• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اصلاح معاشرہ اور مطلوب انفرادی کردار

Updated: January 31, 2025, 3:54 PM IST | Mohibullah Qasmi | Mumbai

خلوص و للّٰہیت، انکساری و خیر خواہی، قول و عمل میں یکسانیت اور حکمت و دانائی ضروری ہیں۔

Modesty and kindness play an important role in improving the personality of a person and making him impressive. Photo: INN
انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور اسے متاثر کن بنانے میں تواضع و انکساری اور خیر کا اہم کردار ہے۔ تصویر: آئی این این

افراد سے بننے والا اچھا اور مثالی معاشرہ بااثر شخصیات اور متاثر کن رہنما پر منحصر ہے۔ معاشرے کے افراد ایسی شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں، پھر اسے اپنے لئے رول ماڈل بناتے ہیں۔ اگر معاشرے میں مثالی اور متاثر کن شخصیات نہ ہوں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے اور ان کی باتوں سے لوگ متاثر ہو کر اپنے اعمال و کردار پر توجہ دینے لگیں اور ان کے رویے سے متاثر ہو کر اپنے احوال و معاملات درست کرنے کی طرف راغب ہوں تو معاشرہ پُرامن اور خوش حال نہیں رہتا، وہ اخلاق کے اس معیار کو حاصل نہیں کر پاتا جو ایک اسلامی اور مثالی معاشرے کے لئے ضروری ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص کہاں سے آئے گا یا ایسے افراد کہاں ملیں گے؟ تو یاد رکھیں کہ ایسے افراد کسی دوسری دنیا سے نہیں آتے بلکہ وہ سماج کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اس امت کو خیر امت کہا گیا ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے ہی برپا کی گئی ہے۔ چونکہ مومنین مخلصین و مصلحین کے سامنے زندگی کا ایک نصب العین ہوتا ہے جو انسانی زندگی کے مقصد حیات کو سمجھتے ہیں، انہیں اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہوتا بلکہ وہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ انسانی زندگی اور اس کی حقیقت کو جانتے ہیں اور انہیں اپنی کمی و کوتاہیوں کا خیال بھی ہوتا ہے۔ وہ صرف فلسفیانہ گفتگو کے قائل نہیں ہوتے بلکہ انہیں علم و عمل کے امتزاج کا پورا ادراک ہوتا ہے، انہیں اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ علم، عمل کے لئے ہی ہے۔ ان خوبیوں کو نکات کی شکل دی جائے جو متاثر کن شخصیت کے لئے ضروری ہیں تو انھیں چند حصوں میں تقسیم جا سکتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:اللہ نے آپؐ کو اتنا ہی نہیں سکھایا جتنا قرآن میں منقول ہے بلکہ وحیٔ خفی بھی نازل ہوتی رہی

