• Wed, 04 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نوجوانوں میں شدت پسندی کا بڑھتا رجحان

Updated: November 29, 2024, 4:42 PM IST | Dr. Zafar Dark Qasmi | Mumbai

اگر نوجوانوں کی تربیت و اصلاح، صالح اور متوازن نظریاتی و فکری خطوط پر نہ کی جائے تو ان کے جملہ اوصاف منفی رجحان اور تخریب کاری میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جن کو اپنی خوبیوں اور اچھائیوں سے قوم و ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں مثبت رول ادا کرنا تھا وہ پھر اسی سماج اور معاشرہ کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔

The youth becoming violent and out of control is harmful to themselves and society. Photo: INN
نوجوانوں کا پرتشدد ہوجانا اور بات بات پر آپے سے باہر ہونا خودان کے لئے بھی اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ تصویر : آئی این این

تاریخ شاہد ہے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب نوجوان اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو تعمیری اور مثبت طور پر استعمال کریں ، مزاج میں اعتدال اور توازن ہو ، فکر میں بالیدگی اور شعور و آگہی پائی جائے اور اچھے اور برے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہو۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوجوان اگر صحیح معنوں میں سیاسی ، سماجی اور مذہبی طور پر بیدار رہیں اور اپنی فکری و نظریاتی قوتوں کا درست استعمال کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو یقینا معاشرے میں امن و سکون اور ہم آہنگی کی خوشگوار فضا ہموار ہو جائے گی۔ ایسے ہی نوجوان کے اندر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے اور یہ سماج کے دیگر بچوں اور نوجوانوں کے لئے آئیڈیل ہو جاتے ہیں۔ 
اس کے برعکس ، اگر نوجوانوں کی تربیت و اصلاح ، صالح اور متوازن نظریاتی و فکری خطوط پر نہ کی جائے تو ان کے جملہ اوصاف منفی اور تخریب کاری میں تبدیل ہو جاتے ہیں ، جن کو اپنی خوبیوں اور اچھائیوں سے قوم و ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں مثبت رول ادا کرنا تھا۔ وہ پھر اسی سماج کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں ۔ نظریاتی اور فکری طور پر بھی ایسے نوجوان اپنے اندر توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اوراپنے رویوں اور کردار نیز کارناموں میں تعصب و تنگ نظری اور جانبداری کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں ، یا یہ کہیں کہ ان کے اندر شدت و سختی کا رجحان غالب ہونے لگتا ہے۔ 
 عہد حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے نوجوانوں میں شدت پسندی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان میں ، خواہ ان کا کوئی بھی مذہب و دھرم ہو ، مذہب و ملت اور رنگ و نسل کے نام پر تشدد کا فروغ پانا نہ ان کے لئے اور نہ اس سماج کےلئے ٹھیک ہے جہاں وہ رہ رہے ہیں۔ مذہب کوئی بھی ہو اس کی اپنی تعلیمات یہی ہوتی ہیں کہ معاشرہ پر امن رہے ، نفرت و عداوت معاشرے میں رائج نہ ہو ، تمام اقوام و ملل کے لوگ مل جل کر امن و آشتی سے رہیں ۔ اس لئے جن نوجوانوں میں تشدد و تنگ نظری کا رجحان بڑھ رہا ہے ان کو مذہب سے جوڑ کر قطعی نہیں دیکھنا چاہئے ، یہ الگ بات کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ مذہب کے نام پر ہی کیا جارہا ہے۔ 
موجودہ وقت میں نوجوانوں میں جس طرح سے تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے اس کا سبب یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں ان نوجوانوں پر کوئی ظلم ہوا ہے ، یا ان کی تاریخ و تہذیب اور ثقافت و تمدن سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ تاریخ اور حق کا ہر متلاشی بخوبی جانتا ہے کہ ہندوستان میں تکثیری سماج اور اس کے معاشرتی خدو خال ہر دور اور ہر زمانے میں پوری طرح سے محفوظ و مامون رہے ہیں۔ ملک میں اقتدار و تسلط خواہ کسی بھی کمیونٹی یا دھرم کے ماننے والوں کا رہا ہو لیکن اگر کوئی طبقہ یا جماعت سیاسی مفادات کی خاطر تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرے اور اس میں معاشرے کے نوجوانوں کو ایک خاص فرقہ و برادری کے خلاف ورغلانے کی سعی کرے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:سیر و تفریح محض ’تازگی‘ کیلئے نہ ہو بلکہ اس کے ذریعےعلمی و روحانی ارتقاء کا فروغ مطلوب و مقصود ہو!

