انسان کے مزاج کے متعلق کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ’’ہم دوسروں کی غلطیوں کے بہترین جج اور اپنی غلطیوں کے بہترین وکیل ہوتے ہیں‘‘۔
EPAPER
Updated: March 28, 2025, 11:42 AM IST | Dr. Mujahid Nadvi | Mumbai
انسان کے مزاج کے متعلق کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ’’ہم دوسروں کی غلطیوں کے بہترین جج اور اپنی غلطیوں کے بہترین وکیل ہوتے ہیں‘‘۔
انسان کے مزاج کے متعلق کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ’’ہم دوسروں کی غلطیوں کے بہترین جج اور اپنی غلطیوں کے بہترین وکیل ہوتے ہیں‘‘۔ یعنی جب دوسروں سے غلطی ہوتی ہے تو ہم فوری طنز کرنے لگ جاتے ہیں اور جب ہم سے غلطی ہوتی ہے تو ہم فوری طور پر صفائی دینے لگ جاتے ہیں۔ انسان کے اسی مزاج کی طرف سورۃ الکھف میں ایک لطیف اشارہ ملتا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:’’ اور بیشک ہم نے اس قرآن میں ان لوگوں کے لیے ہر ایک مثال کو کئی طرح سے بیان کیا ہے، اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے‘‘۔
انسان کے مزاج کو بیان کرنے کے علاوہ ایک اور نکتہ جس کو قرآن مجید نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہےوہ یہ ہے کہ انسان چاہےکتنا ہی جھگڑا کرلے، بحث و حجت کرلے، اور ہٹ دھرمی سے کام لے لیکن اس کو اس بات کا اعتراف کرنا ہی ہوگا کہ اس پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ سب اس کی اپنی شامتِ اعمال ہوتی ہے۔ یعنی انسان کی خود اپنی بداعمالیاں ہی اس کے لئے مشکلات کے دہانے کھول دیتی ہیں اور اس کی زندگی کی کشتی کو طوفانوں سے دوچارکردیتی ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ عزوجل بڑا ہی رحیم وکریم ہے،وہ تو اپنے بندوں کے لئے رحمت کے دریا جاری رکھتا ہے، لیکن جب انسان اپنے رب کریم کی اس رحمت سے اعراض کرکے، اس سے منھ موڑکے شیطانی حرکتوں میں ملوث ہوجاتا ہے تو پھر اللہ عزوجل اس پر پھٹکار لگاتا ہے۔سورۃ الشوریٰ میں اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے:’’ اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہےوہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ طبری نے اپنی تفسیر میں طبرانی کے حوالے سے ایک مرسل روایت نقل کی ہے کہ ’’کسی آدمی کو اگر لکڑی کا زخم لگے، یا وہ پاؤں پھسلنے سے گرے، یا اس کے رگ وپَے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو تو یہ سب اس کے کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور وہ (بد اعمال تو)اس سے کہیں زیادہ ہیں،جن کو اللہ تعالی معاف کردیتا ہے۔ ‘‘
اب اس بات کو سمجھنے کےبعد انسان کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ہر گھڑی، ہروقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہے۔ اپنے اعمال کی جانچ پڑتا ل کرتارہے اوران پرکڑی نظر رکھے۔ اور اگر اس کی بداعمالیوں کا پلڑا بھاری ہورہا ہو ، اور اس کی وجہ سے اس کو گزند پہنچ رہی ہو، اس کی زندگی میں مشکلات کے بادل امڈے آرہے ہوں تو پھر وہ اللہ عزوجل سے شکوے شکایت کے بدلے خود اپنے گریبان میں جھانکے، اپنے گناہوں کی تعداد کم کرے، اپنی نیکیوں کی تعداد بڑھائے اور پھر دیکھے کہ اس کے مسائل کس طرح کافور ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ گناہوں کا بوجھ ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
ان ساری تفاصیل کو سمجھنے کے بعد اب ہم آج کے دور کے مسلمان اپنے حال پر نظر ڈالتےہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ وعیدیں مکمل طور پر ہم پر صادق آرہی ہیں، کہ ہماری بداعمالیوں نے ہماراحال اتنا خستہ کردیا ہے کہ الفاظ بھی اس کو بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم خود ان احوال وکوائف کو، ان مصائب ومشکلات کو سمجھنے سے عاجز وعاری ہیں۔ تو پھر بھلا ہم کیا اپنی اصلاح کریں گے؟
ہم کیا رجوع الی اللہ کی طرف لپکیں گے؟ اور پھر کیسے یہ مسائل حل ہوں گے؟ یعنی جس قوم کا یہ حال ہو کہ اس کے (چند)نوجوان (ایسے بھی ہوں کہ )مساجد میں تراویح کی نماز میں پہلی رکعت میں امام صاحب کے قرآن پڑھنے تک موبائیل کھول کر بیٹھ جائیں اور امام صاحب کے رکوع میں جاتے ہی فوری طور پر ہڑبڑی میں رکعت باندھ کر شامل ہوجائیں ،تو پھر کہاں سے یہ قوم اللہ تعالیٰ کی مدد کی اہل ہوسکتی ہے؟ جس قوم کا ماہ رمضان صرف اور صرف شاپنگ اور کھانے پینے کے اہتمام میں ہی گزرجائے، اور ان کےاندر اس بات کا احساس تک بھی نہ ہو کہ انہوں نے کون سا عظیم سرمایہ کھو دیا ہے تو پھر کہاں سے نصر من اللہ وفتح قریب(اللہ کی جانب سے مدد اور عنقریب حاصل ہونے والی فتح) کی خوشخبری پوری ہوسکتی ہے؟ جو قوم اپنے موبائیل پر ریل کو اسکرول کرتے کرتے غزہ کے خون سے نہائے ہوئے ، روتے بلکتے ، تھرتھراتے ہوئےچھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو دیکھ کر افسوس تو کرے لیکن اگلے ہی لمحے دوسری ریل کو دیکھ کر ہنسی ٹھٹھے میں مصروف ہوجائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اس قوم پر رحمت خداوندی کے بادل بے تحاشہ برسنے لگ جائیں ؟
ہمارے احساس کے مرنے کی چند مثالیں ہیں، ورنہ اس میں جتنی گہرائی میں جائیں گےدل اتنا حیرانی کاشکارہوتا جاتا ہے۔ بہرحال یہ دل دکھانے والی باتیں ایک طرف اور اس رحیم وکریم رب کا لطف وکرم ایک طرف ۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں جاگے وہیں سویرا، بس اسی طرح اہل ایمان جس لمحہ ، جس لحظہ جاگ جائیں اور رحمٰن ورحیم کے سامنے اپنا دامن پھیلائیں تو ہمارا رب کبھی بھی ہمیں مایوس نہیں کرتا۔ بلکہ انسان کو پیش آنے والی ان مشکلات کے متعلق اللہ عزوجل نے اعلان کیا ہی ہے کہ:’’اور اس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم انہیں کم درجے کے عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے۔ شاید وہ باز آجائیں۔ ‘‘ یہ دنیاوی مسائل، یہ دنیا وی ابتلاء وآزمائش ایک کوشش ہے کہ جس کے ذریعہ ہمیں گناہوں سے باز آجانے کی وارننگ دی جاتی ہے۔ اگر ہم ٹھوکر لگ کر بھی سدھرجائیں اور فَفِرُّوا إِلَى اللهِ(دوڑو اللہ کی طرف) کے حکم پر عمل کریں توپھر ہمارے رب نے ہمیں یہ خوشخبری سنائی ہی ہے کہ وہ ہماری دنیا کی زندگی بھی سدھاردے گا اور آخرت میں نیکوکاروں کیلئے اجرعظیم تیار ہے ہی۔