• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم بخوشی مانیں، مجبوراً نہیں

Updated: August 31, 2024, 4:10 PM IST | Muhammad Naseem Naqshbandi | Mumbai

بخوشی یعنی بہ رضا و رغبت۔ یہ خوبی تب پیدا ہوتی ہے جب انسان یہ بات اپنے دل پر نقش کرلے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی تعمیل ہی میں خیر ہے، وہ بھی لامحدود خیر، اس فانی دُنیا میں بھی خیر اور اس کے بعد کی ہمیشہ رہنے والی دُنیا میں بھی خیر۔

The Muslim Ummah has been ordered to do good and avoid evil and this should be our mandate. Photo: INN
امت مسلمہ کو نیکی کے کام کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہی ہمارا منصب ہونا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

ہر انسان کوئی نہ کوئی عمل ضرور کرتا ہے مگر سب کے اعمال برابر نہیں ہوتے۔ اعمال کی قدروقیمت عمل کرنے والے کے مقام و مرتبے اور حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کے اعمال نیک ہوتے ہیں جبکہ کچھ کے بد۔ بعض لوگوں کے اعمال مبنی برخیر ہوتے ہیں اور بعض کے مبنی بر شر۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا معیار اور پیمانہ ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہوسکے کہ کون سے اعمال مبنی بر خیر ہیں اور کون سے مبنی بر شر؟ جبکہ ہر عمل کرنے والا اپنے عمل کوجائز اور مبنی بر خیر سمجھ کر کرتا ہے۔ 
 اس سوال کا جواب پانے کیلئے اس حقیقت کا جاننا ضروری ہے کہ انسان اور اس کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے:
’’حالانکہ اللہ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خلق فرمایا ہے۔ ‘‘(الصٰفٰت:۹۶)
 جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان اور اس کے اعمال اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ ہیں تو جو ان اعمال کا خالق ہے اس کو انسان سے زیادہ معلوم ہے کہ کون سا عمل خیر ہے اور کون سا شر، کون سا نیک عمل ہے اور کون سا بُرا، کون سا کام جائز ہے اور کون سا ناجائز۔ انسان کو اعمال کی حقیقت کا پتہ نہیں ہوتا۔ وہ کسی کام کو اچھا سمجھ کر کررہا ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا اور بعض اوقات کسی عمل کو بندہ ناپسند کرکے چھوڑ دیتا ہے مگر وہی اس کے لئے بہتر اور مبنی برخیر ہوتا ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کویوں بیان کررہا ہے:
 ’’اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بہتر ہو اور (یہ بھی) ممکن ہے تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بُری ہو اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ‘‘(البقره:۲۱۶)

یہ بھی پڑھئے:علم کے بغیر عمل نہیں، عمل کے بغیر رضاءِ الٰہی نہیں اور رضاء کے بغیر کامیابی نہیں

معلوم ہوا کہ جائز و ناجائز، اچھے اور بُرے، نیک اور بد اور خیروشر کا دارومدار ہماری پسند و ناپسند پر نہیں بلکہ ہمارے خالق و مالک کی پسند و ناپسند پر ہے۔ اچھے اور بُرے عمل کا انحصار عقل پر نہیں بلکہ فرمان الہٰی پر ہے۔ جسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچھا اور مبنی بر خیر کہا وہ اچھا ہے اور جسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برا یا مبنی بر شر فرمایا وہ برا ہے۔ جسے ہمارے خالق و مالک نے پسند کرلیا وہ عمل خیر ہے اور جس عمل کو ہمارے خالق نے ناپسند فرمایا وہ عمل شر ہے۔ 
 اب سوال یہ ہے کہ کس چیز کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے یا کس کو ناپسند۔ دوسرے الفاظ میں کون سی شے اس کے نزدیک اچھی ہے اور کون سی بری۔ یہ ہمیں معلوم کس طرح ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا محبوب عطا فرمایا ہے اور ان کی شان اس طرح بیان فرمائی:
 ’’اور وہ (میرے محبوب) ان کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ ‘‘(الاعراف:۱۵۷)
 تو ہر طیب اور خبیث کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو عطا فرمایا سو جو طیب اشیاء ہیں وہ حضورؐ حلال کرتے ہیں اور جو خبیث اور پلید چیزیں ہیں آپؐ انہیں حرام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچے ہی حضور ؐکے ذریعے ہیں۔ اس لئے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : ’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ کردے۔ ‘‘
 یہی حقیقت سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو چیزیں انسانی طبیعت کیلئے موزوں اور پاکیزہ تھیں اللہ اور رسولؐ نے انہیں حلال قرار دیا ہے اور جو چیزیں ناپاک، خبیث اور پلید تھیں اللہ اور رسول ؐ نے انہیں حرام قرار دیا ہے۔ 
 اس بحث کے بعد یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے منع کرتا ہے۔ یعنی اچھے کام کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ اچھائی کو فروغ ملے اور برے کاموں سے روکتا ہے تاکہ برائی کی حوصلہ شکنی ہو۔ یہی منصب رب العالمین نے اپنے حبیبؐ کو عطا فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’آپ ؐ انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں۔ ‘‘ (الاعراف:۱۵۷)
 نبی کریمؐ کے توسل سے آپؐ کی امت کو بھی یہ شان عطا فرمائی اور اسی خصوصیت کے ساتھ اس امت کی تعریف فرمائی۔ ارشاد فرمایا :
 ’’تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘(آل عمران:۱۱۰)
 اللہ پر ایمان تو اسی صورت مکمل ہوگا کہ بندہ اس کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھے اور اسی کے مطابق زندگی میں عمل کرے۔ اب یہ بات متحقق ہوگئی کہ خیر وشر، نیک و بد، یا اچھے اور برے کا معیار ہم اپنی طرف سے نہیں وضع کرسکتے ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے وضع کردہ ہے۔ سو اب ہمارا کام ہے کہ جس عمل کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے کرنے کا حکم دیا اسے بطور مجبوری نہیں بلکہ بخوشی کریں اور جس عمل سے روکا ہے اس سے رکیں۔ 
 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی کتاب فتوح الغیب میں فرماتے ہیں کہ ہر مومن کیلئے تمام احوال میں تین صفات لازمی ہیں :
(۱)اوامر (احکام خداوندی) کی تعمیل کرے۔ 
(۲)نواہی (محرمات و ممنوعات) سے بچے۔ 
(۳)مشیت الہٰی اور تقدیر پر راضی رہے۔ 
 آپؒ فرماتے ہیں کہ مومن کی ادنیٰ حالت یہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی ان تینوں چیزوں کی پیروی سے غافل نہ ہو اور ان کی تعمیل میں لگا رہے۔ 
 اس کے برعکس ہم آج بالکل الٹ راہ پر چل رہے ہیں۔ ہم خیرو شر کو اپنے معیار کے مطابق پرکھتے ہیں۔ نیکی و بدی کا پیمانہ ہم نے خود وضع کرلیا ہے اور بڑی جرأت سے کہہ دیتے ہیں کہ جو دل چاہے وہی کریں حالانکہ اپنے دل اور نفس کو اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کے تابع کرنا ہی اصل شرط ہونی چاہئے، اسی کو ضروری سمجھنا چاہئے کیونکہ اس میں دونوں جہان کی ہماری خیر مضمر ہے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK