اسوۂ حسنہ پر مشتمل اِس نئے سلسلے میں آج پڑھئے کہ آپؐ کو کس طرح اخلاق سے مزین کیا گیا نیز آپؐ کی صفتِ تواضع بھی ملاحظہ کیجئے۔
EPAPER
Updated: July 19, 2024, 4:29 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
اسوۂ حسنہ پر مشتمل اِس نئے سلسلے میں آج پڑھئے کہ آپؐ کو کس طرح اخلاق سے مزین کیا گیا نیز آپؐ کی صفتِ تواضع بھی ملاحظہ کیجئے۔
ایک اور جامع روایت آپ کے نواسے حضرت حسن بن علیؓ سے منقول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے بھائی حسینؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ اپنے رفقائِ مجلس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویّہ کیسا تھا۔ انہوں نے کہا :
’’ آپؐ ہر وقت ہنس مکھ رہا کرتے تھے، آپؐ کے اخلاق میں نرمی تھی، آپؐ نہ تند خو تھے نہ سخت گیر تھے، نہ چیخنے چلانے والے تھے، نہ عیب جو‘ تھے۔ جو چیز آپؐ کو اچھی نہ لگتی اس سے اعراض فرماتے لیکن دوسروں کو منع نہ فرماتے بلکہ خاموشی اختیار فرمالیتے۔ تین باتوں سے آپؐ نے خود کو بالکل محفوظ کررکھا تھا، جھگڑے سے، تکبر سے اور لایعنی باتوں سے، اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا، آپؐ نہ کسی کی مذمت فرماتے تھے، نہ کسی کا عیب بیان فرماتے اور نہ ایسی کسی چیز کی جستجو فرماتے کہ اگر وہ فی نفسہ موجود ہوتی تو قابل مذمت ہوتی۔ آپؐ کی گفتگو صرف ان امور پر ہوا کرتی تھی جو باعث ِاجر وثواب ہوتے۔ جب آپؐ گفتگو فرماتے تو آپؐ کے اصحاب خاموشی کے ساتھ سر جھکائے اس طرح بیٹھے رہتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، پھر جب آپؐ خاموش ہوجاتے تو آپ کے اصحاب کی گفتگو شروع ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپؐ کے رفقاء آپس میں کسی بات کو لے کر جھگڑا نہیں کرتے تھے، اگر ایک شخص اپنی کوئی بات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوتا تو باقی تمام لوگ خاموشی کے ساتھ اس کی بات سنتے یہاں تک کہ وہ اپنی گفتگو سے فارغ ہوجاتا۔ ان لوگوں میں سے ہر شخص کی بات ایسی ہی ہوتی جیسے پہلے شخص کی بات، جس بات پر سب ہنستے آپؐ بھی اس پر مسکراتے، جس پر سب کو تعجب ہوتا آپؐ بھی اس پر تعجب فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اجنبی شخص یا مسافر کی سخت گفتگو اور بے ادبی سے ناراض نہ ہوتے بلکہ صبر فرماتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت تھی کہ اگر کوئی ضرورتمند اپنی ضرورت پوری کرنے کا مطالبہ کررہا ہو تو پہلے اس کی مدد کرو۔ اگر کوئی شخص آپؐ کی تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرتا تو آپؐ خاموش رہتے، آپ کسی کی بات نہیں کاٹتے تھے، اِلاّ یہ کہ وہ حد سے آگے بڑھ جاتا تب آپؐ اسے روک دیتے یا اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ ‘‘ (الشمائل المحمدیہ: ۱/۲۹۰، رقم الحدیث: ۳۵۲)
آپؐ کے اخلاق کی جامعیت
سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ہر اعتبار سے مکمل اور جامع تھی، آپؐ ہم جیسے ایک انسان تھے لیکن ملکوتی اوصاف کے حامل تھے، آپؐ تمام بشری تقاضوں پر عمل پیرا تھے، لیکن انسانیت کے جو اعلیٰ وارفع تقاضے ہیں وہ آپؐکے ہر عمل سے نمایاں تھے۔ عزم، استقلال، صبر، شکر، توکل، تحمل برداشت، زہد وقناعت، استغناء، ایثار، قربانی، جود و سخا، تواضع و انکساری، رحم وکرم…ان میں سے کون سا وصف ایسا تھا جو آپؐ میں موجود نہ تھا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے خطیب بغدادی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کے وقت آواز سنائی دی کہ محمد کو ملکوں ملکوں پھراؤ، سمندروں کی تہوں میں لے جاؤ کہ پوری دُنیا ان کو جان لے اور پہچان لے، چرند، پرند، جن و انس بلکہ ہر جاندار کے سامنے ان کو لے جاؤ، اُن کو آدم علیہ السلام کا خلق، شیث علیہ السلام کی معرفت، نوح علیہ السلام کی شجاعت، ابراہیم علیہ السلام کی دوستی، اسماعیل علیہ السلام کی زبان، اسحاق علیہ السلام کی رضا، صالح علیہ السلام کی فصاحت، لوط علیہ السلام کی حکمت، موسیٰ علیہ السلام کی شدت، ایوب علیہ السلام کا صبر، یونس علیہ السلام کی طاعت، یوشع علیہ السلام کا جہاد، داؤد علیہ السلام کا لحن، دانیال علیہ السلام کی محبت، الیاس علیہ السلام کا وقار، یحییٰ علیہ السلام کی پاک دامنی اور عیسیٰ علیہ السلام کا زہد عطا کرو اور تمام پیغمبروں کے اخلاق میں ان کو غوطہ دو۔ (خطبات مدراس ص:۹۱)
یہ بھی پڑھئے: حضرت انسؓ فرماتے تھے:’’مَیں دس سال حاضر ِ خدمت رہا، آپؐ کبھی برہم تک نہ ہوئے!‘‘
اسی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کفر کے خلاف غیظ و غضب کا ولولہ پیش کرتی ہے، حضرت ابراہیمؑ کی حیات بت شکنیوں کا منظر دکھاتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کفار سے جنگ وجہاد، شاہانہ نظم ونسق اور اجتماعی دستور و قوانین کی مثال پیش کرتی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی خاکساری، تواضع، عفو و درگزر اور قناعت کی تعلیم دیتی ہے، حضرت سلیمان ؑ کی زندگی شاہانہ اولو العزمی کی جلوہ گاہ ہے، حضرت ایوب ؑکی حیات صبر وشکر کا نمونہ ہے، حضرت یونس ؑکی سیرت ندامت اور انابت اور اعتراف کی مثال ہے، حضرت یوسف ؑکی زندگی قید وبند میں بھی دعوت حق اور جوش تبلیغ کا سبق ہے، حضرت داؤد علیہ السلام کی سیرت گریہ وبکا، حمد وستائش اور دعا وزاری کا صحیفہ ہے، حضرت یعقوب ؑکی زندگی امید، خدا پر توکل اور اعتماد کی مثال ہے، لیکن محمد ﷺ کی سیرت ِمقدسہ کو دیکھو تو اس میں نوحؑ اور ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ، سلیمانؑ اور داؤدؑ، ایوب ؑاور یونسؑ، یوسفؑ اور یعقوب ؑکی زندگیاں اور سیرتیں سمٹ گئی اور اس میں سما گئی ہیں۔
(خطبات مدراس ص:۹۰،۹۱)
علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اپنے ان ارشادات میں گویا فارسی زبان کے اس مشہور شعر کی تشریح وتوضیح کی ہے:
حسن یوسف، دمِ عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آپؐ کی متواضعانہ زندگی اور منکسرانہ مزاج
تواضع کے معنی ہیں عاجزی اور انکساری، خود کو دوسروں کے مقابلے میں فروتر سمجھنا، سب کا درجہ بدرجہ احترام کرنا، یہ ایک اخلاقی وصف ہے، قرآن کریم اور احادیث میں اس کی بڑی تاکید ملتی ہے۔ تواضع در اصل اس حقیقت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے کہ تمام انسان حقوق وفرائض میں برابر ہیں، انسانیت کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ تمام انسانوں کو برابر سمجھا جائے، کسی انسان کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے بالا تر سمجھے، اپنے رب کے سامنے بھی عجز وانکساری کا اظہار کرنا چاہیے اور اس کے بندوں کے ساتھ بھی تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آنا چاہئے، نہ کوئی شخص اپنے آپ پر فخر کرے، نہ خود کو بڑا سمجھے، اور نہ دوسروں کو حقیر تصور کرے۔ تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ’’تم اپنی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو، اللہ یہ بات زیادہ جانتا ہے کہ کون زیادہ پاکباز ہے۔ ‘‘(النجم: ۳۲)
اللہ رب العزت نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی تواضع اور انکساری کی تعلیم دی ہے، فرمایا: ’’اور جو مؤمن تمہارے پیچھے چلیں ان کے لئے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکادو۔ ‘‘ (الشعراء: ۲۱۵) اہل ایمان کے لئے اپنے بازو جھکانے کا مطلب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور تواضع اختیار کریں۔ قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر اگر اس روایت کی روشنی میں کی جائے تو بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ حضرت عیاض بن حمارؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی نازل کی ہے کہ تواضع اختیار کی جائے، کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی شخص کسی دوسرے پر ظلم کرے۔ (صحیح مسلم:۴ / ۹۸۲۱، رقم الحدیث: ۲۸۶۵)۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کے متعلق ارشاد فرمایا کہ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا، اگر کوئی بندہ عفو ودرگزر سے کام لیتا ہے تو اللہ اس کی توقیر بڑھا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کو بلندی اور عظمت عطا کرتا ہے۔ (صحیح مسلم: ۲۰۰۱، رقم الحدیث: ۲۵۸۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ تواضع میں بھی ایک اعلیٰ اور ارفع نمونہ تھے، روایات میں ہے کہ جب آپؐ شہر کی گلیوں سے گزرتے اور بچوں کو دیکھتے تو ان کو سلام کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت انس بن مالکؓ نے گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچوں کو سلام کیا، شاگردوں نے حیرت سے دیکھا، انہوں نے فرمایا: اس میں تعجب کی کیا بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری: ۸/۵۵، ۶۲۵۷)گویا بچوں کو سلام کرنا آپؐ کا معمول تھا۔
یہ تواضع ہی تو ہے کہ آپؐ اپنے گھر کے معمولی سے معمولی کام بھی کرلیا کرتے تھے۔ ایک صحابی حضرت اسود بن یزیدؓ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ سے کسی نے دریافت کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کاموں میں اہل خانہ کی مدد کرتے ہیں، جب نماز کا وقت آتا ہے تو مسجد تشریف لے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۳۶، رقم الحدیث: ۶۷۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منکسر مزاجی کا حال یہ تھا کہ آپؐ معمولی سے معمولی شخص کی ادنیٰ سے ادنیٰ دعوت بھی قبول فرما لیتے اور داعی کے گھر بخوشی تشریف لے جاکر جو کچھ وہ کھانے کے لیے پیش کرتا تناول فرمالیتے۔ نہ کوئی کروفر تھا، نہ اعلیٰ کھانوں کی فرمائش تھی، نہ راستوں میں ہٹو بچو کا شور تھا، حالاں کہ شاہوں کے شاہ اور بادشاہوں کے بادشاہ تھے، ارشاد فرماتے تھے کہ اگر مجھے بکری کی ٹانگ یا اس کا بازو کھانے کے لئے بلایا جاتا ہے تو میں چلا جاتا ہوں، اگر مجھے بکری کی ٹانگ یا اس کا بازو دیا جاتا ہے تو میں اسے قبول کرلیتا ہوں۔ (صحیح البخاری:۳/۱۵۳، رقم الحدیث: ۲۵۶۸)
حدیث شریف میں کراع اور ذراع دو لفظ آئے ہیں، کراع کے معنی پنڈلی کا نچلا حصہ جس میں کُھر بھی ہوتا ہے اور ذراع کے معنی ہیں بازو، عربوں میں جانوروں کے ان دونوں بازؤوں کی دعوت معمولی تصور کی جاتی تھی۔ حدیث میں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ آپؐ معمولی دعوتوں میں بھی بلاتکلف تشریف لے جایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آپؐ مسجد کے منبر سے خطاب فرمارہے تھے، اتنے میں ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے دین کی کچھ معلومات حاصل کرنا چاہیں، ابو رفاعہ تمیم بن اُسیدؓ کہتے ہیں کہ اعرابی کی بات سن کر میں منبر کی طرف گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک دیہاتی شخص آیا ہے وہ دین کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر آپؐ میری طرف متوجہ ہوئے، خطاب روک دیا اور اس شخص کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ کیلئے کرسی بچھائی گئی، آپؐ اس پر تشریف فرما ہوئے اور اس شخص کو دین کی معلومات فراہم کیں، اس سے فارغ ہوکر آپؐ منبر پر تشریف لائے اور اپنی تقریر مکمل فرمائی۔ (صحیح مسلم: ۲/۵۹۷، رقم الحدیث: ۸۷۶)
یہ واقعہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی اتنی تیز رفتار تھی کہ کوئی اونٹ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہوتا آپؐ کی اونٹنی سے آگے نہ بڑھ پاتا۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی شخص جوان اور فربہ اونٹنی پر سوار ہوکر آیا اور اس نے اپنی اونٹنی کو اتنی تیز رفتاری سے دوڑایا کہ آپؐ کی اونٹنی پیچھے رہ گئی، صحابہؓ کو یہ بات سخت ناگوار گزری، آپ ؐ کو علم ہوا کہ صحابہؓ دیہاتی کی اس حرکت سے رنجیدہ ہیں تو آپؐ نے فرمایا : اللہ کو اس کا حق ہے کہ دنیا میں کوئی چیز اونچا اٹھنے کی کوشش کرے تو وہ اسے گرا دے۔
(صحیح البخاری:۴/۳۲، رقم الحدیث: ۲۸۷۲)
عام طور پر شاہان مملکت اور اعیان حکومت خود پسندی میں مبتلا ہوتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ماتحت لوگ ہر وقت ان کی تعریف میں رطب اللسان رہیں۔ آپؐ علو مرتبت اور رفعت عظمت کے باوجود یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ ان کی تعریف وتوصیف کی جائے اور ان کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں۔ ایک مرتبہ آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے مرتبے سے زیادہ مت بڑھاؤ، جس طرح نصاریٰ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بڑھایا کرتے ہیں، میں صرف پاک پروردگار کا بندہ ہوں، مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو۔ (شعب الایمان: ۳/۷۷، رقم الحدیث: ۱۴۱۱ ) (جاری)