• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فطرت کے مطابق کائنات کی چیزوں کو استعمال کرنے میں بھلائی ہے

Updated: June 28, 2024, 4:25 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

’’سفر نامۂ ری یونین‘‘ کی دوسری اور آخری قسط میں مغرب کی فطرت سے بغاوت کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

If the difference between Islamic civilization and Western civilization is to be understood, then it should be evaluated from this dimension.  Photo: INN
اگر اسلامی تمدن اور مغربی تمدن کے فرق کو سمجھنا ہے تو اس جہت سے جائزہ لینا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

شوہر اور بیوی کا رشتہ بڑا اہم رشتہ ہوتا ہے؛ اگرچہ اس سے ایک نفسانی اور جسمانی سکون دونوں فریق کو ملتا ہے؛ لیکن اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس سے شوہر اور بیوی کو ایک پُر سکون زندگی حاصل ہوتی ہے، ان کو ۲۴؍ گھنٹے کی زندگی میں ایک مونس وغمخوار اور بے حد بھروسہ مند ساتھی میسر آتا ہے، وہ دونوں ایک دوسرے سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں اور یہ محبت زندگی کی آخری سانس تک قائم رہتی ہے۔ یورپ کے بعض مفکرین کا خیال ہے کہ یہ محبت جنسی کشش کی وجہ سے ہوتی ہے؛ لیکن یہ غلط ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ کے بعد دونوں فریق کے جنسی جذبات کم ہونے لگتے ہیں، اور ایک عرصہ کے بعد نہ مرد میں اس پہلو سے عورت کیلئے کشش باقی رہ جاتی ہے اور نہ عورت میں مرد کیلئے؛ لیکن یہ محبت اس وقت بھی باقی رہتی ہے؛ بلکہ نوجوانی اور جوانی کے مقابلہ ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں ایک دوسرے کا لحاظ و خیال بڑھ جاتا ہے، اسی وجہ سے شوہر و بیوی کے درمیان طلاق کے واقعات شاید ایک فی ہزار سے بھی کم پیش آتے ہیں ؛ لیکن مغرب میں بہت سے جوڑے شادی کو بھی ذائقہ چشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، شب و روز رشتے ٹوٹتے بھی ہیں اور نئے رشتے قائم بھی ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بے وفائی کی شکایت عام ہے اور عالم یہ ہے کہ رشتہ ٔ نکاح قائم رکھتے ہوئے بھی مردو عورت دونوں اپنی وفاداری کو ایک دوسرے کیلئے محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ یہ بھی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر میاں بیوی کے لئے ایک دوسرے کا وفادار بن کر رہنا ضروری نہ ہوتا تو انسانوں میں نکاح کا نظام قائم نہیں ہوتا۔ 
 انسان کے اندر جنسی ضرورت کا بھی ایک داعیہ رکھا گیا ہے، جس کا ایک اہم مقصد توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھنا ہے، اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مرد عورت کی دو جنسوں کی شکل میں پیدا فرمایا ہے، اور دونوں کے اندر ایک دوسرے کے جنسی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھی گئی ہے؛لیکن مغرب نے ہم جنس پرستی کو اس طرح قبول کر لیا ہے کہ گویا اپنے عقیدہ اور ایمان کا حصہ بنا لیا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اس کے خلاف بولتا ہو، یا اس کے خلاف لکھتا ہو تو وہ پو رے معاشرہ میں نشانۂ ملامت بن جاتا ہے۔ الیکشن میں اس کو ووٹ تک نہیں دیا جاتا، چنانچہ اس کا سیاسی پہلو بھی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: میدانِ حشر کے پانچ سوال

انسان کی فطرت میں ستر پوشی بھی داخل ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت آدم اور حواء علیہما السلام کو جب ممنوعہ پھل کھانے کی پاداش میں جنت سے نکالا گیا، تو سب سے پہلے ان کے جسم پر جنت کا جو لباس تھا، وہ اُتر گیا اور وہ مضطربانہ اپنے جسم ڈھکنے لگے (اعراف: ۲۲) حالانکہ جنت کی اس وسیع دنیا میں صرف حضرت آدم اور حضرت حواء ہی تھے، پھر بھی دونوں ایک دوسرے سے اپنا جسم چھپانے لگے، یعنی جسم کے بہت سے حصوں کو چھپانا فطرت کا حصہ ہے، اور برہنگی فطرت کے خلاف ہے؛ مگر اس وقت یورپ عریانیت کا وکیل و نقیب ہے جہاں ایسے مقامات بھی ہیں جن میں مرد وعورت بالکل بے لباس ہوتے ہیں۔ چند سال پہلے میں ٹورنٹو (کینیڈا) میں تھا، تو ایک دن معلوم ہوا کہ آج شہر میں عورتوں کا ایک بڑا جلوس نکلنے والا ہے جس میں عورتیں بہ طور احتجاج اپنا سینہ کھلا رکھیں گی، ان کا کہنا ہے کہ جب مردوں پر سینہ چھپانا لازم نہیں ہے تو عورتوں کیلئے کیوں لازم ہے؟ 
  اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے نکاح کا نظام رکھا ہے؛ تاکہ ماں باپ کے ذریعہ بچے وجود میں آئیں، اس کے ذریعہ خاندان کی تشکیل ہوتی ہے، اور ہر انسان کو اپنی پہچان حاصل ہوتی ہے، مشرقی سماج میں اگر کسی کے باپ کا پتہ نہیں ہو تو یہ اس کے لئے آخر ی درجہ عار کی بات ہوتی ہے؛ مگر مغرب میں سنگل مدر (Single Mother) کا رواج عام ہو رہا ہے اور اس میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی اس لئے بن باپ کے بچوں کی کثرت ہے؛ لیکن اب اس سے آگے بڑھ کر کوشش کی جارہی ہے کہ کئی مردوں کے مادۂ تولید کو ملا کر مخلوط شکل میں عورت کے رحم تک پہنچایا جائے اور ایسا بچہ وجود میں لایا جائے، جس کی ماں تو ایک ہو؛ لیکن باپ ؟ سوالیہ نشان بنا رہے۔ 
 فطرت سے بغاوت کا یہ جذبہ ہر شعبہ ٔ زندگی میں نمایاں ہے، اسلام نے نفع حاصل کرنے کیلئے تجارت کا طریقہ رکھا ہے اور اگر کئی لوگوں کا سرمایہ ہو تو شرکت اور مضاربت کے طریقے مقرر کئے ہیں کہ مختلف لوگوں کا سرمایہ بھی ہو اور ان کی محنتیں بھی ہوں، نفع میں بھی سب کی شرکت ہو اور نقصان میں بھی سب کی شرکت ہو، یہ پوری طرح قانون فطرت کے مطابق ہے؛ کیونکہ کوئی بھی تجارت ہو، اس میں نفع ونقصان دونوں کا امکان یکساں رہتا ہے؛ لیکن مغرب نے اس پر سود کو ترجیح دی، ایک شخص سرمایہ لگائے، نفع تو حاصل کرے لیکن کاروبار کے نقصان سے بے پروا ہوجائے، اس میں یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ جیسے پودے از خود بڑھتے ہیں، اسی طرح روپیہ پیسہ بھی از خود بڑھتا ہے۔ یہ بھی فطرت کے خلاف ہے؛ کیونکہ روپے کے ساتھ جب تک انسان کی محنت شامل نہ ہو، روپیہ میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ مغرب نے سودی نظام کو اس قدر بڑھاوا دیا کہ بینک سود کے ذریعہ تو نفع حاصل کر سکتے ہیں اور ا پنے کھاتہ داروں کو نفع دے سکتے ہیں ؛ لیکن وہ کوئی بزنس نہیں کر سکتے۔ اس سودی نظام نے پوری دنیا میں دولت اور غربت کے فاصلے بڑھا دئیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی۔ 
 زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات میں مغرب کی اس سوچ کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو جن مقاصد کیلئے پیدا کیا ہے، ان میں ایک یہ ہے کہ وہ چیزوں کو صاف کر دیتا ہے؛ اسی لئے آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے پانی سے استنجاء کرنے کو فطرت کے تقاضوں میں شمار کیا ہے (مسلم عن عائشہؓ، حدیث نمبر: ۲۶۱) کیوں کہ پانی سے نجاست کا حجم بھی صاف ہوتا ہے، اس کے نہ نظر آنے والے چھوٹے چھوٹے اجزاء بھی دھل جاتے ہیں، بو‘ بھی ختم ہو جاتی ہے اور بیماریوں سے حفاظت ہو جاتی ہے مگر آج کل مغرب اور مغرب کے زیر اثر ملکوں میں پانی سے استنجاء کے بجائے ٹشو پیپر سے استنجاء کا عمومی ماحول ہوگیا ہے۔ افریقہ سے لے کر یورپ اور کنیڈا تک اس کا تجربہ ہوا کہ شاندار ائیرپورٹ ہے، ساری سہولتیں ہیں، پانی کی فراوانی ہے؛ مگر استنجاء کیلئے پانی نہیں ہے۔ 
 غرض کہ اگر اسلامی تمدن اور مغربی تمدن کے فرق کو سمجھنا ہے تو اس جہت سے جائزہ لینا چاہئے۔ اسلامی تمدن میں عقیدہ، عبادت، معاشرت، معیشت، خاندانی تعلقات، سماجی مراسم ہر جگہ شریعت اسلامی میں فطرت کی عکاسی نظر آتی ہے؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
 ’’پس آپ اپنا رخ اﷲ کی اطاعت کے لئے کامل یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں۔ اﷲ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)، اﷲ کی پیدا کردہ (سرشت) میں تبدیلی نہیں ہوگی، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے۔ (الروم: ۳۰)
 خالق کائنات کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق کائنات کی چیزوں کو استعمال کرنے میں انسان کی بھلائی ہے، اس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے، اور کسی بھی شعبۂ زندگی میں اگر انسان خالق کی بنائی ہوئی فطرت سے بغاوت کرتا ہے تو خود ہی اس کا نقصان اٹھاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے دھونے کے لئے پانی کو پیدا فرمایا ہے اور پکانے کے لئے آگ کو، اگر کوئی شخص آگ سے غسل کرے اور کپڑے دھونے لگے اور پکوان کی ہانڈی کے نیچے آگ سلگانے کے بجائے پانی کا پیالا رکھ دے تو کیا، وہ اس سے اپنا مقصد حاصل کر پائے گا؟ پہلی صورت میں اس کی جان جائے گی اور دوسری صورت میں وہ پکے ہوئے کھانے سے محروم ہوگا، یہی حال زندگی کے تمام شعبوں کا ہے۔ 
 اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو غذا بنانے سے منع فرمایا ہے، وہ فطری طور پر کھانے کے لائق نہیں ہیں، ان سے انسان کو جسمانی اور اخلاقی طور پر سخت نقصان پہنچتا ہے، جس کی واضح مثال شراب اور خنزیر ہے؛ اس لئے کہ یہ فطرت کے خلاف ہے اور پوری دنیائے علم انسانی صحت پر اس کے مضر ہونے پر متفق ہے، یہی حال زندگی کے تمام شعبوں کا ہے، اسلام دین فطرت ہے اور عقیدہ وعبادت سے لے کر معاشرت ومعیشت تک اس کے تمام احکام قانون فطرت پر مبنی ہیں، اور اس کی مخالفت نہ صرف اللہ کو ناراض کرنے والی ہے؛ بلکہ دنیا میں بھی انسان کیلئے سخت نقصان اور خسران کا باعث ہے؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک طرح کی خود کشی ہے، اور مغربی دنیا اس اجتماعی خود کشی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 
 مسلمانوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دین سے نوازا ہے، جس میں آخرت کی کامیابی تو ہے ہی، دنیا کی فلاح وبہبود بھی ہے اور اس راستہ سے انحراف دنیا وآخرت دونوں کیلئے مصیبت اور نقصان کا باعث ہے؛ مگر افسوس مشرقی قومیں مغرب کی علم وتحقیق کی کامیابی اور تمدنی ناکامی اور فکری نامرادی میں فرق نہیں کر پاتی ہیں، اور مغرب کی طرف سے آنے والی ہر چیز پر اس طرح لبیک کہتی ہیں کہ گویا یہ کامیابی کی ضمانت اور ترقی کی معراج ہے۔ اگر وہ غور و فکر کو راہ دیں اور دیانتداری سے تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ بہت سے مغربی رجحانات میں سراسر نقصان ہے۔ مغربی ملکوں کا جو گاہے گاہے سفر کا موقع ملا، اس نے اس بات کو ذہن پر نقش کر دیا کہ مغرب کی سائنسی ترقیات نے یقیناً ان کے عشرت کدوں کو سجایا سنوارا ہے؛ لیکن فکری و اخلاقی بحران اور اس کے سبب تہذیبی انحراف نے ان کی زندگی کو بے سکون اور بے مقصد بنا دیا ہے، یہ الگ بات کہ اُن میں بہت کم ہیں جو اسے تسلیم کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK