• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اچھا کام اور اچھی صفت دونوں ضروری ہیں

Updated: July 12, 2024, 1:18 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور پھر ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نواز کر دنیا کو رہنے کے واسطے ایک خوبصورت جگہ بنایا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور پھر ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نواز کر دنیا کو رہنے کے واسطے ایک خوبصورت جگہ بنایا ہے۔ اس بات کو تمام باشعور افراد تسلیم کرتے ہیں کہ الگ الگ انسانوں میں الگ الگ خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں جو انسانی نظام حیات کو استحکام بخشتی ہیں اور یہ رب العزت کی حکمت کاملہ کی ایک بڑی نشانی ہے۔ عموماً انسان دو خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے۔ ان دونوں خوبیوں کو ہم اچھے کام اور اچھی صفات سے جانتے ہیں۔ ان دونوں خوبیوں سے انسان اپنے آپ کو بقدر محنت و جستجو متصف کرپاتا ہے۔ 
 اس تمہید کے حوالے سے جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ شریعت مطہرہ نے دونوں خوبیوں یعنی اچھے کام اور اچھی صفات کے حصول کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ہے اور دونوں میں درجہ کمال تک پہنچنے کی تلقین کی ہے۔ اس کی بہترین مثال سورہ جمعہ کی وہ آیتیں ہیں جن میں اچھے نمازی بننے کی صفت سے متصف ہونے کی دعوت اور اچھے کام یعنی رزق حلال کے لئے تگ و دو کی بھی تلقین کی گئی ہے: ’’اے مسلمانو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذاں دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ پھر جب نماز پوری ہوجائے تو اللہ کی زمین میں پھیل جاؤ، اللہ کی روزی تلاش کرو اور اس کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ‘‘ (سورہ جمعہ: ۹۔ ۱۰) 

یہ بھی پڑھئے: امام حسین ؓ کی شہادت اور پیغام ِحسینیت

یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ مذکورہ قرآنی آیتوں کے بر خلاف اچھے کاموں اور اچھی صفات کو بالکل الگ الگ خانوں میں رکھ دیتے ہیں ؛ چنانچہ موجودہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے کام میں بہتری لانے کی دن رات کوشش کرتے ہیں اور ترقی کی منازل طے کرتے رہتے ہیں لیکن اس درمیان اخلاقیات جیسی اچھی صفات کو وہ پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنے کام کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ افراد ایسے بھی ہیں کہ وہ صرف صفات کے اعتبار سے ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے کاموں میں کم یا بالکل ہی دھیان نہیں دیتے۔ یہ طرز عمل بھی شریعت کی روح کے منافی ہے۔ مذکورہ آیت سے بھی یہ پہلو واضح ہے۔ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسانی سوچ میں افراط و تفریط کی یہ کیفیت کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟
  اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ سوچ میں یہ تفاوت مذہبی تعلیمات سے دوری اور بیزاری کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ اگر مذہبی تعلیمات سے واقفیت ہوتی اور اس پر عمل کا جذبہ ہوتا تو انسان اعمال اور صفات دونوں اعتبار سے ایک معتدل اورمتوازن زندگی گزارتا۔ 
 مضمون کی مناسبت سے یہاں ایک اہم پہلو کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی انسان نے کسی بھی میدان میں اپنے کام کو درجہ کمال تک پہنچایا ہے تو اس کی یہ ذمے داری ہے کہ اس کے فائدے کو اپنے آپ تک محدود نہ رکھے بلکہ جس قدر عام کرسکتا ہو، عام کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح اگرکوئی کسی اچھی صفت کا مالک ہے تو اس صفت سے دوسروں کو فائدہ پہنچا نا اس کی تر جیح ہونی چاہئے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ انسان اپنے آپ تک محدود نہ رہے بلکہ وہ منبع فیض بنا رہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: ’’ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ ‘‘ (ابن ماجہ) 
 یاد رکھئے! ہمارے کاموں اور ہماری صفات سے لوگ اسی وقت مستفید ہوں گے جب کہ ہم ان دونوں میدانوں میں اپنے آپ کو متواضع بنائیں گے؛ کیونکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی بیماری اور غرور و تکبر ہماری خوبیوں کی افادیت کو عام کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اچھے کام انجام دینے کے ساتھ اپنے آپ کو اچھی صفات سے بھی آراستہ کریں تاکہ ایک متوازن زندگی گزار سکیں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ بننا آسان ہوجائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK