۹؍تا۱۱؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو بہار کے قدیم شہر دربھنگہ کے قریب ریاست کی ایک بڑی دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا ۳۳؍ واں سیمینار.
EPAPER
Updated: December 27, 2024, 1:15 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
۹؍تا۱۱؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو بہار کے قدیم شہر دربھنگہ کے قریب ریاست کی ایک بڑی دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا ۳۳؍ واں سیمینار.
حضرات! ادھر سالہا سال سے اکیڈمی کے سیمیناروں کا معمول رہا ہے کہ کسی اہم فکری اور قومی مسئلہ پر کلیدی خطبہ پیش کیا جاتا ہے اور ملک بھر کے علماء راسخین اور فقہاء ربانیین کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات رکھی جاتی ہے؛ تاکہ یہ پیغام پورے ملک تک پہنچ جائے اور اس کے دور رَس اثرات مرتب ہوں، لوگ یہاں سے جاتے ہوئے فقہ وفتاویٰ کی سوغات کے ساتھ ساتھ نظروفکر کا تحفہ بھی لے کر جائیں، اس پس منظر میں اس وقت جو موضوع آپ بزرگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، وہ ہے، حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی مجریہ ۲۰۲۰ء کے پس منظر میں دینی مدارس اور مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں اور دیہات وقریہ جات کے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت اور آئندہ نسلوں کے ایمان کا تحفظ۔
یہ بات محتاج اظہار نہیں کہ کسی بھی مذہب اور فکر وعقیدہ کے لئے تعلیم کی حیثیت شہ رگ کی ہے، اگر کسی قوم کو اس کے دین سے محروم کرنا ہو تو اس کے دینی تصورات سے اس قوم کا علمی رشتہ کاٹ دیا جائے، یہ چیز خود بخود اس قوم کو اپنے مذہب سے بے گانہ بنا دے گی، اس کے لئے نہ پنجہ آزمائی کی ضرورت پڑے گی اور نہ معرکہ آرائی کی، یہ کسی قوم کو فکری اور مذہبی اعتبار سے قتل کرنے کا ایسا کامیاب اور بے ضرر نسخہ ہے کہ بقول شاعر:
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ یہی طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انگریز جب ہندوستان میں آئے تو انہوں نے یہی ناکام کوشش کی؛ چنانچہ لارڈ میکالے جب فورٹ ولیم کالج قائم کرنے کے بعد برطانیہ واپس گئے تو انہوں نے برطانوی دارالعوام میں اپنے اس منصوبہ کو ان الفاظ میں ظاہر کیا: ’’ میں ہندوستان میں ایک ایسے ادارہ کی بنیاد ڈال کر آیا ہوں کہ اس کی وجہ سے ہندوستان میں رہنے والے لوگ رنگ ونسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی رہیں گے؛ لیکن اپنی فکر اور ذہن ودماغ کے اعتبار سے انگریز بن جائیں گے۔ ‘‘
۱۸۱۳ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا کہ ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کے لئے اگر پادری وہاں جانا چاہیں تو انہیں اجازت ہے، اس کے بعد ہی سے ہندوستان میں بڑی تعداد میں عیسائی پادری اور تبلیغی وفود کی آمد شروع ہوئی، ۱۹۰۰ء تک ہندوستان میں عیسائیوں کے ۴۲؍ مشن اپنا قدم جما چکے تھے، ’’ پادری ای اینڈ مینڈ‘‘نے بر سر عام دعوت دی تھی کہ اب تمام ہندوستان میں ایک عمل داری ہوگئی، تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے، سڑک سے سب جگہ کی آمدورفت ایک ہو گئی، مذہب بھی ایک چاہئے؛ اس لئے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہو جاؤ۔ ‘‘ (سیرت مولانا محمد علی مونگیریؒ:۴۱) انگریزوں کی کوشش تھی کہ ایسا نظام تعلیم مروج ہو جو پادریوں کے لئے ان کی تبلیغی کوششوں میں معاون ومددگار ثابت ہو؛ تاکہ ہندوستان میں بڑے پیمانہ پر لوگ عیسائیت کو قبول کرلیں۔ سرچارلس ٹریویلین آئی سی ایس جو برطانوی کونسل کے ممبر تھے، نے ایک موقع پر ان خیالات کا اظہار کیا:
’’میرا یقین ہے کہ جس طرح ہمارے بزرگ کل کے کل ایک ساتھ عیسائی ہوگئے تھے، اسی طرح یہاں بھی سب ایک ساتھ عیسائی ہو جائیں گے، ملک میں مذہب عیسوی کی تعلیم بلاواسطہ کتابوں، اخباروں اور یورپینیوں سے بات چیت وغیرہ کے ذریعہ نفوذ کرے گی، حتی کہ عیسوی علوم تمام سوسائٹی میں اثر کر جائیں گے، تب ہزاروں کی تعداد میں عیسائی ہوا کریں گے۔ ‘‘ (تاریخ التعلیم، از سید محمود:۶۹)
نتیجہ یہ تھا کہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ عیسائی پادری اور مناد (منادی کرنے والے) مسلمانوں اور ہندوؤں کو دعوت ارتداد وتبدیلیٔ مذہب دیتے تھے۔ سر سید احمد خان مرحوم بھی اپنی حد اعتدال سے بڑھی ہوئی رواداری اور حکومت برطانیہ کے حق میں نرم روی کے باوجود یہ کیفیت برداشت نہ کرسکے، انہوں نے اس کیفیت پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے۔ ان حالات میں اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے وہی لوگ اُٹھے، جو دینی مدارس سے متعلق یا ان کے پروردہ تھے، انہوں نے شہر سے دیہات تک گلی کوچوں میں جا کر مسلمانوں کو اس فتنہ سے باخبر کیا، عیسائی مشنریز سے مناظرے کئے اور مسلمانوں کو ان کے دام ہم رنگ زمین سے بچایا، اس سلسلہ میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ، حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ وغیرہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
جو کام برطانوی عہد میں انگریزوں نے کیا، موجودہ دورمیں خاص کر ۲۰۱۴ء کے بعد مسلمانوں کے خلاف اسی مہم کو زیادہ قوت اور اعلان واظہار کے ساتھ سنگھ پریوار کے لوگ کر رہے ہیں ؛ کیوں کہ نفرت اور اقلیت دشمنی ان کا بنیادی ایجنڈا ہے، صورت حال یہ ہے کہ سنگھ کے ودیا بھارتی اسکولوں کی تعداد اس وقت تیرہ ہزار ہے، جن میں ۷۴؍ ہزار ا ساتذہ اور ساڑھے سترہ لاکھ طلبہ ہیں، یہ سرسوتی اور شیشو مندر کے علاوہ ہیں، سنگھ پریوار نے ۱۹۹۳ء میں پروسینک سیوا پریشد قائم کی ہے، جس میں سابق فوجیوں کے ذریعہ ساتویں سے نویں کلاس تک کے طلبہ کو ملٹری ٹریننگ دی جاتی ہے، اسی طرح تین رہائشی اسکول اس وقت ناگپور اور مہاراشٹر میں چل رہے ہیں اور نینی تال کا اسکول ان کے علاوہ ہے، ان کو جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، وہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی ہے، عجب بات ہے کہ حکومت کو سنگھ پریوار کے اداروں سے تو دہشت گردی اور تشدد کی بو نہیں آتی؛ لیکن مدارس اسلامیہ جو امن وآشتی کا گہوارہ ہیں، ان سے تشدد کی بو آتی ہے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء سنگھ پریوار کی سوچ کی مکمل طور پر عکاس ہے۔ ۲۰۱۴ء میں جب این ڈی اے کی حکومت اقتدار میں آئی، اسی وقت نئی تعلیمی پالیسی کے لئے ٹی ایس آرسبرامنیم کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی۔ مئی ۲۰۱۶ء میں کمیٹی نے رپورٹ دی؛ لیکن غالباََ یہ رپورٹ حکومت کے ناپاک عزائم سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں تھی اس لئے دوبارہ ڈاکٹرکے کستوری رنجن کی سرپرستی میں ۲۰۱۷ء میں دوسری کمیٹی قائم ہوئی، جس نے ۳۱؍مئی ۲۰۱۹ء کو ۴۶۸؍ صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ قاعدہ کے مطابق رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہئے تھا، اور اس پر بحث ہونی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا، مرکزی کابینہ نے پارلیمنٹ میں مباحثہ کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے ۱۹؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو نئی قومی تعلیمی پالیسی کو منظوری دی۔ چوں کہ پالیسی پر باضابطہ بحث نہیں کرائی گئی اور زیادہ تر ریاستوں میں عملی طور پر ابھی پالیسی پر نفاذ عمل میں نہیں آیا ہے؛ اس لئے اس کے فوائد ونقصانات لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آئے ہیں۔ حکومت خود اپنی پیٹھ ٹھونک رہی ہے اور اس پالیسی کی تعریف کر رہی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری طرح خلاف واقعہ ہے۔ یہ پالیسی ملکی مفاد کے خلاف ہے اور ملک کے سیکولرزم کے لئے تباہ کن ہے۔ یہ ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے سے کس قدر مطابقت رکھتی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کاا ہم موضوع بھارتیہ کرن ہے اور ان حضرات کے نزدیک بھارت سے مراد ملک کی محض ایک چھوٹی سی آبادی ہے، جو قدیم ہندو فلسفہ پر یقین رکھتی ہے۔ پالیسی میں بظاہر خوشنما الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، جیسے بھارتی علوم، بھارتی اقدار، بھارتی تہذیب وتمدن، بھارتی تاریخ، مادری زبان میں تعلیم وغیرہ؛ لیکن ان مبہم تعبیرات کے مفہوم کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وہ ہندو رنگ میں رنگ جائے۔ بھارت کی تاریخ کے عنوان سے قدیم ہندو دَور کا ذکر ہے، جس کی کوئی مستند تاریخ موجود نہیں ہے۔ ہندو مذہب کی دیو مالائی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنایا جارہا ہے اور پورے مسلم عہد کی تاریخ کو ملک کی تاریخ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ بھارتی اقدار کے نام پر ہندو روایات کو اسکولی تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے، بعض ریاستیں جہاں نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہاں وید اور گیتا کے مختلف مضامین کتاب کا حصہ بنائے جا رہے ہیں، کہا تو یہی گیا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کو فروغ دیا جائے گا؛ لیکن ایک سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے صرف آٹھ زبانوں کا ذکر کیا اور اس میں اردو زبان کا ذکر نہیں ہے، جب کہ اردو زبان ساتویں نمبر پر آتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کے بارے میں حکومت کی نیت کیا ہے، پالیسی میں کہا گیا ہے کہ پری پرائمری میں کھیل کود اور مختلف سرگرمیوں کا نصاب بنایا گیا ہے، بظاہر یہ نصاب مشرکانہ نغموں، ڈانس اور بھجن پر مشتمل ہوگا، پالیسی میں غیر ملکی زبانوں کا بھی ذکر ہے، ان میں بعض زبانیں ایسی ہیں جن کو شاذ ونادر ہی ہندوستان میں جانا اور سمجھا جاتا ہے؛ لیکن عربی زبان کو اس میں جگہ نہیں دی گئی ہے، جب کہ معلوم ہے کہ عرب ممالک سے بڑے پیمانہ پر ہندوستان کے بسنے والوں کا روزگار وابستہ ہے۔
غرض کہ اگر نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو دو تین نکات واضح طور پر سامنے آتے ہیں، ایک مشرکانہ افکار و روایات اور رسوم ورواج کو اسکول کی تعلیمی نظام کا حصہ بنانا، دوسرے: برہمنی فکر کو بہت چالاکی کے ساتھ آگے بڑھانا، اور تیسرے: مسلمانوں کی تاریخ اور ان کی زبان کو نظر انداز کرنا۔ یہ ساری باتیں ملک کے جمہوری اور سیکولر قدروں کے خلاف ہے اور مسلمانوں کی اگلی نسلوں کے ایمان کو متاثر کرنے والی ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی کے تحت دو پہلوؤں سے بچوں کے ذہنوں کو بگاڑنے اور ان کو شرک سے مانوس کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک تو ہندو دیو مالائی کہانیوں کو مسلمہ حقیقت کے طور پر کمسن بچوں کی نصابی کتابوں میں شامل کیا جا رہا ہے، گیتا اور ویدوں کے مختلف حصے نصاب کا حصہ بنائے جا رہے ہیں، پہلے نصاب میں دیگر مذاہب کی شخصیتوں کا بھی ذکر ہوتا تھا، اب اس کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، توہم پرستی پر مبنی ہندو تاریخ کو حقیقی واقعات کے انداز پر پڑ ھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور مضحکہ خیز باتوں کو سائنسی حقائق کا رنگ دیا جا رہا ہے، جیسے گنیش جی کی مورتی کو پلاسٹک سرجری کا شاہکار اور ہنومان جی کے ہندوستان سے سری لنکا جانے کو فضائی سائنس کی دریافت کا عنوان دیا جا رہا ہے، گائے کے پیشاب کے خود ساختہ طبی فوائد بیان کئے جا رہے ہیں، اور اسی طرح کی بہت سارے حقیقت سے بعید مفروضے اور کہانیاں ہیں، جن کو ایک سچائی اور دریافت کے انداز پر پیش کیا جا رہا ہے۔
اسکولوں میں مشرکانہ افکار واعمال کو داخل کرنے کا دوسرا راستہ تہذیبی اور ثقافتی پروگرام ہیں۔ بچوں سے سرسوتی وندنا کرائی جاتی ہے، جن کو تعلیم کی دیوی باور کیا جاتا ہے، لکشمی دیوی کو رزق کی دیوی سمجھایا جاتا ہے، بچوں کو اس کی پوجا کی ترغیب دی جاتی ہے اور دماغ میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ اگر یہ دیوی خوش رہی تو دولت حاصل ہوگی، د رگا پوجا بھی اسکولوں میں اہتمام کے ساتھ کرائی جاتی ہے اور ان کو طاقت اور شکتی کی دیوی قرار دیا جاتا ہے۔ قرآن نے بار بار اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات دونوں کی توحید پر زور دیا ہے اور شرک فی الذات کی طرح شرک فی الصفات سے بھی منع کیا ہے، اس ماحول میں اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے، تعلیم گاہوں میں مختلف ہندو تہواروں اور تقریبات کا انعقاد، ہر جگہ ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصویریں، ان قدیم شکست خوردہ راجاؤں کی تصویریں کو نمایاں کرنا، جن کی مسلم قبائل سے جنگ رہی ہے۔ ان سب کا مقصد ہندو نظریہ اور آئیڈیالوجی کو بلند اور برتر بنا کر پیش کرنا ہے۔
اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ تاریخ کے نصاب سے پورے مسلم دور کو باہر کر دیا گیا ہے، جیسے یورپ میں مسلمانوں کے غلبہ وعروج کے عہد کو ڈارک ایج(Dark Age ) کا نام دیا گیا، اسی طرح سنگھ پریوار کے مؤرخین نے مسلمانوں کے طویل دور حکومت، جو اصل میں اس خطہ کی تعمیر وترقی کا دور تھا، کو گوشہ گمنامی میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات بہت ضروری ہے کہ:
(الف)مسلمان زیادہ سے زیادہ اپنے اسکول قائم کریں، جس کا ماحول اسلامی ہو، اور جس کی تعلیم اعلیٰ معیاری ہو، خاص کر علماء، دینی مدارس اور مذہبی تنظیمیں اپنے زیر انتظام ایسی درسگاہیں قائم کریں، جہاں تک ممکن ہو، لڑکے اور لڑکیوں کی جداگانہ تعلیم کا انتظام ہو، دلکش مگر شریعت سے ہم آہنگ یونیفارم ہو۔
(ب)یہ بات ظاہر ہے کہ اتنے اسکولوں کا قیام جہاں مسلمان لڑکے اور لڑکیاں پڑھ سکیں، آسان نہیں ہے؛ اس لئے ہر ریاست کے علماء اور دینی ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ وہ عصری اور دینی علوم کے ماہرین سے ایک ایسی کلید تیار کرائیں جو سرکاری نصاب کی زہر افشانیوں کا علاج تجویز کرتی ہو، اس میں عقیدۂ توحید کو اچھی طرح سمجھایا جائے۔ یہ ایک متوازی معاون نصاب ہو جو مسلمان بچوں اور بچیوں کو ہفتہ میں ایک دن پڑھایا جا سکے۔
(ج) مدارس اپنے احاطہ میں ایسے کوچنگ سینٹر قائم کریں جہاں مسلمان کمزور یا ڈراپ آؤٹ بچوں کیلئے مفت یا بہت معمولی خرچ پر ٹیوشن کا انتظام ہو، ان کو امتحان کیلئے تیار کیا جائے، درجات کے طویل مرحلوں سے گزارے بغیر ان کو کوچنگ کے ذریعہ امتحان دلایا جائے۔
(د)مسلمانوں کے زیر انتظام عصری مدارس کی ایک بڑی ضرورت نصاب تعلیم میں ایسے مضامین کو شامل کرنا ہے، جو مسلمان طلبہ اور طالبات کو اسلام کے بارے میں واقفیت بھی فراہم کریں اور اُن کو احساس کمتری میں مبتلا ہونے سے بچائیں۔ محض چند دُعاؤں کا یاد کروا دینا کافی نہیں ؛ بلکہ توحید، شرک، رسالت، عبادات، معاشرتی زندگی اور معاملات کے بارے میں ان کو معلومات فراہم کی جائیں، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی تاریخ کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں، ان کے متعلق وہ حقائق سے آگاہ ہوں، ہندوستان کی حقیقی تاریخ کہ مسلمانوں نے اس ملک کو کیا کچھ دیا؟ پڑھائی جائے، بابر، غزنوی وغوری، اورنگ زیب عالمگیرؒاور ٹیپو سلطان شہیدؒ وغیرہ مسلم حکمرانوں کے بارے میں جو پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں، ان کی حقیقت سمجھائی جائے؛ تاکہ آج از سر نو تاریخ لکھنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، اس کے زہر سے مسلم نوجوانوں کے ذہن کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ان موضوعات پر بہت سی تحریریں موجود ہیں ، اگر ضرورت پڑے تو اس نقطۂ نظر سے کچھ کتابیں مدون کی جائیں، یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے۔ جن جماعتوں میں بورڈ کا امتحان دینا ہوتا ہے، ان جماعتوں کو چھوڑ کر دوسری کلاسس میں ایسی کتابیں رکھی جائیں تو شاید اس میں کوئی دقت نہ ہو۔
یہ تو اُن بچوں اور بچیوں کے مسائل کا حل ہے جو پوری طرح عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ؛ لیکن ہمارے دینی مدارس کو بھی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی راہ نکالنی چاہئے کہ مدرسہ میں پڑھنے والے بچے عصری علوم سے ناآشنا نہ رہ جائیں۔ علماء کو اپنے عہد کے تقاضوں سے باخبر بنانے کیلئے مدارس کو اپنے نظام میں کچھ تبدیلیاں لانے کی بھی ضرورت ہے، اس میں سب سے اہم مسئلہ زبان کا ہے۔ انگریزی زبان اس وقت عالمی رابطہ کی زبان ہے، یہ زبان نہ صرف غیر مسلموں تک اسلام کی د عوت پہنچانے کیلئے ضروری ہے بلکہ خود مسلمانوں کی نئی نسل بھی تیزی سے اُردو کی گرفت سے باہر ہوتی جارہی ہے؛ اس لئے ہمیں ایک طرف اردو زبان کی ترویج کی کوشش کرنی چاہئے، دوسری طرف علماء کو انگریزی زبان سے آراستہ کرنا چاہئے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا جا رہا ہے اور علمی وفکری جہت سے دین حق پر جو یلغار ہو رہی ہے، وہ زیادہ تر اسی زبان میں ہے۔ اگر علماء اس زبان کے سمجھنے اور اسی میں اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کے لائق نہ ہو سکے تو وہ اسلام کی حفاظت واشاعت کا فریضہ صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو نظر انداز کرنا چڑھتے سورج سے آنکھیں موندنے کے مترادف ہوگا۔ ایک صاحب ِعلم نے لکھا ہے کہ انگریزی زبان کی ناواقفیت کی وجہ سے علماء اس صدی میں مقام احترام پر تو فائز ہوئے لیکن مقام قیادت پر فائز نہیں ہو سکے، میرا خیال ہے کہ یہ بات بڑی حد تک درست ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قانون کا خوف، ضمیر کی آواز، سماج کا خوف، خدا اور آخرت کا تصور
زبان محض ایک ذریعۂ اظہار ہے۔ اس کا صحیح و غلط اور مناسب و نامناسب استعمال مفید یا مضر ہوا کرتا ہے۔ کوئی بھی زبان اسلام کی نگاہ میں بذات خود ناپسندیدہ نہیں اس لئے انگریزی زبان پر دسترس آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دیوبند کی ابتدائی تعلیم کے نصاب میں سنسکرت کو بھی شامل کیا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علماء نے کبھی انگریزی زبان کی مخالفت نہیں کی۔ سر سید احمد خان مرحوم کے بعض افکار جمہورِ اُمت کے خلاف تھے، اور وہ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی تہذیب وثقافت کی طرف بھی جھکاؤ رکھتے تھے۔ علماء نے اس میلان ورجحان سے اختلاف کیا تھا مگر موجودہ حالات میں خاص طور پر انگریزی زبان کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے، جس سے کسی بھی طرح صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
انگریزی کے علاوہ معاشیات، سیاسیات کی مبادی، تاریخ، جغرافیہ اور حساب وغیرہ کے بارے میں بھی ضروری حد تک آگاہی اور واقفیت علماء کے لئے ضروری ہے؛ اس لئے کہ بہت سے شرعی مسائل اور دینی حقائق ان ہی مضامین سے متعلق ہیں۔ ان مضامین کیلئے جگہ نکالنے کی دو صورتیں ہیں، ایک صورت تو یہ ہے کہ موجودہ نظام تعلیم میں ششم عربی تک چھ کے بجائے سات یا آٹھ گھنٹیاں کر دی جائیں۔ یہ زائد گھنٹیاں ان مضامین کیلئے رکھی جائیں، اور اس کے لئے کچھ اور گنجائش پیدا کرنے کی غرض سے منطق اور فلسفہ کی قدیم کتابوں کو اصطلاحات کی شرح و وضاحت تک محدود کر دیا جائے، جیسے: منطق میں مرقات، شرح تہذیب، قطبی اور سلم العلوم اکثر مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں، گویا چار سال یہ مضمون پڑھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح قدیم فلسفہ میں ہدایۃ الحکمۃ، ہدیہ سعیدیہ اور میبذی کے اسباق ہوتے ہیں۔ ان تین کتابوں کے لئے دو سال میں ایک ایک گھنٹی دی جاتی ہے۔ اب اگر منطق کے لئے دو گھنٹی اور قدیم فلسفہ کے لئے ایک گھنٹی پر اکتفاء کر دیا جائے تو مزید تین گھنٹیاں نکل آتی ہیں۔ اسی طرح عربی کی ابتدائی جماعتوں میں بعض اسباق جو روزانہ ہوا کرتے ہیں، اگر ہفتہ میں چار دن ہوں تب بھی کتاب پوری ہو سکتی ہے، اس طرح ہفتہ میں دو دن کا وقت خالی کیا جا سکتا ہے، اگر ہم اس طرح وقت نکالیں تو معمولی تبدیلی کے ساتھ ان ضروری مضامین کے لئے کافی وقت فراہم ہو سکتا ہے۔
دوسری اور اس سے اعلیٰ صورت یہ ہے کہ میٹرک تک تعلیم ہر طالب علم کو دی جائے؛ البتہ اس میں شروع سے تین گھنٹیاں اسلامیات کے لئے لے لی جائیں اور میٹرک کے بعد جیسے پانچ سال میں انٹر اور گریجویشن ہوتا ہے، اسی طرح پانچ سال میں عالم کورس کو مکمل کیا جائے، اگر میٹرک تک عربی نحو و صرف، ادب، ضروری فقہی مسائل وغیرہ کی مبادیات طلبہ پڑھ چکے ہوں تو اس پانچ سال میں، جو عربی واسلامی علوم ہی کے لئے مخصوص ہوں، بہ سہولت درسِ نظامی کی تکمیل کر سکتے ہیں، اور چوں کہ یہ پوری تعلیم مدرسہ کے ماحول میں ہوگی؛ اس لئے اسلامی خطوط پر اُن کے ذہن و مزاج کی نشوونما ہوتی رہے گی۔ مدارس کا موجودہ نصاب نو سالہ عالم کورس اور چار تا پانچ سالہ شعبۂ ابتدائی پر مشتمل ہے، گویا تیرہ چودہ سال کا عرصہ اس کورس کی تکمیل پر لگتا ہے، اور اگر میٹرک کے ساتھ عالم کورس ہو تو اس کی مدتِ تعلیم ۱۵؍ سال ہو جائے گی، یعنی ۱۹؍۲۰؍ سال کے عرصہ میں لڑکے میٹرک کرنے کے ساتھ ساتھ عالم کورس مکمل کر لیں گے جو اسلامی علوم میں گریجویشن کرنے کے مماثل ہوگا۔ اب جو طلبہ باصلاحیت ہوں وہ تخصص اور تحقیق کے شعبوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے اور اس طرح جدید وقدیم کے درمیان جو فاصلہ محسوس کیا جاتا ہے، اسے بہتر طریقہ پر پُر کیا جا سکے گا۔
نئی نسلوں کو ایمان ودین پر باقی رکھنے کے لئے مدارس اور اسکولوں سے بڑھ کر مکاتب کا کردار ہے، افسوس کہ اس جہت سے دیہاتوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ علماء کی ساری تعلیمی اور دعوتی سرگرمیاں شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں، شہروں میں نہ صرف یہ کہ ہمارے دینی تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بعض مقامات پر زائد از ضرورت ادارے قائم ہو رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے محلوں میں ایک سے زیادہ درسگاہیں قائم ہیں، وہاں طلبہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ ایک ادارہ ان کے لئے کافی تھا، پھر اُن اداروں میں باہم کمرشیل اداروں کی طرح رقابت اور منافست (باہم نفسا نفسی، مسابقت) کی کیفیت بھی ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کمیٹی میں اختلاف ہوگیا، ایک گروہ مدرسہ پر قابض ہوگیا، دوسرے گروہ نے قریب ہی دوسرا مدرسہ کھول لیا، گویا ادارے کسی ضرورت یا خدمت کی کسی نئی جہت کے لئے قائم کرنے کے بجائے محض مقابلہ اور تفاخر کے جذبہ سے بھی قائم کئے جارہے ہیں۔ یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ مدارس دینیہ کے قیام جیسا دینی کام دینی جذبہ سے خالی ہو کر انجام دیا جائے!
اس کے برخلاف دیہاتوں کا حال دیکھئے، بہت سے دیہات ایسے ہیں، جہاں کوئی نماز پڑھانے والا میسر نہیں اور بہت سی لاشیں بغیر نماز کے دفن کر دی جاتی ہیں، کہیں قادیانی حملہ زن ہیں، کہیں فرقہ پرست تنظیمیں مسلمانوں کو مرتد کرنے پر کمر بستہ ہیں، کہیں عیسائی مشنریز ایمان پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں، جہالت کا حال یہ ہے کہ محرم رشتوں کا پاس و لحاظ بھی اُٹھ چکا ہے، مسلمان طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیوں میں مبتلا ہیں، اور سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتے؛ بلکہ کتنے ہی لوگ ہیں جو کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت سے بھی محروم ہیں، آخر اُن ناواقف مسلمانوں کی اصلاح و ہدایت کی ذمہ داری کن پر ہے؟ کیا علمائے کرام اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتے ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ دیہاتوں میں مکاتب کے قیام کی ضرورت ہے، ان مکاتب میں چھوٹے بچوں کی تعلیم بھی ہو اور تعلیم بالغاں کا بھی انتظام ہو، جس کے ذریعہ ضروریات ِدین سے لوگ واقف ہو جائیں۔ سب سے اہم مسئلہ ان دیہاتوں میں کام کرنے والے لوگوں کا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے فضلاء شہر کی رونقوں کو چھوڑ کر دیہاتوں میں جانے اور کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے، یہاں تک کہ جو لوگ دیہاتوں میں پیدا ہوئے اور دیہات کے ماحول میں ان کی نشوونما ہوئی، وہ بھی شہر کی آب وتاب پر اس قدر ریجھ جاتے ہیں کہ دیہات کی طرف واپس جانے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ نہایت ہی افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ مقام حیا ہے کہ عیسائی مشنریز تو یورپ اور امریکہ سے آکر ہندوستان کے پسماندہ ترین دیہاتوں میں کام کریں اور عیسائیت کو پھیلانے میں اپنی پوری قوت صرف کر دیں، اس کا نتیجہ آپ آندھرا اور بعض دوسری ریاستوں کے دیہاتوں میں جا کر دیکھ سکتے ہیں، جہاں جگہ جگہ نو تعمیر شدہ چرچ آپ کو نظر آئینگے، قادیانی ختم نبوت کے باغی ہیں اور اسلام کو سخت نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ؛ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ کشمیر اور پنجاب جیسے دور دراز علاقوں سے ان کے مبلغین آتے ہیں اور ایسے گاؤں میں کام کرتے ہیں، جہاں موٹر اور بس کے پہنچنے کیلئے راستے تک میسر نہیں ہیں ؛ لیکن ہمارے فضلاء جو یقیناً حاملین حق ہیں اور جن کا مقصدِ زندگی ہی اسلام کی حفاظت و اشاعت ہے، وہ ایسے مقامات پر جانے اور شہر وقصبات سے آگے قدم بڑھانے کیلئے تیار نہیں۔
مدارس عام درس گاہوں کی طرح محض درس گاہ نہیں ؛ بلکہ حفاظت اسلام کی ایک زندہ تحریک ہیں اور یہ مدارس کسب معاش کے پیشوں میں سے ایک پیشہ نہیں ؛ بلکہ یہ آخرت کی ’’تجارت رابحہ‘‘ ہیں، اگر ہم احیاء اسلام کی مساعی کا ایک حصہ ہیں اور اس کاروانِ عزیمت سے نسبت رکھتے ہیں، جس نے اس ملک میں دین کی بقاء وارتقاء کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی، تو یہ ہمارے لئے ایک امتحان ہے کہ کیا ہم زندگی کی معمولی سہولتوں کی قربانی کو بھی دین اور اُمت کے لئے گوارا نہیں کر سکتے؟ کیا ہم ان اہل باطل سے بھی گئے گزرے ہیں، جو اپنے فاسد عقیدے کی سوغات لے کر سماج کو بے روح بنانا چاہتے ہیں ؟ یہ وقت کا نہایت اہم مسئلہ ہے کہ فضلاء مدارس دیہاتوں میں کام کریں، وہاں تعلیمی ادارے قائم کرنے کو تیار ہوں اور اس کو اپنا فریضۂ منصبی سمجھیں۔