یہ دنیا تنوع اور رنگا رنگی کا ایک حسین مرقع ہے، جہاں خاک و گل سے تراشے گئے مختلف القماش انسان بستے ہیں۔ ہر فرد اپنی پسند، ذوق اور نفسیاتی میلان کے مطابق لباس کا انتخاب کرتا ہے، تاکہ اس کی شخصیت میں وہ تکمیلیت پیدا ہو، جو اسے سب سے نمایاں اور ممتاز بنا دے۔
انسان اپنی ذات کے حسن کو صرف ظاہری رنگت میں تلاش کرتا ہے، جبکہ قدرت نے حسن کو باطنی بالیدگی اور روحانی طہارت میں پوشیدہ رکھا ہے۔ تصویر: آئی این این
یہ دنیا تنوع اور رنگا رنگی کا ایک حسین مرقع ہے، جہاں خاک و گل سے تراشے گئے مختلف القماش انسان بستے ہیں۔ ہر فرد اپنی پسند، ذوق اور نفسیاتی میلان کے مطابق لباس کا انتخاب کرتا ہے، تاکہ اس کی شخصیت میں وہ تکمیلیت پیدا ہو، جو اسے سب سے نمایاں اور ممتاز بنا دے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا لباس، اس کا انداز، اس کی قامت اور اس کی رنگت سب مل کر ایسا مرقع بن جائیں جسے دیکھ کر دنیا واہ واہ کرے، آنکھیں خیرہ ہو جائیں، اور زبانیں مدح و ثنا میں رواں ہو جائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر حسن کا معیار فقط رنگ و روپ ہے، تو پھر یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کس رنگ کی جلد حسین ہے اور کس رنگ کی نہیں ؟
یہ سوال بظاہر سادہ ہے، مگر اپنے باطن میں انسانی فکر کو جھنجھوڑنے والی کئی جہتیں رکھتا ہے۔ حسن کا کوئی ایک رنگ نہیں، بلکہ ہر رنگ اپنے اندر ایک جہانِ دلکشی رکھتا ہے۔ اگر گندمی رنگ حسن سے محروم ہوتا تو سورج کی کرنیں زعفرانی نہ ہوتیں، اگر سیاہی میں جمال نہ ہوتا تو رات کی چادر میں چاندنی نہ بکھرتی، اور اگر سفیدی ہی معراجِ حسن ہوتی تو برف کی سپیدی میں گرمیِ احساس نہ پنہاں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن کا انحصار صرف رنگ پر نہیں، بلکہ اس جاذبیت پر ہے جو کسی چہرے میں معنویت پیدا کرتی ہے، کسی آنکھ میں الفت کی شمع جلاتی ہے، اور کسی مسکراہٹ میں جہانِ الفت و انس سمو دیتی ہے۔
حسن کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے محض ظاہری رنگت کا ترازو کافی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سنگِ مرمر کی بے جان سفیدی کو ہر دور میں معراجِ جمال تسلیم کیا جاتا اور گلاب کے سرخ لبوں پر کوئی عاشقِ زار نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن ایک لطیف احساس کا نام ہے، جو کبھی گہری سیاہی میں چمک بن کر ظاہر ہوتا ہے، تو کبھی زعفرانی رنگت میں نور کی کرن بن کر جھلملاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:اسلامی تعلیم تمام انسانی امورمیں اخلاقی اصولوں کی روح کو رواں دواں دیکھنا چاہتی ہے
یہ بھی کیسا عجب المیہ ہے کہ انسان اپنی ذات کے حسن کو صرف ظاہری رنگت میں تلاش کرتا ہے، جبکہ قدرت نے حسن کو باطنی بالیدگی اور روحانی طہارت میں پوشیدہ رکھا ہے۔ اصل حسن وہ ہے جو چہرے پر سکون کی چادر بچھا دے، آنکھوں میں طمانیت کی شمع جلا دے، اور وجود میں وہ کشش پیدا کر دے جو روحوں کو مسحور کر دے۔
یہ دنیا، جو آج رنگت کو حسن کا معیار بنائے بیٹھی ہے، کبھی سوچے کہ صحرا کے سنہری ذرّات، چنار کے سرخ پتّے، سمندر کی نیلگوں وسعتیں، شب ِ دیجور کی گہری سیاہی اور برف پوش چوٹیوں کی چمک، یہ سب حسن کی مختلف صورتیں ہیں۔ اگر رنگ حسن کی کسوٹی ہوتا، تو قدرت نے یہ سب تنوع کیوں پیدا کیا؟ اگر سفیدی ہی معراجِ جمال ہوتی تو زرد چاندنی راتوں میں سحر کیوں اترا کرتی؟ اگر سیاہی بدصورتی کی علامت ہوتی تو حرمِ کعبہ کی سیاہ چادر دیکھ کر دل کیوں مچلتے؟
حقیقت یہی ہے کہ حسن کوئی جامد حقیقت نہیں، بلکہ ایک متغیر تجربہ ہے جو ہر نظر کے زاویے سے بدلتا ہے۔ یہ کسی ایک رنگ، کسی ایک خدوخال، کسی ایک ظاہری ترتیب کا محتاج نہیں، بلکہ یہ اس حسنِ باطن سے جنم لیتا ہے جو انسان کے اخلاق، اس کے کردار، اس کے علم، اس کی دانائی، اس کی محبت اور اس کے ظرف میں پنہاں ہوتا ہے۔ حسن، ایک ایسا لطیف مگر پُراسرار تصور ہے، جس کی حقیقت ازل سے انسانی فکر کو متحیر کرتی رہی ہے۔ اگر حسن کا معیار کسی ایک رنگ کو قرار دے دیا جائے تو ناگزیر ہے کہ باقی تمام رنگ بدصورتی کے زمرے میں آجائیں حالانکہ فطرت نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ ہر رنگ اپنی جگہ ایک انفرادیت رکھتا ہے، ہر چہرہ اپنے نقوش میں ایک الگ کہانی سموئے ہوئے ہے، اور ہر وجود میں ایک مخصوص کشش پنہاں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حسن تو سبھی میں ہوتا ہے، مگر اس میں نکھار کسی کسی میں آتا ہے، اور یہی نکھار کسی کو ’’حسین‘‘ ہونے کا شرف عطا کرتا ہے۔ مگر یہ نکھار کسی رنگ کی عطا نہیں، بلکہ کردار کی آب و تاب، اخلاق کی رفعت، قلب کی پاکیزگی اور روح کی تابندگی سے جنم لیتا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جلد کا حسن محض وقت کی ایک عارضی عطا ہے، جو دن بہ دن ماند پڑتی جاتی ہے۔ شباب کی دہلیز پار کرتے ہی رخسار کی چمک ماند پڑ جاتی ہے، آنکھوں کی روشنی مدھم ہو جاتی ہے، اور وہی چہرہ جو کبھی حسن کا استعارہ تھا، دیکھنے والوں کو بوجھل کر دیتا ہے۔
یہی وہ تلخ حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں کہ آج حسن کی معراج رنگت نہیں، دولت بن چکی ہے! وہی معاشرہ جو کل تک سفید رنگ کو حسن کی علامت سمجھتا تھا، آج بینک بیلنس اور اسٹیٹس کو معیارِ حسن مان چکا ہے۔ انسان کی ظاہری رنگت بدل سکتی ہے، مگر اس کی جیب کی چمک اگر برقرار ہو، تو بڑھاپا بھی جاذبِ نظر بن جاتا ہے، اور اگر دولت نہ ہو، تو جوانی بھی نظرانداز ہو جاتی ہے۔ اب حسن، رنگت کا نہیں، مال و زر کا کھیل بن چکا ہے۔ لیکن کیا یہی حسن ہے؟ کیا چہرے کی تازگی اور جیب کی بھاری رقم ہی انسان کے خوبصورت ہونے کا اصل معیار ہے؟
نہیں ! حسن وہ ہے جو دلوں پر حکمرانی کرے، جو روحوں کو مسخر کرے، جو نظر کو نہیں، دل کو خیرہ کرے۔ حسن وہ ہے جس کی بنیاد اخلاق کی رفعت پر ہو، جس کا جوہر صلہ رحمی اور اخوت و ہمدردی ہو، جس کی پہچان عدل و انصاف، غیرت و حمیت اور طہارتِ قلب ہو۔ وہی حسن حقیقی ہے، جو کسی کی تڑپتی روح پر مرہم رکھ سکے، جو کسی درماندہ کے زخموں کا مداوا کر سکے، جو آزمائش میں گھِرے افراد کے کندھے پر تسلی کا ہاتھ رکھ سکے، اور جو انسان کو اس کے خالق سے جوڑنے کا ہنر سکھا سکے۔ افسوس! آج معیارِ حسن اتنا بدل چکا ہے کہ یہ تلخ حقیقت ایک شعر میں یوں سمٹ گئی ہے:
جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
یہی المیہ ہے کہ حسن اب جمالِ باطن میں نہیں، بلکہ زر کی جھنکار میں تولہ جاتا ہے۔ عیوب ہنر بن جاتے ہیں، اور جوہرِ انسانیت مسمار ہو جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ حسن، روپ کی چمک نہیں، کردار کا نور ہے! وہ نور، جو نہ وقت کی گرد سے ماند پڑتا ہے، نہ جھریوں کی شکنوں میں کھو جاتا ہے، اور نہ ہی دولت کی چمک سے مٹایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ حسن ہے جو انسان کو نورِ ہدایت عطا کرتاہے، جو عقل کو جِلا بخشتا اور نگاہوں میں وقار پیدا کرتا ہے جو صدیوں تک باقی رہتا ہے، اور ہر دور میں دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