• Fri, 10 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

قرآن مجید کا مرکزی موضوع انسان کی ہدایت ہے

Updated: January 10, 2025, 8:48 PM IST | Professor Khursheed Ahmed | Mumbai

ہدایت سے کامیابی کا رشتہ ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ ہے ایمان قبولیت اور اطاعت کا۔ اس کا لازمی حصہ یہ ہے کہ اس ہدایت پر خود بھی عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا جائے کہ حق نور، میزان اور نسخہ شفا کا یہ فطری تقاضا اور مطالبہ ہے۔

The basic call of the Quran is that man should become a servant of Allah and dedicate his worship and obedience to Allah alone. Photo: INN
قرآن کی بنیادی دعوت ہی یہ ہے کہ انسان اللہ کا بندہ بن جائے اور اپنی عبادت اور اطاعت کو صرف اللہ کے لئے خالص کرے۔ تصویر: آئی این این

اللہ،اس کے رسولوں اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ تو سب ہی الہامی ادیان کے پیرو کرتے ہیں لیکن جو چیز امت مسلمہ کو دوسروں سے ممتاز اور ممیز کرتی ہے وہ قرآن اور سب سے سچے انسان محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان ہے جن پر قرآن نازل ہوا اور جو قرآن کا سراپا تھے۔ توحید، رسالت اور آخرت کا بھی وہی تصور معتبر ہے جو پہلے قرآن اور صاحب قرآن نے پیش کیا ہے۔ یہی حق و باطل کی کسوٹی اور فرقان ہے۔ ہدایت کا اب ایک اور صرف ایک منبع ہے اور وہ قرآن اور سنت ِصاحب قرآن ہے۔ یہی ماضی میں ملنے والی ہدایت کا مصدق اور میمن ہے اور یہی مستقبل کے لئے مشعل راہ ۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا وہ ازلی اور ابدی کلام ہے جو اس نے اپنے سچے اور آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  پر نازل فرمایا۔ یہ اللہ کی طرف سے بھیجی جانے والی ہدایت کا مجموعہ ہے۔ اس میں عقائد ، عبادات، انفرادی و اجتماعی اخلاق اور نجی اور تہذیبی زندگی کے لئے وہ رہنمائی فراہم کی گئی ہے جو وحی کے سوا کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہ علوم و معارف کا گلدستہ ہی نہیں ، اوامر و نواہی اور وعده و وعید کا کامل مرقع ہے اور انبیائے سابقین پر نازل ہونے والے صحیفوں اور کتب کا عطر اور خلاصہ ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے اصول و اسباب بھی اس میں اس طرح بیان کر دیئے گئے ہیں کہ ماضی سے عبرت حاصل کی جاسکے اور مستقبل کی تعمیر حق و انصاف اور خیر اور صداقت کی بنیادوں پر کامیابی سے کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھئے: برادرانِ اسلام سے زیادہ برادرانِ وطن میں تعارفِ اسلام کی فکر کیجئے!

قرآن نے خود اپنے کو جن ناموں اور صفات سے روشناس کرایا ہے ان کی تعداد ۵۰؍ (کچھ دوسرے اصحاب تحقیق کی رائے میں  ۹۹؍) ہے جو ان پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں جن سے قرآن اور اس کا پیغام عبارت ہے۔ خود قرآن کے پیغام کو سمجھنے اور اس سے صحیح بنیادوں پر رشتہ استوار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ قرآن خود اپنے کو کس رنگ میں پیش کرتا ہے اور اس کی روشنی میں انسانی زندگی میں اس عظیم کتاب کا کیا کردار سامنے آتا ہے۔

 پانچ ناموں کا قرآن میں بکثرت ذکر ملتا ہے: القرآن (وہ صحیفہ جو پڑھا جاتا ہے)، الکتاب (وہ مجموعہ جو مرتب و مدون ہے اور جو قانون کا درجہ رکھتا ہے)، الفرقان (وہ جو حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے اور ان کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے)  الذکر (جو نصیحت اور یاد دہانی کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کیلئے پند و نصائح سے عبارت ہے) اور الھدیٰ یعنی ہدایت  اور رہنمائی۔  قرآن کا مرکزی موضوع انسان کی ہدایت ہے، اس لئے اسے الہدیٰ قرار دیا گیا ہے: ’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے۔‘‘ (البقرہ:۲)   ’’جبرئیل نے اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مؤمنوں کے لئے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے۔‘‘ (البقرہ:۹۷)  ’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۵)  قرآن کتاب ہدایت ہے اور الھدیٰ ہونے کیلئے جس جس شرط اور صفت کی ضرورت تھی، ان سب کی جامع ہے۔

 (۱) ہدایت کیلئے سب سے پہلی ضرورت یہ تھی کہ وہ خالق کائنات کی طرف سے ہو ، کسی انسان یا انسانوں کے ذہن کی پیداوار نہ ہو۔ قرآن صرف اللہ کا کلام اور اس کی نازل کردہ وحی کا مجموعہ ہے جس میں نہ ایک شوشے کا اضافہ ہوا اور نہ کمی : ’’اِس کتاب کا اتارا جانا اللہ کی طرف سے ہے جو غالب ہے، خوب جاننے والا ہے ۔‘‘(المومن:۲:)   ’’اس کتاب کا اتارا جانا، اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔‘‘  (السجدہ:۲) ’’بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ (الحجر:۹)

یہ بھی پڑھئے: انسانی حقوق کی پاسداری تب ہی ممکن ہوتی ہے جب اس کی تعلیم گھر کے ہر فرد کو دیجائے

(۲) ہدایت کے لئے ضروری تھا کہ وہ علم اور حق پر مبنی اور علم اور حق کا مرقع ہو جسے ثبات اور دوام حاصل ہو اور جو ضرور زمانہ سے متاثر نہ ہوتا ہو بلکہ زمانے کا صورت گر ہو: ’’اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘ (الاعراف: ۵۲) ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو حکم بنا کر عربی زبان میں اتارا ہے، اور (اے سننے والے!) اگر تو نے ان (کافروں) کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ تیرے پاس (قطعی) علم آچکا ہے تو تیرے لئے اﷲ کے مقابلہ میں نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی محافظ۔‘‘ (الرعد: ۳۷)  ’’اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور (عدل و انصاف کا) ترازو (بھی اتارا)۔‘‘ (الشوری:۱۷)  ’’اﷲ نے کتاب حق کے ساتھ نازل فرمائی۔‘‘  (البقرہ: ۱۷۶)

 (۳) ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف شک و شبہ سے بالا ہی نہ ہو بالکل صاف اور واضح بھی ہو۔ کھلی کھلی نشانیوں سے عبارت اس کی رہنمائی دو اور دو چار کی طرح نمایاں اور حق کے ہر متلاشی کے لئے کھلی کتاب کے مانند ہو:  ’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔‘‘ (النحل:۸۹)  ’’(اِس) کتاب کا جس کی آیات واضح طور پر بیان کر دی گئی ہیں علم و دانش رکھنے والی قوم کے لئے عربی (زبان میں) قرآن (ہے)، خوشخبری سنانے والا ہے اور ڈر سنانے والا ہے، پھر ان میں سے اکثر لوگوں نے رُوگردانی کی سو وہ (اِسے) سنتے ہی نہیں ہیں۔‘‘ (حمٓ السجدہ:  ۳۔۴)  ’’اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)، اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر  روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے۔‘‘ (المائدہ:۱۶۔۱۵)

یہ بھی پڑھئے: دین پر استقامت درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے

(۴)ہدایت ہی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور صحیح اور غلط کے لئے کسوٹی ہے۔ یہی وہ میزان ہے یعنی اللہ کی شریعت جو ترازو کی طرح تول کر صحیح اور غلط ، حق اور باطل، ظلم اور عدل، راستی اور ناراستی کا فرق واضح کر دیتی ہے اور یہی وہ قانون حیات اور دستور زندگی فراہم کرتی ہے جس پر چل کر انسان دنیا میں کامیاب اور آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے: ’’بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔‘‘ (الحدید:۲۵)  ’’(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو جائے۔‘‘ (الفرقان:۱)  ہدایت سے کامیابی کا رشتہ ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ ہے ایمان، قبولیت اور اطاعت کا۔ اس کا لازمی حصہ یہ ہے کہ اس ہدایت پر خود بھی عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا جائے کہ حق نور، میزان اور نسخہ شفا کا یہ فطری تقاضا اور مطالبہ ہے:  ’’اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (الانعام:۱۵۵)  ہدایت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں لیکن قرآن کے الھدیٰ ہونے کے چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے اس بابرکت کلام کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اس سے اپنا تعلق جوڑنے کی بنیادوں کی تفہیم ہو گی اور اس عظیم کتاب کے پیغام اور مشن تک رسائی میں مدد ملے گی۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن ایک کتاب ہدایت اور انسانی زندگی اور تاریخ انسانی میں انقلاب برپا کرنے والی دعوت اور تحریک کا داعی ہے۔

قرآن کی بنیادی دعوت یہ ہے کہ انسان اللہ کا بندہ بن جائے، اس کے سوا کسی کو الہ نہ بنائے، کسی دوسرے کی بندگی نہ کرے، عبادت اور اطاعت کو صرف اللہ کے لئے خالص کرے، دنیا کو مطلوب نہ بنائے اور آخرت کی کامیابی پر نگاہ کرے، اس سے دنیا بھی بنے گی اور آخرت بھی۔  اللہ کے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرے،  خیر کی طرف دعوت دے ، نیکیوں کی رغبت دلائے اور برائیوں کو نیست و نابود کرنے کی جدوجہد کرے۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس میں بندہ قرآن کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے گا اور ہر قدم پر قرآن کو اپنا راہنما اور ساتھی پائے گا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK