ایک کانٹا بھی تمہارے دل کے اندر چبھ رہا ہے تو تم کو اپنے اوپر موت کا فیصلہ صادر کرنا چاہئے۔ تم کو کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ تمہارے قلوب میں ایمان ہو، اطمینان ہو، یقین ہو، جماؤ ہو اور تمکن و اقرار پیدا ہو۔ دل کا یہ کام، دماغ کا یہ فعل،  تصور کا یہ نقشہ کامیابی کی پہلی منزل ہے۔ اگراسی میں تمہارا قدم ڈگمگا رہا ہے تو کامیابی کی بو بھی تم نہیں سونگھ سکتے۔ کیا تم شک کا روگ اپنے پہلو میں لے کر دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی پا سکتے ہو؟کیا تم دنیا میں ایک مٹھی بھرجو َ اور چاول پا سکتے ہو جب تک تمہارے لئے دلوں میں اس کے لئے یقین و اعتماد اور بھروسہ و اطمینان نہ ہو؟ دنیا میں کوئی مقصد بغیر اعتماد اور بھروسہ کے حاصل ہوسکتا ہے؟ کیا چیونٹی سے لے کر ہاتھی کے کوہ پیکر وجود تک کوئی طاقت اپنا مقصد اور اس کے لئے جدوجہد کی سرگرمی بغیر عزم و ارادہ کے دکھا سکتی ہے؟ کیا عزم و ارادہ بغیر یقین و اطمینان کے پیدا ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو قرآن تم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اندر یقین و اعتماد پیدا کرو تا کہ تمہارے لئے عزم و ارادہ پیدا ہو اور پھر تم سرگرم عمل ہو کر جد و جہد کرو۔ لیکن کیا حصول مقصد کے لئے دل کا یہ یقین اور دماغ کا یہ فعل کافی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے اور کچھ نہیں چاہئے؟ کیا اسی سے کامیابی حاصل ہو جائے گی؟ فرمایا نہیں۔ بلکہ ایک دوسری منزل اس کے بعد آتی ہے جب تک وہ دوسری منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے نہ کر لو گے تو صرف پہلی منزل کو طے کر کے کامیابی نہیں پا سکتے۔ 
  اس کا نام قرآن کی زبان میں عمل صالح ہے۔ وَعَمِلُواالصَّالِحَات یعنی وہ کام جو اچھائی کے ساتھ کیا جائے۔ جس کام کو جس صحت اور جس طریقے کے ساتھ کرنا چاہئے اور جو طریقہ اس کے لئے سچاطریقہ ہوسکتا ہے، اس کام کواسی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اس سے سادہ تر الفاظ میں یہ کہ جو طریقہ اس کام کے انجام دینے کا صحیح طریقہ ہوسکتا ہے، اسے اسی طریقہ کے ساتھ انجام دیا جائے۔ قرآن کا یہ اصول تو عام ہے کیوں کہ ایمان کے معنی ہیں وہ کامل یقین و کامل اطمینان اور اقرار جو عمل سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔ 
فتح مندی اور کامیابی کی دو منزلیں تم نے طے کر لیں۔ مگر پھر کیا تمہارا کام ختم ہو گیا؟ اس کے بعد کیا تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے؟ قرآن کی عالمگیر صداقت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ ان دو منزلوں کے بعد دو منزلیں  اور باقی ہیں۔ اپنی ہمت تو آزما لو کہ ان کے لئے تمہارے تلوے تیار ہیں یا نہیں۔ تمہاری کمر ہمت مضبوط ہے کہ نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ دو منزلیں تمہارے لئے سودمندنہ ہوں جو صرف ایک زنجیر کی کڑی کے ظاہر و باطن کی درستگی ہے۔ لیکن کیا ایک کڑی کے درست ہو جانے سے پوری زنجیر کا کام پورا ہو جایا کرتا ہے۔ اگر نہیں تو تم اپنی جگہ ایک کڑی ہو۔ تمہارا وجود قومی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ پس زنجیر کا کام ابھی باقی ہے اور تم گویا ہوا میں بکھری ہوئی شکل میں بے کار ہو۔ اس میں تمہارا کوئی وجود نہیں کیوں کہ قرآن وجود مانتا ہے اجتماع کا نہ کہ کڑیوں کا۔ اس کے نزدیک وجود کڑیوں کا نہیں ہے بلکہ زنجیر کا ہے۔ تم میں  ہر وجود ایک کڑی ہے، اس کا کام پورا نہیں ہوسکتا جب تک وہ باقی کڑیوں کی خبر نہ لے۔ جب تک باقی کڑیاں مضبوط نہ ہوں گی زنجیر مضبوط نہیں ہوسکتی۔ اس لئے فرمایا کامیابی کاسفراس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک تیسری منزل تمہارے سامنے نہ آئے۔ 
وہ تیسری منزل ہے توحید حق کی۔ وتواصوابالحق۔ یعنی ان منزلوں سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعدتیسری منزل کو بھی کامیابی سے طے کرو یعنی دنیا میں خدا کی سچائی کا پیغام پہنچاؤ۔ جب تک تم میں یہ بات نہ ہو کہ تمہارا دل سچائی کے اعلان کے لئے تڑپنے لگے، تب تک تم کو کامیابی نہیں مل سکتی۔ ا ب اگرتیسری منزل کے لئے تیار ہو گئے، اگر توفیق الٰہی نے تمہاری دستگیری کی ہے اور تم نے یہ منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے کر لی ہے تو کیا پھر مقصود حاصل ہو جائے گا اور کچھ نہ کرنا پڑے گا؟
قرآن کریم کہتا ہے، نہیں۔ بلکہ ایک اور آخری منزل بھی ہے جو کہ اعلان صبر کی منزل ہے۔ واتواصو بالصبر۔ اعلان صبر کی منزل اعلان حق کی منزل کے ساتھ لازم و ملزوم کا رشتہ رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی گردن اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ جدا نہیں کی جا سکتی۔ فرمایا کہ حق کا وہ اعلان کریں گے۔ حق کا پیغام پہنچائیں گے۔ حق کا پیغام سنائیں گے۔ حق کی دعوت دیں گے۔ لیکن حق کا یہ حال ہے کہ حق کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا، جب تک قربانیوں کے لئے نہ اٹھے۔ حق کا پیغام پہنچانا بغیر قربانی و ایثار کے ایساہی ہے جیسا آگ کو ہاتھ میں پکڑ لینا، بغیراس کی گرمی کے۔ جیسے یہ ناممکن ہے، ویسے ہی وہ بھی محال ہے اس لئے چوتھی منزل صبر کی ہے۔ جب تک یہ منزل بھی طے نہ کی جائے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK