• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جب آپؐ نے کچھ کہا اور حضرت فاطمہ ؓرونے لگیں، پھرکچھ کہا اور آپؓ ہنسنے لگیں

Updated: May 17, 2024, 3:05 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں آج ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح آپ کی علالت بڑھتی گئی، اسی دوران حضرت فاطمہؓ ملاقات کیلئے تشریف لائیں، آپؐ نے اُن سے سرگوشی کے انداز میں کچھ فرمایا۔ یہ پورا واقعہ دل کو چھو‘ لینے والا ہے۔

The Prophet`s Mosque, which is called the Prophet`s Mosque, is still a reference for the world, every part of it is sacred for the people of faith all over the world. Photo: INN
آپؐ کی مسجد، جسے مسجدِ نبوی کہا جاتا ہے، آج بھی مرجع خلائق ہے، دُنیا بھر کے اہل ایمان کیلئے اس کا ایک ایک حصہ مقدس ہے۔ تصویر : آئی این این

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زیارت:
ایک دن بعد اتوار کو بیماری مزید شدت اختیار کر گئی، لوگ سمجھے آپ کو ذات الجنب کی بیماری لاحق ہوگئی ہے، اس بیماری میں پسلیوں میں ورم اور سخت درد اور سوزش ہوتی ہے، تیمار داروں نے دوا پلانی چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا، مریض عام طور پر دوا سے بچنا چاہتا ہے، صحابہؓ سمجھے کہ یہ انکار کچھ اسی طرح کا ہے اس لئے انہوں نے زبردستی دوا پلادی، بعد میں جب طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو آپ نے ناگواری کا اظہار فرمایا اور دوا پلانے والوں کیلئے یہ سزا تجویز کی کہ وہ سب بھی یہ دوا پئیں۔ صرف حضرت عباسؓ دوا پینے سے بچ گئے، کیونکہ وہ اس وقت دوا پلانے کے عمل میں شریک نہیں تھے، البتہ مشورے میں شامل تھے۔ (صحیح البخاری: ۹/۷، رقم الحدیث: ۶۸۸۶)
یہ روایت بخاری میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، بعض حضرات اس پر اشکال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیتے تھے، پھر آپؐ نے زبردستی کرنے والوں کو دوا کیوں پلائی، حالانکہ وہ دوا پلانے میں مخلص تھے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حضرات سے اجتہادی غلطی ہوئی تھی کہ وہ ذات الجنب کا مرض سمجھے جس میں وہ دوا پلائی جاتی ہے، اور آپ کے انکار کو مریض کے انکار پر محمول کیا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حضرات صحابہؓ کے ساتھ عفو و کرم اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کیاگیا۔ 
اس کا ایک جواب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اصل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اللہ کا حکم ہے، جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو توڑا ہے اس نے اللہ کے حکم کو توڑا ہے، اور جس نے رسول اللہ کے حکم کی مخالفت کی ہے اس نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی ہے، آپ اپنی طرف سے معافی دے سکتے تھے، مگر اللہ کی طرف سے معاف کرنے کا آپ کو اختیار نہیں تھا، اسلئے آپ نے سزا سنائی، تاکہ معاملہ برابر ہوجائے اور دوا پلانے والے اللہ کے غضب سے بچ جائیں، حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا کہ یہ حکم انتقاماً نہیں تادیباً تھا، بعض حضرات نے اسے آپؐ کی ظرافت طبع پر محمول کیا۔ (کشف الباری: ۸/۶۸۸، بحوالہ فتح الباری: ۸/۱۴۷، سیرۃ النبی: ۲/۱۱۲) 
دوا پلانے کا واقعہ اتوار کا ہے، پیر کے دن صبح آپؐ نے حجرے کا پردہ اٹھایا، لوگ صفیں بنائے ہوئے نماز فجر پڑھ رہے تھے، آپ یہ منظر دیکھ کر مسکرائے، لوگوں نے بھی آپ کو دیکھا اور خوشی سے بے قابو ہوگئے، قریب تھا کہ نماز توڑ ڈالیں، حضرت ابوبکر امامت کر رہے تھے، انہوں نے آپ کو دیکھ کر مصلّے سے پیچھے ہٹنا چاہا مگر آپ نے اشارے سے فرمایا کہ نماز پوری کرو، یہ کہہ کر آپ نے پردہ گرا دیا، بس یہ صحابۂ کرامؓ کیلئے آپ کی زیارت کا آخری موقع تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: آپﷺ کا وصیت لکھوانے کا ارادہ، اختلافات اور حضرت ابوبکرؓ کی امامت

حضرت فاطمہؓ کی آمد: 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں حضرت فاطمہؓ اپنے والد گرامی قدر کی عیادت اور مزاج پرسی کیلئے تشریف لائیں، ان کی تشریف آوری کا پورا واقعہ حضرت عائشہؓ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں آپ کے پاس ہمہ وقت موجود رہتی تھیں، ایک دن فاطمہؓ تشریف لائیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کے بہت مشابہ تھی، آپ نے جب فاطمہؓ کو دیکھا تو انہیں خوش آمدید کہا، پھر انہیں اپنی دائیں جانب یا بائیں جانب بٹھلایا، اور ان کے کان میں کوئی بات کہی، حضرت فاطمہؓ وہ بات سن کر رونے لگیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اتنی شدت سے روتا ہوا دیکھا تو پھر چپکے سے کوئی بات کہی، یہ بات سن کر فاطمہؓ ہنسنے لگیں، میں نے فاطمہؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے بجائے تمہیں راز کی کوئی بات بتلائی ہے اور تم رو رہی ہو؟ جب رسولؐ اللہ وہاں سے اٹھ گئے تو میں نے فاطمہؓ سے پوچھا: رسولؐ اللہ نے تم سے کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا! میں رسولؐ اللہ کا کوئی راز کسی پر ظاہر نہیں کرسکتی، پھر جب رسولؐ اللہ دُنیا سے پردہ فرما گئے، میں نے فاطمہؓ سے دوبارہ وہی بات دریافت کی اور کہا کہ ہمارا بھی تم پر کوئی حق ہے، ہمیں بتلاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے اس روز کیا فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا: ہاں ! مَیں اب وہ بات بتلا سکتی ہوں، اصل میں رسولؐ اللہ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ جبرئیل مجھ سے ہر سال ایک مرتبہ دور کرتے تھے، اس سال دو مرتبہ کیا ہے، میرا خیال ہے میری موت کا وقت قریب آگیا ہے، تم اللہ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا، میں تمہارے لئے پہلے جانے والوں میں اچھا ثابت ہوں گا۔ میں آپ کی یہ بات سن کر رونے لگی، جب آپ نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے فاطمہؓ کیا تم یہ نہیں چاہتیں کہ مسلمان عورتوں کی سر دار بنو، میں یہ سن کر ہنسنے لگی۔ (صحیح البخاری: ۸/۶۴، رقم الحدیث: ۶۲۸۵)۔ 
 ایک روایت میں یہ قصہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ سے دریافت کیا کہ وہ کون سی راز کی بات تھی جسے سن کر تم رونے لگیں، اور وہ کون سی راز کی بات تھی جسے سن کر تم ہنسنے لگیں، حضرت فاطمہؓ نے کہا: پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی وفات کی خبر سنائی تھی، میں یہ سن کر رونے لگی تھی، دوسری مرتبہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھ سے آکر ملوگی، یہ بات سن کر ہنسنے لگی تھی۔ (صحیح البخاری: ۴/۲۰۳، رقم الحدیث: ۳۶۲۳) 
ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ حضور کو دیکھنے تشریف لائیں تو آپ کو سخت تکلیف تھی، اور آپ پر بار بار غشی طاری ہورہی تھی، یہ حالت دیکھ کر حضرت فاطمہؓ تڑپ اٹھیں اور کہنے لگیں ! ہائے میرے ابّا کو کتنی تکلیف ہورہی ہے، آپ نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا: بس آج ہی کا دن ہے، آج کے بعد تمہارے باپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ (صحیح البخاری: ۶/۱۵، رقم الحدیث: ۴۴۶۲)
حیات مبارکہ کا آخری دن:
آج پیر کا دن ہے، صبح کے وقت طبیعت کافی بہتر تھی، آپؐ نے فجر کے وقت پردہ اٹھا کر دیکھا تھا، صحابہ نماز فجر میں مشغول تھے، آپ نے انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا، نماز کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ملاقات اور عیادت کیلئے حاضر ہوئے، طبیعت میں بہتری دیکھ کر عرض کیا: یارسول اللہ! اگر اجازت ہو تو میں آج اپنی (دوسری) بیوی حبیبہ بنت خارجہؓ کے پاس ہوآؤں، آج اس کی باری کا دن ہے، آپؐ نے فرمایا: ٹھیک ہے، چلے جاؤ۔ (سیرت ابن ہشام: طبقات ابن سعد: ۲/۲۱۵)۔ حضرت علیؓ کا زیادہ وقت آپ کی تیمار داری میں گزرتا تھا، نماز کے بعد بہت سے صحابہؓ آپ کی طبیعت کا حال جاننے کیلئے حجرۂ مبارکہ کے باہر جمع ہوگئے، حضرت علیؓ باہر نکلے تو ان سے پوچھا اے ابو الحسن! اس وقت رسولؐ اللہ کی طبیعت کیسی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: الحمد للہ، طبیعت بہتر ہے، صحابہ یہ سن کر مطمئن ہوگئے، اور اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ (صحیح البخاری: ۶/۱۲، رقم الحدیث: ۴۴۴۷)۔ یہ صبح کے وقت کی کیفیت ہے، دن چڑھے مزاج عالی میں دفعتاً تغیر پیدا ہوا، اور آپؐ پر غشی طاری ہوگئی، کچھ دیر کے بعد آپؐ کو افاقہ ہوگیا، غشی کا سلسلہ دیر تک چلتا رہا، حضرت فاطمہؓ وہاں موجود تھیں، آپؐ کی بے چینی دیکھ کر کہنے لگیں، ہائے! میرے ابّا کو کتنی تکلیف ہورہی ہے، آپؐ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا بس یہ آخری دن ہے، آج کے بعد تمہارے ابّا کو کوئی بے چینی نہیں ہوگی۔ (صحیح البخاری:۶/۱۵، رقم الحدیث: ۴۴۶۲)
وفات کا وقت قریب آتا جارہا تھا، درد کی شدت کی وجہ سے آپ لیٹ نہیں پارہے تھے، اتنے میں حضرت عائشہؓ کے بھائی حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرؓ کمرے میں داخل ہوئے، ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، آپؐ نے مسواک کی طرف دیکھا، حضرت عائشہؓ کو خیال ہوا کہ شاید آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، مسواک کرنا آپ کو بے حد پسند تھا، حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: کیا میں یہ مسواک آپ کیلئے لے لوں، آپؐ نے اثبات میں گردن ہلائی، حضرت عائشہؓ نے وہ مسواک لے کر آپ کے منہ میں داخل کی، مگر آپ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ اسے چبا کر نرم کرسکیں، تب حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: میں آپ کیلئے اسے نرم کردوں، آپ نے اشارے سے فرمایا: ہاں کردو، حضرت عائشہؓ نے مسواک اپنے منہ میں لے کر نرم کی، پھر آپ کے مبارک دانتوں پر پھیری، اس طرح آپ کا آخری عمل مسواک کرنا تھا، یہ نظافت اور نفاست کی انتہا تھی کہ اس حالت میں بھی مسواک کی طرف توجہ رہی، آپ کے قریب میں پانی سے بھرا ہوا ایک برتن رکھا ہوا تھا، آپ بار بار اس میں دونوں ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرۂ انور پر پھیرتے، اور یہ فرماتے لا إلہ الا اللّٰہ إِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٍ۔ ’’لاالہ الہ اللہ، موت کی بڑی سختیاں ہیں ‘‘ (صحیح البخاری: ۶/۱۳، رقم الحدیث)
رسولؐ اللہ کے آخری لمحات کا ذکر حضرت عائشہؓ اکثر کرتی رہتی تھیں، دیگر باتوں کے علاوہ وہ یہ بھی فرماتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کے منجملہ احسانات میں سے ایک احسان مجھ پر یہ بھی ہے کہ آپؐ کا انتقال میرے گھر میں ہوا۔ (صحیح البخاری : ۶/۱۳، رقم الحدیث: ۴۴۵۰)
’’رفیق اعلا کا طلبگار ہوں !‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت بڑی بے چینی اور کرب کا تھا، آپ بار بار اپنا چہرۂ مبارک پانی سے تر فرما رہے تھے، دفعتاً آپ نے اپنا دست مبارک فضا میں بلند کیا، آسمان کی طرف دیکھا اور زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا فرمائے: اللّٰہم فی الرفیق الأعلی۔ ’’اے اللہ! رفیق اعلا کا طلبگار ہوں ‘‘، یہ کہہ کر آپ نے اپنے دست مبارک کو نیچے کی طرف کرلیا اور روح مبارک نے جسد اطہر کا ساتھ چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری: رقم الحدیث: ۶/۱۳، رقم الحدیث: ۴۴۵۱) 
 آپؐ کا وصال پیر کو ہوا، وقت کی بابت قدرے اختلاف ہے، بعض حضرات نے چاشت کا وقت کہا ہے، اور بعض نے زوال کا وقت۔ پہلا قول ابن اسحاق کا ہے اور دوسرا قول عروہ بن الزبیر کا ہے، لیکن یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں کیونکہ چاشت کے ختم پر ہی زوال کا وقت شروع ہوتا ہے۔ وصال کے دن آپ کی عمر شریف تریسٹھ سال چار دن تھے، آپ اس حال میں دنیا سے تشریف لے گئے کہ نہ آپ نے کوئی دینار چھوڑا، نہ درہم، نہ آپ کی ملکیت میں کوئی غلام تھا نہ کوئی باندی، ایک سفید خچر تھا اور کچھ زمین جو آپ نے صدقہ کردی تھی اور آپ کے ہتھیار تھے، حالانکہ آپ پورے جزیرۃ العرب کے بلا شرکت غیرے حاکم تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK