آپ محض مدرسے میں جاکر ہی طالب علم نہیں بنتے بلکہ کسی بھی طریقے سے علم دین حاصل کرنے والا طالب علم ہی کے زمرے میں آتا ہے مثلاً آپ گھر میں رکھی کتابیں پڑھ کر علم حاصل کررہے ہیں توطالب علم ہیں، آپ جماعت میں نکل رہے ہیں تو طالب علم ہیں، خانقاہ میں وقت لگارہے ہیں تب بھی طالب علم ہیں، بزرگوں کی ہم نشینی اختیار کررہے تب بھی طالب علم ہیں اور اگر آپ کسی عالمِ دین سے پوچھ پوچھ کر علم حاصل کررہے ہیں تب بھی طالب علم ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اللہ کے بندے اور غلام ہیں اور اللہ ہمارا آقا و معبود ہے، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ غلام اپنے آقا کے تابع ہوتا ہے، اس کے ہر حکم کی تابعداری کرتا ہے، اس کے منع کئے گئے کاموں سے رکتا ہے، جن امور سے آقا کو پریشانی ہوتی ہے یا وہ ناخوش ہوتا ہے ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا آقا کی مکمل غلامی اور ہر حکم کی تعمیل، غلام پر لازم و ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں پتا کیسے چلے گا کہ ہمارا آقا (اللہ) کن کاموں سے خوش ہوتا ہے اور کن کاموں سے ناراض ہوتا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں ان باتوں کا علم قرآن وحدیث سے ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال سے ہوگا، صحابہؓ کے آثار سے ہوگا۔ چنانچہ گزشتہ تمام باتوں کو بالتفصیل قرآن وحدیث میں بیان کردیا گیا ہے اور بعض وہ باتیں اور مسائل جو تھوڑے مشکل ہیں یا جو روز مرہ کثرت سے پیش آتے ہیں انہیں ہمارے علماء کرام نے بے شمار کتابوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے اور یہ تمام علوم کئی کئی جلدوں پرمشتمل کتب میں موجود ہیں ۔ الغرض ہمیں اپنے آقا (اللہ) کے احکام قرآن وحدیث میں ہی ملیں گے لہٰذا اللہ کے احکام کو سمجھنے سے پہلے قرآن وحدیث کو سمجھنا ہوگا اورصحابہ کے آثار سے واقف ہونا ہوگا، اس کے بغیر صحیح معنوں میں غلام بننا ممکن نہیں۔ زبان سے کہہ دینا کہ مَیں اللہ اور رسول کا غلام ہوں، کافی نہیں ہوتا۔
اس سے پتا چلا کہ دین و شریعت کا علم ہر مسلمان کے لئے ضروری اور فرض ہے کیوں کہ اس کے بغیر ہم نہ تو صحیح غلام بن سکتے ہیں اور نہ صحیح مسلمان، کیوں کہ مسلمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کیلئے انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردے۔ یہ اس وقت تک ممکن ہے جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس کے پاس قرآن، مجید حدیث نبویؐ اور فقہ کا علم ہوگا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ ایک انسان کو اللہ کا صحیح بندہ اور غلام بننے کیلئے علم دین کا حاصل کرنا ہوگا جو اشد ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھئے:انفاق سے دل کی تطہیر اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے
علم دین کی ضرورت قرآن سے
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (سورہ تحریم:۶)
اس آیت میں باری تعالیٰ نے اہل ایمان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ دیکھو تم بھی جہنم کی آگ سے بچو اور اپنی آل و اولاد کو بھی اس سے بچاؤ۔ جہنم کی آگ سے بچنے اور بچانے کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں سے اللہ نے اور اللہ کے حبیبؐ نے تمہیں منع فرمایا ہے تم خود بھی ان سے رک جاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی روک دو۔ جہنم میں لے جانے والے کام کون کون سے ہیں ؟ یہ ہمیں قرآن وحدیث سے معلوم ہوگا۔ لہٰذا یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن و حدیث کا جاننا اور دینی علوم کا حاصل کرنا شرط ِاول ہے کیوں کہ علم کے بغیر ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا کہ کون سی چیز ہمیں جنت میں لے جانے والی ہے اور کون سی جہنم میں لے جانے والی۔ ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا: ’’تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔ ‘‘ (سورہ نحل:۴۳)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نا واقف پر لازم ہے کہ وہ واقف لوگوں سے معلوم کرے۔ اگر کوئی بے علم ہے تو اس پر ضروری ہے کہ وہ علماء سے علم حاصل کرے کیونکہ یہ حکم ربانی ہے اور حکم ربانی واجب التعمیل ہوا کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ علم عالم ہی سے حاصل کرنا چاہئے غیرِ عالم سے نہیں کیوں کہ وہ خود محتاجِ علم ہے۔
علم دین کی فرضیت حدیث سے
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”طلب ِعلم ہر مسلمان پر فرض ہے۔ “ (سنن ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوا کہ علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے اور جو حاصل نہیں کرے گا وہ گناہ گار ہوگا اس لئے یہ ہر مسلمان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
صحابہؓ کے اقوال
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ لوگو! تم فرائض کا علم سیکھو کیوں کہ یہ بھی تمہارے دین میں سے ہے۔ فرائض سے مراد وہ تمام باتیں ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان کے لئے واجب اور ضروری ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں : اے لوگو! تم پر علم حاصل کرنا لازم ہے قبل اس کے کہ علم اٹھالیا جائے۔
یہ بھی پڑھئے:معوذتین کی تلاوت
علمائے کرام کے اقوال
علامہ شامی در مختار کی شرح میں فرماتے ہیں : اسلام کے فرائض میں سے ان باتوں کا علم حاصل کرنا بھی ہے جن کی دین کے قائم کرنے، اور لوگوں سے میل جول اور سلوک کرنے میں بندہ کو ضرورت پڑتی ہے، اس کے بعد ہر مکلف مردو عورت پر وضو، غسل، نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل کا جاننا اور صاحب نصاب کیلئے زکوٰۃ کے اور جس پر حج فرض ہو اس کیلئے حج کے، اور تجارت کرنے والے پر خرید و فروخت کے مسائل کا جاننا فرض ہے۔ اسی طرح دوسرے پیشہ والوں اور کسی بھی کام میں مشغول ہونے والوں پر اس سے متعلق علم دین کا حاصل کرنا فرض ہے تا کہ وہ حرام سے بچ سکے۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جاننا چاہئے کہ جس کام کا کرنا بندہ پر فرض ہے اس کام کے کرنے کا طریقہ بھی سیکھنا فرض ہے اور جس کام کا کرنا مستحب ہے اس کا طریقہ سیکھنا بھی مستحب ہے۔ پس جب نماز فرض ہوگی اس کے مسئلے سیکھنا بھی فرض ہوں گے، اسی طرح روزہ وغیرہ کا حال ہے اور جب نوکری تجارت وغیرہ کرے گا تو نوکری، تجارت وغیرہ کےمتعلق جو شریعت کے حکم ہیں، ان کا سیکھنا اور ان پر عمل کرنا لازم ہوگا۔
حضرات علماء کی باتوں سے بخوبی یہ ثابت ہو گیا کہ دین کی ضروری باتوں کا علم حاصل کرنا اسلام کے فرائض میں سے ایک فرض اور ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔ مذکورہ باتوں سے ہم نے علم دین کی فرضیت کو جان لیا۔ جب علم دین کا حاصل کرنا اتنا اہم ہے تو پھر دینی علوم کو حاصل کرنے والا کتنا اہم ہوگا اس کا مقام ومرتبہ کتنا اعلی و ارفع ہوگا۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے۔ ‘‘ (سورہ مجادلہ:۱۱)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ علم دین اسی کو عطا کرتا ہے جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے گویا جسے علم نہیں عطا کیا گیا وہ بھلائی سے محروم و نامراد ہوگیا۔ حدیث پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھلائی سے مراد صرف آخرت کی بھلائی نہیں بلکہ دونوں جہاں کی بھلائی سے سرفراز کیا جاتا ہے حاملِ علم کو۔ اگر اس سے صرف آخرت کی بھلائی مراد ہوتی تو آپؐمطلق بھلائی نہ ارشاد فرماتے ۔ بھلائی سے مراد دونوں جہان کی بھلائی ہے۔
اگر ہم اور آپ چاہتے ہیں کہ ہماری دنیا بھی آباد ہو اور آخرت بھی آباد ہو، ہم دنیا میں بھی سرخرو ہوجائیں اور آخرت میں بھی روشن رہیں ، تو ہمیں علوم دینیہ کے حصول کیلئے کوشاں رہنا ہوگا اور کم از کم اتنا علم ضرور حاصل کرنا ہوگا جتنا ہمارے لئے ضروری ہے اورجس سے ہم صحیح اور غلط کی تمیز کرسکیں۔ یاد رہےکہ آپ محض مدرسے میں جاکر ہی طالب علم نہیں بنتے بلکہ کسی بھی طریقے سے آپ علم دین حاصل کررہے ہیں تو آپ طالب کے زمرے میں شامل ہوں گے مثلاً آپ گھر میں رکھی کتابوں کو پڑھ کر علم حاصل کررہے ہیں تو طالب علم ہیں ، آپ جماعت میں نکل رہے ہیں تو طالب علم ہیں، آپ خانقاہ میں وقت لگارہے ہیں تب بھی طالب علم ہیں، آپ بزرگوں کی ہم نشینی اختیار کررہے تب بھی طالب علم ہیں اور کسی عالمِ دین سے پوچھ پوچھ کر علم حاصل کررہے ہیں تب بھی طالب علم ہیں۔
غرض حصولِ علم کی کوئی بھی صورت آپ اختیار کررہے ہیں بشرطیکہ وہ صحیح ہو آپ طالب علم کہلاکر مذکورہ فضیلت میں داخل ہوجائینگے ان شاءاللہ۔ اللہ ہم سبھوں کو حصول علم کا جذبہ اور علم نافع عطا فرمائے، آمین