خلوص و للّٰہیت
 پہلی چیز خلوص ہے۔ کوئی بھی انسان اس وقت تک متاثر کن شخصیت نہیں بن سکتا یا وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنے عمل میں مخلص نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر رکھا گیا ہے، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اپنی نیت درست کرے تاکہ اس کا جو بھی عمل ہو وہ خالص ہو اور اللہ کے لئے ہو۔ مثلاً دوستی ایک فطری اور جذباتی عمل ہے لوگ خوب دوستی کرتے ہیں، مگر کیا اس دوستی میں خلوص ہے؟ کیا وہ کسی کا دوست ہونے کی بنا پر اس کا خیر خواہ ہے؟ اس کا راز دار ہے یا یہ دوستی صرف ایک دکھاوا ہے جس میں نفرت و عناد پوشیدہ ہے؟ اسی طرح پڑوسی سے دعا سلام ہے، میل جول ہے، مگر کیا اس میں خلوص ہے؟ یا محض رسماً ادا کیے جانے والے بول ہیں۔ اگر سلام میں خلوص ہے تو مسلمانوں کا باہمی رشتہ مضبوط ہوگا اور وہ آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہوں گے۔ کیوں کہ سلام باہمی محبت کی بنیاد ہے۔ 
صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں یہ چیز ہمیں ملتی ہے کہ ان کے اعمال میں اخلاص ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ذرا سا بھی ریا کا کوئی شائبہ محسوس ہوتا تو خود ہی اسے منافقانہ عمل قرار دیتے۔ وہ تعداد کی قلت و کثرت کی پروا کیے بغیر ہر محاذ پر سینہ سپر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیتیں متاثر کن رہیں اور وہ دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہوئے۔ 
انکساری و خیر خواہی
 انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور اسے متاثر کن بنانے میں تواضع و انکساری اور خیر کا اہم کردار ہے۔ انسان جب سامنے والے کو دیکھتا ہے کہ وہ دوسروں کا احترام کرتا ہے، اس کے ساتھ بڑے پیار اور محبت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے تواضع کے ساتھ ملتا ہے۔ اسے اپنے علم و عمل اور تقویٰ کا غرور نہیں ہے۔ کوئی بھی اسے دعوت دے وہ انکار نہیں کرتا، مصیبت و پریشانی میں آواز دے وہ لبیک کہتا ہے۔ کوئی کچھ معلوم کرنا چاہے تو وہ اسے بڑے پیار سے سمجھاتا ہے۔ پڑوس میں کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جاتا ہے، کسی کے گھر میں کوئی خوشی کا ماحول ہو تو اسے مبارک باد پیش کرتا ہے، حتی الامکان ضرورت مندوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ اس کے اس رویے سے لوگ اس کے قریب آتے ہیں۔ ایسے تواضع اختیار کرنے والے شخص کی معاشرے میں نہ صرف عزت ہوتی ہے بلکہ وہ ایک متاثر کن شخصیت بن جاتا ہے۔ پھر وہ اصلاح و تربیت کا کام انجام دے تو اس کی باتیں با وزن ہوتی ہیں، جن پر لوگ نہ صرف کان دھرتے ہیں بلکہ اپنے لئے قول فیصل سمجھتے ہیں۔ 
 اس طرح اللہ تعالی معاشرے میں اسے ایک بلند مقام عطا کر تا ہے، جو درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے: جس نے اللہ کے لئے تواضع و انکساری کی روش اختیار ی ہے اللہ تعالی نے اسے بلندی عطا کی ہے۔ (مسلم)

یہ بھی پڑھئے:اسلام میں سرمایہ کاری کے اصول اور موجودہ حالات کا تقاضا

قول و عمل میں یکسانیت
 ہر دور میں اس بات کی بڑی اہمیت رہی ہے کہ بندہ جو کہتا ہے، خود بھی اس کا خیال رکھتا ہے یا بڑی حد تک اس کی پابندی کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ صرف لوگوں کو نصیحتیں کرتا ہے، اصلاح و تربیت پر زور دیتا ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے مگر عملی طور پر اس کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ بلکہ وہ ان باتوں کی پروا ہی نہیں کرتا یا جس کسی معاملے میں وہ خود زد میں آتا ہے وہاں وہ اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔ ایسے میں اس کی باتوں کا وہ اثر نہیں ہوتا جس سے لوگوں کے دل عمل کی طرف مائل ہو اور وہ بھی ان باتوں سے اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مصلحین و مربیین کی بڑی تعداد میں یہ کوتاہیاں آ گئی ہیں۔ نتیجہ معاشرہ میں اس کی اصلاح و تربیت کا وہ اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اسی لئے قرآن پاک میں ایسے شخص کی بڑی سخت سرزنش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ ‘‘(البقرہ:۴۴)
 اس حوالے سے ایک دوسری آیت جو بہت مشہور ہے:
’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ ‘‘الصف:۲)
حکمت و دانائی
 حکمت و دانائی اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ اللہ نے اس کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:
’’ اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ‘‘ (البقرہ:۲۶۹)
 حکمت کو مومن کی گم شدہ چیز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مومن کو نادانی اور بے وقوفی کا عمل زیب نہیں دیتا اسی لئے اس کے ہر عمل میں حکمت جھلکتی ہے۔ عام گفتگو سے لے کر بڑے سے بڑے معاملات تک کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تمام چیزوں میں حکمت و دانائی تلاش کرتا ہے، اس کے ذریعہ معاملہ فہمی پر زور دیتا ہے۔ اس لئے وہ صرف ظاہری چیزوں سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تہہ تک جاتا ہے۔ اس میں چھپی حکمت و دانائی کی چیزیں نکال لیتا ہے جس سے معاملہ فہمی صلح و صفائی اور فیصلہ سازی میں آسانی ہوتی ہے۔ 
یہ وہ اوصاف ہیں جن سے انسان معاشرہ میں نمایاں اور بااثر شخصیت بن کر نہ صرف لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ اصلاح و تربیت کا بہترین عمل بہ حسن و خوبی انجام دینے میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔ 
۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK