• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نبی کریم ؐکی ذہانت و فراست اور حسنِ تدبیر کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا تھا

Updated: August 23, 2024, 4:20 PM IST | Syed Abul Ala Maududi | Mumbai

مکّی دور کے آغاز سے ہجرت تک کی تاریخ پر ایک مجموعی جائزہ میں ، جس کا پہلا حصہ گزشتہ ہفتے پیش کیا گیا تھا، زیر نظر قسط میں آپؐ کا مالی ایثار، بے نظیر شجاعت، عالی ظرفی اور قول و فعل میں کامل مطابقت جیسے اوصاف ملاحظہ کیجئے۔

Even before prophethood, he used to spend generously on helping the needy, helping the destitute and providing hospitality to travelers. Photo: INN
نبوت سے قبل بھی آپؐ نہایت دریا دلی کے ساتھ حاجت مندوں کی مدد، بے کسوں کی دستگیری اور مسافروں کی مہمان نوازی پر خرچ کرتے تھے۔ تصویر : آئی این این

نبوت کے بعد آپؐ کے اوصافِ عالیہ کا ظہور
 کسی تحریک کا آغاز ہی اگر ایسی عظیم و جلیل ہستی کی رہنمائی میں ہوتو یہ بجائے خود بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن شروع ہونے کے وقت سے ۱۳؍ سال تک اِس ابتدائی سرمایے میں جو مزید اضافے ہوئے، وہ اتنے قیمتی تھے کہ انسانی تاریخ اُن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے خود رسول اللہ ﷺکے اُن اوصاف کو دیکھئے، جو اِس دور میں نمایاں ہوکر سامنے آئے اور سب سے بڑھ کر اِس دعوت کو فروغ دینے کے موجب بنے۔ 
آپؐ کا مالی ایثار: آپؐ کا اوّلین وصف وہ ایثار تھا، جو آپؐ نے اِس کارِ عظیم کے لئے کیا۔ آغازِ نبوت کے وقت آپؐ ایک نہایت کامیاب اور خوش حال تاجر تھے۔ ایک طرف حضرت خدیجہؓ کا مال تھا جو قریش کے دوسرے تاجروں کے مجموعی مال سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف آپؐ کی ذہانت و فراست اور حسنِ تدبیر اور راست بازی کی ساکھ تھی، جس کا مقابلہ کوئی دوسرا نہ کرسکتا تھا۔ یہ دونوں چیزیں جس کاروبار میں یک جاہوگئی ہوں، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیسی زبردست ترقی کر رہا ہوگا۔ لیکن نبوت سے پہلے اس مال کو حضورؐ اور آپؐ کی شریکِ حیاتؓ نے محض اپنے عیش و آرام کے لئے مخصوص نہیں کر رکھا تھا، بلکہ نہایت دریا دلی کے ساتھ آپؐ حاجت مندوں کی مدد، بے کسوں کی دستگیری اور مسافروں کی مہمان نوازی پر خرچ کرتے رہے تھے اور ہر کارِ خیر میں آپؐ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اِس لئے آغازِ نبوت میں کوئی بہت بڑا اندوختہ آپؐ کے پاس نہ تھا۔ 
پھر جب فرائض نبوت کا بار آپؐ پر ڈالا گیا تو رفتہ رفتہ آپؐ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دیا، اور آپؐ کے لئے یہ ممکن نہ رہا کہ تبلیغِ دین کے ساتھ اپنی تجارت بھی چلا سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جب آپؐ طائف تشریف لے گئے تو آپؐ کو پیدل ہی جانا پڑا، کوئی سواری آپؐ کومیسر نہ تھی۔ ہجرت کی تو اس کے سارے مصارف حضرت ابوبکرؓ نے برداشت کئے، حتیّٰ کہ اہل و عیال کو مدینے بلانے کےلئے بھی آپؐ کو ۵۰۰ درہم جنابِ ابوبکر صدیقؓ سے لینے پڑے۔ آپؐ کا دست مبارک درہم و دینار سے بالکل خالی تھا۔ 
ظاہر ہے کہ جب ایک دعوت کا پیش کرنے والا خود اُس دعوت کے کام پر اپنے ذاتی مفاد کو اس طرح قر بان کر رہا ہو، تو ہر دیکھنے والا اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل مخلص اور بے غرض ہے، حتیّٰ کہ دشمن اور مخالف تک زبانوں سے خواہ کچھ ہی کہتے رہیں، اپنے دلوں میں یہ مان جاتے ہیں کہ اِس دعوت کے ساتھ اُس کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کے ساتھ آتے ہیں، ان کے لئے ان کے رہنما کی مثال ایسی سبق آموز ہوتی ہے کہ وہ بھی حق کو محض حق ہونے کی بناپر مانتے ہیں، کسی ذاتی غرض کا لوث ان کے ایمان کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہوتا، اور ایثار و قربانی میں بھی وہ اپنے ہادی و رہبر کی پیروی کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: معوذتین کی تلاوت

آپؐ کا زبردست عزم:دوسری چیز آپؐ کے عزم کی پختگی تھی، جسے مشکلات و مصائب اور مخالفتوں کا کوئی بڑے سے بڑا طوفان بھی شکست نہ دے سکا، جسے نہ کوئی خوف اپنی جگہ سے ہٹاسکا، نہ کوئی لالچ پھسلا کر راہِ حق سے منحرف کرسکا، اور نہ کسی قسم کے سخت سے سخت حالات مایوسی و دل شکستگی میں تبدیل کرسکے۔ وہ آپؐ کی پہاڑ جیسی استقامت ہی تھی جس سے ٹکرا کر ساری مخالف طاقتیں آخرکار اس بات سے مایوس ہوگئیں کہ اپنے کسی حربے، کسی مظاہرۂ قوت، کسی ظلم و ستم، کسی تحریص و ترغیب، کسی افترا پردازی اور الزام تراشی کی مہم، اورکسی بُرے سے بُرے ہتھکنڈے کے ذریعہ وہ آپؐ کو اس کام سے باز رکھ سکیں گے، جسے لے کر آپ اُٹھے ہیں۔ دیکھنے والے آپؐ کی اس اُولوالعزمی کو سال ہا سال تک بالکل بے لچک پاکر یہ اثرلئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے حق پر ہونے کا کامل یقین نہ ہو، اورجب تک کوئی شخص ذاتی اغراض کی کھوٹ سے بالکل پاک نہ ہو، وہ اپنے عزم میں اتنا مضبوط نہیں ہوسکتا۔ اِسی چیز نے آپؐ کے ساتھیوں میں بھی ایمان کی مضبوطی اور راہِ حق میں استقامت پیداکی، او راسی نے تمام غیر جانب دارلوگوں کو بھی قائل کر دیا کہ آپؐ جو دعوت پیش کررہے ہیں، وہ خالص حق پرستی پرمبنی ہے۔ 
آپؐ کی بـے نظیر شجاعت: تیسری چیزآپؐ کی بے خوفی اور شجاعت و بہادری تھی کہ جو کسی بڑی سے بڑی طاقت سے دب جانا اور کسی بڑے سے بڑے خطرے سے ڈر جانا، جانتی ہی نہ تھی۔ کفارِ قریش کا ایک بپھرا ہوا مجمع آپؐ کو حرم میں تنہا گھیر لیتا ہے اور آپؐ سے کہتا ہے کہ ’تم وہ ہو جو یہ کہتے ہو، اور تم وہ ہو جو یہ کہتے ہو۔ ‘ ان ساری باتوں کے جواب میں آپؐ بے جھجک فرماتے چلے جاتے ہیں کہ ’ہاں، میں یہ کہتا ہوں اور میں یہ بھی کہتا ہوں۔ ‘ جان کے دشمن لوگوں میں اپنے آپ کو گھرا ہوا پانے کے باوجود آپؐ پر ذرا بھی گھبراہٹ تک طاری نہیں ہوتی۔ 
غارِ ثور کے عین دہانے پر دشمن پہنچ جاتے ہیں ، اور آپؐ پورے اطمینان کے ساتھ اُس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ ظالم اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپؐ بڑے ٹھنڈے دل سے، کسی ادنیٰ درجے کی پریشان خاطری کے بغیر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکر! تمہارا اُن دو آدمیوں کے متعلق کیا خیال ہے جن میں تیسرا اللہ ہو؟ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘ دشمنوں نے آپؐ کے سرِ مبارک کے لئے انعام مقرر کر رکھا ہے۔ ہر طرف انعام کے لالچ میں آپؐ کی تلاش کے لئے لوگ دوڑے پھر رہے ہیں اور آپؐ اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سفر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی طرف مڑکر بھی یہ نہیں دیکھتے کہ کہیں کوئی تعاقب میں تو نہیں چلا آرہا ہے۔ 
ایسے بہادر رہنما کے ساتھ بہادر لوگ ہی آتے ہیں، اور اس کی بہادری دیکھ دیکھ کر ان کی بہادری میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ 
آپؐ کی عالی ظرفی:چوتھا اہم ترین وصف آپؐ کاصبر وتحمل، ضبطِ نفس اور بلند حوصلہ تھا۔ آپؐ مخالفین کی کسی رکیک سے رکیک حرکت پر بھی کبھی غصے میں آپے سے باہر نہ ہوئے، کسی گالی کا جواب آپؐ نے گالی سے نہ دیا۔ کسی بدزبانی اورکسی بےہودہ الزام کے جواب میں آپؐ کی زبانِ مبارک سے ایک لفظ بھی شائستگی سے گرا ہوا نہ نکلا۔ دشمنوں نے بارہا ایسی حرکتیں کیں، جو سخت دل آزار، سخت توہین آمیز اور سخت اشتعال انگیز تھیں، مگر آپؐ بڑی عالی ظرفی کے ساتھ ہر بات کوپی گئے، اور ان کی برائی کا جواب برائی کے بجائے بھلائی ہی سے دیتے رہے۔ مکہ معظمہ کے طویل دورِ مصائب میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں تہذیب و شرافت کا دامن آپؐ کے ہاتھ سے چھوٹ گیاہو۔ 
یہ وہ چیزتھی جو گرد وپیش کے معاشرے میں آپؐ کا اخلاقی وقار بڑھاتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کو ہر اُس شخص کی نظر سے گراتی چلی گئی، جس کے اندر ذرہ برابر بھی اخلاق و شرافت کا کوئی جوہر موجود تھا۔ طائف سے زیادہ سخت وقت آپؐ پر کبھی نہ گزرا تھا۔ مگر اُس وقت بھی آپؐ کے دل اور زبان سے دعا ہی نکلی اور آپؐ اس پر راضی نہ ہوئے کہ اس ظلم کے بدلے میں ظالموں پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میدانِ جنگ سے پہلے اخلاق کے میدان میں آپؐ اپنے مخالفوں کو شکست دے چکے تھے، اور اس شکست پر آخری مہر اُس وقت لگ گئی جب قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی آپؐ نے اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کو واپس دینے کی فکر فرمائی۔ کوئی بالکل ہی مردہ ضمیر ہوگا جو اس کردار کو دیکھ کر اپنے دل میں مان نہ گیا ہو کہ جاہلیت کے حامی اُس شخص سے لڑ رہے ہیں، جو ان کی قوم ہی کا نہیں، ساری دنیا کا شریف ترین انسان ہے۔ 
اسلامی تحریک میں شامل ہونے والوں کی اخلاقی تربیت کے لئے بھی ہزار وعظوں سے بڑھ کر اپنے ہادی و رہبر کی یہ عملی مثال مؤثر تھی۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ جس نے بھی آپؐ کی پیروی اختیار کی وہ اخلاق کے اعتبار سے اپنے معاشرے میں اتنا بلند ہوگیا کہ ہر دیکھنے والا علانیہ بُت پرست اور خُدا پرست کے فرق کو دیکھ سکتا تھا۔ 
آپؐ کے قول اور عمل میں کامل مطابقت:پانچواں ، اور سب سے زیادہ اہم وصف یہ تھا کہ آپؐ کے قول اور عمل میں برائے نام بھی کوئی تضاد نہ تھا۔ جو کچھ آپؐ کہتے تھے وہی کرتے بھی تھے۔ جن چیزوں کو آپؐ نے برا کہا اور لوگوں کو اُن سے منع کیا، اُن کا ادنیٰ شائبہ تک آپؐ کی سیرت و کردار میں نہ پایا جاتا تھا۔ 
مکے کے لوگ آپؐ کی گھر سے باہر کی زندگی ہی کو نہیں، گھر کے اندر کی زندگی کو بھی دیکھ سکتے تھے، کیوں کہ ان میں کتنے ہی لوگ آپؐ کے والد ماجد، یا آپؐ کی والدۂ ماجدہ، یا آپؐ کی اہلیہ محترمہ کے رشتے دار تھے۔ لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ آپؐ دوسروں کو جن برائیوں سے روکتے ہیں وہ، یا ان میں سے کوئی ایک کم سے کم درجے کی برائی بھی آپؐ کی اپنی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جن نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف آپؐ لوگوں کو دعوت دیتے تھے، سب سے بڑھ کر آپؐ خود اُن پر عمل پیرا تھے۔ آپؐ کی زندگی اُن کا مجسّم عملی نمونہ تھی۔ کوئی اس امر کی کبھی نشان دہی نہ کرسکا کہ آپؐ سے اُن بھلائیوں پر عمل کرنے میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی کوتاہی ظاہر ہوئی ہے۔ 
آپؐ کا تمام تعصبات سے پاک ہونا:چھٹا وصف جو اپنی اہمیت میں کسی دوسرے وصف سے کم نہیں، یہ تھا کہ آپؐ ہر تعصب سے پاک تھے۔ قبیلے، قوم، وطن، زبان، رنگ، نسل، غرض کسی چیز کا تعصب بھی آپؐ کے اندر نہ تھا۔ نہ آپؐ امیری و غریبی کے لحاظ سے انسان اور انسان کے درمیان فرق کرتے تھے، اور نہ معاشرتی مرتبے کی اونچ نیچ آپؐ کے لئے کوئی معنی رکھتی تھی۔ آپؐ انسان کو صرف انسان ہونے کی حیثیت سے دیکھتے تھے، اور انسانوں میں سے جو بھی حق کو قبول کرلیتا، اسے آپؐ کی جماعت میں بالکل برابر کا درجہ حاصل ہوتا تھا، خواہ وہ قریشی ہو یا غیرقریشی، خواہ وہ عرب کا ہو یا عجمی۔ ۔ 
 یہی وہ چیز تھی جس نے اسلامی تحریک کے یومِ آغاز ہی سے اس کے ایک عالم گیر تحریک ہونے کی بنا ڈال دی تھی، اُمتِ مسلمہ کو ایک بین الاقوامی اُمت کی حیثیت بخش دی تھی، اسلام قبول کرنے والوں کے اندر سے اسلام و کفر کے سوا ہر دوسری بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کا احساس مٹا دیا تھا اور ان کی جماعت میں غلام اور آزاد، غریب اور امیر، برتر اور کم تر، عرب اور غیر عرب، سب بالکل مساوی حیثیت سے شریک تھے، اور شریک ہوسکتے تھے جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہوں۔ عرب کے قلیل التعداد متکبروں کو چھوڑ کر باقی عام آبادی کے لیے یہ چیز اپنے اندر ایک فطری کشش رکھتی تھی، جو بالآخر کارگر ثابت ہوکر رہی۔ 
یہ تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اوصاف جو ۱۳؍ برس کے مکی دور میں ظاہر ہوئے اور جن کی زبردست قوتِ تاثیر سے دشمنوں کی ساری کوششوں کے علی الرغم اسلامی تحریک آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ مزید اوصافِ عالیہ ابھی آپؐ کے اندر مخفی تھے اور اپنے ظہور کے لئے دوسرے حالات کے متقاضی تھے جو آگے چل کر اسلامی تحریک کو مدینے میں میسر آئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK