معاشرتی نظام کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے اور اس کے استحکام اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس تعلق سے تجزیاتی مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلامی معاشرتی نظام ایک مکمل، متوازن اور فطری نظام ہے جو انسان کی روحانی، جسمانی، سماجی اور معاشی ضروریات کو مدنظر رکھتا ہے۔
معاشرتی نظام کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے اور اس کے استحکام اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس تعلق سے تجزیاتی مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلامی معاشرتی نظام ایک مکمل، متوازن اور فطری نظام ہے جو انسان کی روحانی، جسمانی، سماجی اور معاشی ضروریات کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، عصر حاضر کا مادیت پرست کلچر انسانی اقدار کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف دنیاوی فوائد اور مادی ترقی پر زور دیتا ہے، جو معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی زوال کا سبب بن رہا ہے۔
اس تمہید کی بنیاد پر آئیے ہم اسلامی معاشرتی نظام بالخصوص اس کی خوبیوں کا جائزہ لیتے ہیں:
(۱) انسانیت کی بنیاد پر مساوات: اسلامی معاشرتی نظام اخوت اور مساوات کے اصول پر مبنی ہے جہاں ہر انسان کو برابر حقوق حاصل ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات:۱۳) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور ان کے درمیان تفریق تقویٰ اور کردار کی بنیاد پر ہے، نہ کہ نسل، قومیت یا جنس کی بنیاد پر۔ اسی طرح ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے۔‘‘ (سورۃ الاسراء: ۷۰)۔ یہ آیت بغیر کسی تفریق کے تمام انسانوں کی عزت اور احترام کی ضمانت دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قرآن مجید کا مرکزی موضوع انسان کی ہدایت ہے
(۲) خاندانی نظام کی اہمیت: اسلام خاندانی نظام کو سماج کی بنیاد قرار دیتا ہے اور اس کی حفاظت کیلئے نکاح، حقوق والدین اور تربیت ِ اولاد پر زور دیتا ہے۔ جیسا کہ والدین کے تعلق سے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو (سورۃ الاسراء:۲۳)۔ اس آیت میں والدین کے احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اللہ کی عبادت کے بعد اہم ترین عمل قرار دیا گیا ہے، جو خاندانی نظام کی بنیاد ہے۔ اسی طرح اولاد کی تربیت کے تعلق سے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘(سورۃ التحریم:۶) اس آیت میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی دینی اور اخلاقی تربیت کریں، تاکہ وہ آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں۔ اس سے آگے ہمیں بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کے تعلق سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ملتا ہے:’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا ہو، اور میں تم میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے اچھا ہوں۔‘‘(جامع ترمذی) یہ حدیث اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ خاندانی نظام کی کامیابی کیلئے شوہر کا اپنی بیوی اور اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہے۔
(۳) عدل و انصاف: اسلامی نظام عدل و انصاف کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں لازم قرار دیتا ہے۔ اس نظام میں کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہوتا۔ یہ اصول معاشرتی استحکام اور مساوات کا ضامن ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی یہ آیت بہت جامع ہے: ’’اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے خلاف ہی ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے۔‘‘ (سورۃ النساء: ۳۵)۔ یہ آیت مسلمانوں کو ہر حال میں انصاف قائم کرنے کی تاکید و تلقین کرتی ہے، چاہے وہ حالات کیسے بھی ہوں۔ چاہے معاملہ خود پر ہو، والدین پر ہو یا قریبی رشتہ داروں پر، انصاف کی پابندی واجب ہے۔ یہاں انصاف کو ذاتی مفادات یا جذبات کی بجائے اللہ کی رضا کے مطابق انجام دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برادرانِ اسلام سے زیادہ برادرانِ وطن میں تعارفِ اسلام کی فکر کیجئے!
(۴) روحانیت اور اخلاقیات: اسلامی معاشرتی نظام اخلاقی اور روحانی اقدار پر مبنی ہے، جو انسان کو خودغرضی اور بدعنوانی سے بچاتا ہے۔ یہ نظام اللہ کی رضا کو مرکزیت دیتا ہے، جو انسان کو دنیاوی لالچ سے دور رکھتا ہے۔ روحانیت کے تعلق سے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یقیناً کامیاب ہو گیا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا، اور ناکام ہو گیا وہ جس نے اسے آلودہ کر دیا۔‘‘(سورۃ الشمس:۱۰۔۹ ) یہ آیت روحانیت کی بنیاد تزکیۂ نفس پر رکھتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی کو ملے گی جو اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کرے اور نیک اعمال اختیار کرے۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے تو یہ اسلامی زندگی کی بنیاد ہی ہے۔ سرکار دو عالم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’بے شک تم میں سب سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔‘‘(بخاری)
(۵) معاشرتی بہبود: اسلام صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات کے ذریعے معاشرتی فلاح و بہبود کو فروغ دیتا ہے، تاکہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔ اس تعلق سے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے۔‘‘(البقرہ:۱۷۷)
اسلامی معاشرتی نظام کی خوبیوں پر ایک نظر ڈالنے کے بعد آئیے، عصر ِ حاضر کے مادیت پرست کلچر کے نقصانات کو بھی سمجھیں تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے:
(۱) انسانی اقدار کا زوال: مادیت پرست کلچر میں انسانی اقدار ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ لوگوں کی توجہ مادی چیزوں کے حصول پر مرکوز ہے، جس کی وجہ سے اخلاقی اصولوں اور روحانی سکون کا فقدان ہے۔
(۲)خاندانی نظام کا بگاڑ: مادیت پرستی نے خاندانی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ طلاق کی شرح میں اضافہ، والدین اور بچوں کے درمیان دوری اور اپنے خول میں سمٹ جانا یا بند رہنا اس کے واضح اثرات ہیں۔
(۳) ذہنی دباؤ اور بے سکونی: مادی خواہشات کی دوڑ میں انسان ذہنی دباؤ، بے سکونی اور ڈپریشن کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ مادیت پرستی سکون قلب کے بجائے اضطراب اور پریشانی کا باعث بنتی ہے۔
(۴) معاشرتی عدم مساوات: مادیت پرستی نے معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بڑھا دیا ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے بے شمار سماجی مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، اور جرائم کو جنم دیا ہے۔
(۵) اخلاقی گراوٹ: مادیت پرست کلچر میں اخلاقیات کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، بے وفائی اور خود غرضی کو اب معمول سمجھا جاتا ہے جو معاشرتی تعلقات کو زبردست نقصان پہنچا رہا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرتی نظام ایک متوازن اور ہمہ جہت نظام ہے جو انسانی ضروریات کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف عصرِ حاضر کا مادیت پرست کلچر بظاہر ترقی کا علمبردار ہے لیکن اس کے نقصانات نے انسانی زندگی کو غیر متوازن اور پریشان کر دیا ہے۔ اگر انسانیت کو پائیدار سکون اور ترقی چاہئے تو اسلامی معاشرتی نظام کی طرف رجوع ضروری ہے، جو ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