آج کل تشدد کی جو لہر ملک کے نوجوانوں میں دکھائی دے رہی ہے ، اسے وہ مذہب کے نام پر انجام دے رہے ہیں جب کہ تشدد کا کوئی بھی پہلو ہو ، اسے نہ مذہب کی خدمت گردانا جاسکتا ہے اور نہ اس مکروہ رویے کی اجازت کسی مذہب میں ملتی ہے۔ یاد رکھئے! نفرت و تعصب یا تشدد کسی بھی کمیونٹی میں پایا جائے اس کے نتائج معاشرے پر ہمیشہ متنفرانہ اور مایوس کن ہی مرتب ہوتے ہیں ۔ تصور کیجئے! جن نوجوانوں کو اپنے مثبت اور تعمیری کارناموں کے توسل سے نہ صرف اپنے والدین ، گھر ، خاندان اور ملک و قوم کا نام روشن کرنا تھا آخر ان کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ ان لوگوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں جن کے اپنے سیاسی مفادات ہوں ؟ سیاسی جماعتوں اور ایسی تنظیموں کے مقاصد کو نہایت سنجیدگی اور پوری حساسیت کے ساتھ ان نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا تبھی وہ اپنے مستقبل کی حفاظت کرسکیں گے۔ 
 اسلام کی تعلیمات اور اس کا آئینی و دستوری نظام ایک ایسے سماج کی تشکیل کرتاہے جس میں تمام کمیونٹی اور رنگ و نسل کے لوگ اعتقاد و ضمیر کی آزادی اور فکر و عقیدہ کی حریت کے ساتھ رہیں۔ اسلام کسی بھی کمیونٹی کے افراد کے ساتھ تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ امن و سکون اور اطمینان و اخوت اسلام کی تعلیمات کا بنیادی حصہ ہیں ۔ یہ دیگر ادیان و مذاہب اور ان کی مقدس کتب و شخصیات کے احترام کا بھی قائل ہے اور اس کی تعلیمات اعتدال و توازن کی شانداعلامت ہیں۔ وہ ہر اس نظریہ ، فکر اور رویوں کی سختی سے مخالفت و ممانعت کرتاہے جو معاشرے میں بد امنی ، عدم توازن اور تشدد کے حامی ہیں ، یا ایسے کرداروں کی جو ان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کا سماج ان تعلیمات اور روایتوں کو اپنے لئے نمونہ عمل بنائے جن سے معاشرے میں امن و خوشحالی آئے۔ 
آج ملک کے نوجوان جس تیزی سے فکری ، عملی اور نظریاتی طورپر تشدد میں مبتلا نظر آرہے ہیں ان کا یہ کردار ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے اس لئے نوجوانوں کو تشدد کا شکار ہونے سے بچانا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جو نوجوان بے روزگار ہیں انہیں روزگار فراہم کیا جائے کیونکہ بے روزگاری بھی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آرہی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے نوجوان مایوسی کا شکار ہوکر غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کے سامنے مذہب کی غلط تعبیر و تشریح پیش کی جا رہی ہے اور انہیں مذہب کا وہ تصور بتایا جارہا ہے جو مخصوص فکر سے وابستہ افراد کا وضع کردہ ہے۔ 
 ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو متشدد ہونے سے بچانے کے لئے ان کو تعلیم و تربیت سے وابستہ کیا جائے، ان کے سامنے مذہب کی حقیقی تصویر پیش کی جائے اور انہیں ایسے لٹریچر و ادب کا شائق بنایا جائے جو صداقت و معقولیت اور امانت و دیانت کا سچا علمبردار ہو۔ جب مکمل طور پر شفاف اور متوازن ماحول ملک کے نوجوانوں کو ملے گا اور اس طرح کے پاکیزہ ماحول میں فکری و نظریاتی پرورش ہوگی تو یقیناً نوجوانوں کی زندگی میں شدت اور تشدد کا شائبہ تک نہیں پایا جائے گا۔ ان کے نظام الاوقات مربوط ہو جائینگے۔ ان میں تعمیری ذہنیت پروان چڑھے گی اور پھر وہی امور سرزد ہوں گے جن کی توقع ہر مہذب معاشرے کو ہوتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK