سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں آپؐ کے وصال کے بعد کے حالات کا تذکرہ جاری ہے۔آج ملاحظہ کیجئے کہ جب آپؐ کے وصال کی خبر صحابہ کرامؓ تک پہنچی تو کس طرح ان پر سکتہ طاری ہوگیا اور عقلیں ماؤف ہوگئیں۔
EPAPER
Updated: May 25, 2024, 3:49 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں آپؐ کے وصال کے بعد کے حالات کا تذکرہ جاری ہے۔آج ملاحظہ کیجئے کہ جب آپؐ کے وصال کی خبر صحابہ کرامؓ تک پہنچی تو کس طرح ان پر سکتہ طاری ہوگیا اور عقلیں ماؤف ہوگئیں۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے اس دن سے زیادہ روشن دن کوئی دوسرا نہیں تھا، اور جس دن آپ نے وفات پائی اس دن سے زیادہ تاریک دن کوئی دوسرا نہیں تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مدینے کی ہر چیز پر تاریکی چھا گئی ہو۔ حضرت ام ایمنؓ وفات کی خبر سن کر رونے لگیں۔ لوگوں نے پوچھا؟ آپ کیوں روتی ہیں ؟ کہنے لگیں کہ یہ تو مجھے پتہ تھا کہ آپ پردہ فرما لیں گے کیونکہ کوئی فرد بشر زندہ رہنے والا نہیں، مجھے رونا اس بات پر آرہا ہے کہ اب وحی کا سلسلہ ہم سے منقطع ہوچکا ہے، اب آسمان سے ہمارے لئے کوئی وحی نہیں اترے گی۔
صحابہؓ کی حالت
جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر عام ہوئی، صحابۂ کرامؓ حواس باختہ ہوگئے، ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری، کیونکہ یہ واقعہ رنج و الم کا باعث اور متفکر کرنے والا تھا، آپؐ موجود تھے تو صحابہ کو ہر مصیبت ہلکی لگتی تھی، بعض صحابہ کی عقل ہی ماؤف ہوگئی، بہت سے لوگ بے ہوش ہوگئے، کچھ لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی مفقود ہوگئی، بعض خبر سن کر زمین پر بیٹھ گئے، ان میں اتنی طاقت نہ رہی کہ اٹھ کر کھڑے ہوسکیں، بعض صحابہؓ صاف طور پر اس خبر کے منکر تھے، ان کا کہنا یہ تھا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپؐ وفات پاجائیں۔ (السیرۃ النبویہ ص:۱۳، ۱۴)
حضرت ابوبکرؓ صبح سویرے اجازت لے کر مدینے سے باہر اپنے دوسرے گھر تشریف لے گئے تھے، جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر ان تک پہنچی وہ گھوڑے پر سوار ہوکر مدینے آئے، گھوڑے سے اتر کر مسجد نبویؐ میں داخل ہوئے، آپؓ نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، حضرت عائشہؓ کے حجرے میں داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک کے قریب گئے، آپ کے جسد اطہر پر ایک یمنی کپڑا پڑا ہوا تھا، اور آپ کا چہرہ مبارک بھی ڈھکا ہوا تھا، حضرت ابوبکرؓ نے آگے بڑھ کر کپڑا ہٹایا، چہرۂ مبارک کو بوسہ دیا اور کہا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، اللہ تعالیٰ دوبارہ آپ کو موت نہ دے گا، جو موت آپ کے لئے لکھی ہوئی تھی وہ آچکی۔ (صحیح البخاری:۲ /۷۱ رقم الحدیث: ۱۲۴۱)
یہ بھی پڑھئے: جب آپؐ نے کچھ کہا اور حضرت فاطمہ ؓرونے لگیں، پھرکچھ کہا اور آپؓ ہنسنے لگیں
حضرت عمر بن الخطابؓ کا حال سب سے زیادہ دگرگوں تھا، وہ یہ ماننے کے لئے ہی تیار نہیں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ منافقین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے، آپ کی وفات نہیں ہوئی، آپ تو اپنے رب سے ملاقات کیلئے گئے ہیں جس طرح موسیٰؑ بن عمران اپنے رب سے ملنے کیلئے گئے تھے، خدا کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور واپس آئیں گے، اور ایسے لوگوں کو سزا دیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں۔ حالانکہ حضرت عمرؓ کی سمجھ داری عام وخاص کے زبان زد تھی، وہ اپنی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو بے جان دیکھ رہے تھے، اور وہ تمام علامات ان کی نگاہوں کے سامنے تھیں جو موت پر دلالت کرتی ہیں، اس کے باوجود وہ آپؐ کی موت کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھے، بلکہ یہ سمجھ رہے تھے کہ آپؐ پر بے ہوشی طاری ہوگئی ہے۔ (صحیح البخاری: ۵/۶، رقم الحدیث: ۳۶۶۷، اللؤلؤ المکنون ص:۶۲۳)
جگر گوشۂ رسول حضرت فاطمہؓ کا غم سے برا حال تھا، وہ بار بار کہتی تھیں کہ ہائے میرے ابّا نے رب کی دعوت قبول کرلی، ہائے میرے ابّا جنت الفردوس کو سدھار گئے، مَیں جبریلؑ سے اپنے ابّا کی تعزیت کرتی ہوں۔ (صحیح البخاری: ۶/۱۵، رقم الحدیث: ۴۴۶۲) حضرت بلالؓ نے اس دن اذان دی، اور اشہد أن محمدا رسول اللّٰہ کہا تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، صحابۂ کرامؓ کی بھی ہچکیاں بندھ گئیں، غرض یہ کہ رنج وغم پورے ماحول پر طاری تھا، زیادہ تر لوگ اپنے حواس میں نہیں تھے، صرف حضرت ابوبکرؓ تھے جو اپنے اوپر قابو رکھے ہوئے تھے، دل گرفتہ اور رنجیدہ وہ بھی تھے، مارے غم کے ان کا کلیجہ بھی پھٹا جارہا تھا لیکن انہوں نے ضبط کر رکھا تھا، کیوں کہ یہی وقت کا تقاضا تھا۔ جس وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارکہ میں داخل ہوئے اور آپؐ کی مبارک پیشانی کو بوسہ دے کر باہر نکلے حضرت عمر بن الخطابؓ ہوش وخرد سے بیگانہ تھے، حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا کہ اے عمر ؓبیٹھ جاؤ، مگر ان پر اس التجا کا کوئی اثر نہ ہوا، کیونکہ وہ شدت غم سے بے حال ہورہے تھے، اور انہیں یہ ہوش ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ کی تقریر
ان حالات میں حضرت ابوبکرؓ نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا، مسجد نبویؐ میں تشریف لائے، منبر نبوی کی جانب بڑھے اور لوگوں سے کہا کہ وہ یہاں میرے قریب آجائیں اور خاموش ہوکر بیٹھیں، سب لوگ بیٹھ گئے، آپؓ نے پہلے اللہ رب العزت کی حمد وثنا بیان کی اور یہ فرمایا: اے لوگو! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کررہا تھا وہ یہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں، اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ یہ سمجھ لے کہ اللہ زندہ ہے اور اس پر موت نہیں آسکتی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’محمد نہیں ہیں مگر اللہ کے رسول، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، سو اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید کردیئے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں (دین سے) پھر جاؤ گے، اور جو الٹے پاؤں (دین سے) پھرے گا وہ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گا اور اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کو جزا عطا فرمائیں گے۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۴۴) اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے: ’’بلاشبہ آپ کو بھی انتقال کرنا اور یہ سب لوگ بھی انتقال کرنے والے ہیں۔ ‘‘ (الزمر:۳۰) اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں : ’’ہر چیز فنا ہونے والی ہے، صرف اللہ کی ذات ِوالا صفات کو دوام حاصل ہے، اسی کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو۔ ‘‘ (القصص: ۸۸) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے ’’جو بھی روئے زمین پر موجود ہے وہ فنا ہونے والا ہے، صرف ربّ ذوالجلال والاکرام کی ذات باقی رہے گی۔ ‘‘ (الرحمٰن:۲۶، ۲۷) اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے:’’ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے، قیامت کے دن تم سب کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۸۵) اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی عطا فرمائی، ان کو دنیا میں باقی رکھا، یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کا دین قائم کیا، اور اس کے احکام بیان کئے، اس کا پیغام لوگوں تک پہنچایا، اس کے راستے میں جہاد کیا، پھر اللہ نے آپؐ کو اپنے پاس بلا لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو ایک خاص طریقے پر چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں، اب اگر کوئی شخص گمراہ یا ہلاک ہوگا تو وہ حق واضح ہونے کے بعد ہلاک یا گمراہ ہوگا، جس شخص کا رب اللہ تھا تو اللہ موجود ہے، زندہ ہے، اس کو موت نہیں آئے گی، اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا اور ان کو معبود کا درجہ دیتا تھا تو اللہ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا ہے، اس لئے لوگو! اللہ سے ڈرو، اپنے دین کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر رکھو، اور اپنے رب پر بھروسہ کرو، اللہ کا دین باقی ہے، اور باقی رہے گا، اللہ نے جو فرمایا ہے وہ پورا ہوکر رہے گا، جو اللہ کی مدد کرے گا اور اس کے دین کو مضبوط کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا، اللہ کی کتاب ہمارے پاس موجود ہے، وہ نور ہے، وہ شفا ہے، اسی کے ذریعے اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت عطا فرمائی، اس میں اللہ کی حلال کردہ چیزوں کا بھی ذکر ہے اور حرام کردہ چیزوں کا بھی بیان ہے، خدا کی قسم! ہمیں اس شخص کی ذرا بھی پرو ا نہیں ہے جو ہم پر فوج کشی کرے، اللہ کی تلواریں میان سے باہر ہیں، ہم نے انہیں اٹھا کر رکھ نہیں دیا ہے، ہم ہر اس شخص کے ساتھ جہاد کرینگے جو ہماری مخالفت کرے گا، جس طرح ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر مخالفین کے ساتھ جہاد کیا ہے، اس لئے کوئی شخص بغاوت کی جرأت نہ کرے، جو بھی ایسا کرے گا وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرے گا۔ ‘‘ (تفسیر قرطبی: ۴/۲۲۳، صحیح البخاری: ۶/۱۳، رقم الحدیث: ۴۴۵۴) بعض کتابوں میں اس خطبے کا کچھ اور حصہ بھی نقل کیا گیا ہے، مثلاً إتحاف السادۃ المتقین شرح احیاء العلوم الدین۔ میں یہ اضافہ ہے:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا ہے، اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی، اور کافروں کی جماعتوں کو تنہا شکست دی، اللہ ہی کے لئے تمام تعریفیں ہیں، مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد! اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ کتابُ اللہ اسی طرح موجود ہے جس طرح وہ نازل کی گئی، اور دین اسی طرح باقی ہے جس طرح وہ مشروع ہوا، اور حدیث اسی طرح ہے جس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی، اور بات اسی طرح موجود ہے جس طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی، اللہ حق ہے اور حق کو واضح کرنے والا ہے۔ ‘‘
آپؓ کی تقریرکا مزید حصہ
آپؓ نے مزید فرمایا: ’’اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرما، جو تیرے برگزیدہ بندے، تیرے رسول، تیرے نبی، تیرے حبیب، تیرے امین، تیری بہترین مخلوق اور خلاصۂ عالم ہیں، ان پر ایسی رحمتیں نازل فرما جو تونے آج تک اپنے کسی بندے پر نازل نہیں فرمائیں، اے اللہ اپنی رحمتیں، اپنی عافیتیں، اپنی برکتیں، انبیاء کے سردار، انبیاء و رسل کا سلسلہ ختم کرنے والے، متقیوں کے پیشوا اور امام محمدؐ پر نازل فرما جو خیر کے قائد ہیں، جو خیر کے امامِ ہیں، جو رسولِ رحمت ہیں، اے اللہ! ان کے قرب کو اور زیادہ فرما، ان کی دلیل اور برہان کو اور مضبوط فرما، ان کے مقام کو مکرم کر، اور انہیں ایسا مقام محمود عطا فرما جس پر اگلے اور پچھلے سب لوگ رشک کریں، اور ان کے مقام محمود سے قیامت کے دن ہمیں بھی نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرما، اے اللہ! آپؐ کو دنیا اور آخرت میں ہمارے لئے اپنا قائم مقام فرما، اور آپ کو جنت میں بلند ترین درجہ عطا فرما، اے اللہ رحمت نازل فرما، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی اولاد پر، اور برکت نازل فرما آپ پر اور آپ کی اولاد پر، جس طرح تونے رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائی ہیں حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی اولاد پر، بلاشبہ تو نہایت لائق ِتعریف اورلائق تمجید ہے۔ ‘‘ (اتحاف السادہ: ۱۰/۲۹۹)
سیرت کی مشہور کتاب ’’الروض الانف‘‘ میں یہ الفاظ زیادہ ہیں : ’’اے لوگو! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو محمد انتقال فرماچکے ہیں، اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے، اُسے کبھی موت آنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سلسلے میں پہلے ہی بتلا دیا تھا اس لئے اب گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کیلئے اپنا تقرب پسند فرمایا ہے، بہ جائے اس کے کہ وہ تمہارے پاس رہیں، اور اس نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اپنی کتاب اور اپنے نبی کی سنت باقی رکھی ہے، جو شخص ان دونوں چیزوں کو اپنائے گا وہ حق کی معرفت حاصل کرلے گا، اور جو شخص ان دونوں میں فرق کرے گا وہ حق سے دور ہوجائے گا، اے مسلمانو! حق اور انصاف قائم کرنے والے بنو، شیطان مردود تم کو نبی کی موت کی وجہ سے دین سے دور نہ کردے، شیطان کی فتنہ انگیزی سے پہلے تم خیر کو اختیار کرنے والے بن جاؤ، خیر کی طرف سبقت کرکے شیطان کو عاجز اور لاچار کردو، اس کو اتنی مہلت نہ دو کہ وہ تم سے آکر ملے اور تمہیں فتنے میں مبتلا کردے‘‘۔ (الروض الانف: ۲/۲۷۶، بہ حوالہ سیرۃ المصطفی: ۳/۲۰۲، ۲۰۴)
علامہ قرطبی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کی یہ تقریر ان کی جرأت اور شجاعت کی دلیل ہے کہ وہ ان حالات میں لوگوں کے درمیان آئے اور حق بات کہنے سے نہیں ہچکچائے، غم و اندوہ ناقابل بیان تھا، صحابہؓ کے قدم بہک سکتے تھے، وہ آپؐ کی وفات سے بددل ہوکر دین سے منحرف ہوسکتے تھے، لیکن حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بصیرت اور حکمت سے ان کو سہارا دیا، اور ان کو آزمائش میں پڑنے سے بچالیا۔ (تفسیر قرطبی: ۴/۲۲۲)۔
روایات میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی اس تقریر نے زخمی دلوں پر مرہم کا کام کیا، حضرت عمر بن الخطابؓ جو آپ کی وفات کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں تھے، کہتے ہیں کہ جیسے ہی حضرت ابوبکرؓ نے وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ والی آیت تلاوت فرمائی مَیں دھڑام سے زمین پر گر پڑا، میرے دونوں پیروں کی طاقت سلب ہوگئی اور مجھے یہ یقین ہوگیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں۔ (صحیح البخاری: رقم الحدیث: ۶/۱۳، ۴۴۵۴)