قرآن نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ وہ گھر والوں کو دین کی تعلیم دیں، دین کی تربیت دیں تاکہ وہ کل جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔
EPAPER
Updated: August 23, 2024, 4:34 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
قرآن نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ وہ گھر والوں کو دین کی تعلیم دیں، دین کی تربیت دیں تاکہ وہ کل جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔
قرآن نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ وہ گھر والوں کو دین کی تعلیم دیں، دین کی تربیت دیں تاکہ وہ کل جہنم کی آگ سے بچ جائیں :
’’ اے ایمان والو! بچائو اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں، جو ہرگز سرتابی نہیں کرتے، اس حکم سے جو اللہ نے انہیں دیا ہے اور وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (التحریم: ۶)
اس واضح حکم کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ مرد جس کو اللہ نے عائلی زندگی کا سردھرا اور قوّام (سربراہ، کفیل، نگراں ) بنایا ہے دوسری ذمہ داریوں کی طرح اس کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس کی نگرانی میں گھر کے جو لوگ دیے گئے ہیں وہ ان کی تعلیم و تربیت کا ایسا بندوبست کرے کہ وہ خدا کے مخلص بندے بن کر رہیں، اور اسلام کے خادم بن کر جئیں، اور کل حشر کے میدان میں وہ جہنم سے نجات پانے والے صالحین میں شامل ہوں۔
یہ بھی پڑھئے:نبی کریم ؐکی ذہانت و فراست اور حسنِ تدبیر کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا تھا
مگر میں آپ سے ایک دوسری بات بھی عرض کرتا ہوں ، وہ یہ کہ اگر مرد غافل اور لاپروا ہو تو یاد رکھیں عورتوں کا دین مردوں کے ذمّے نہیں ہے، نہ مرد عورت کی ذمہ داریوں کا جواب وہ ہوگا۔ دین جس طرح مردوں کا ہے ٹھیک اسی طرح عورتوں کا بھی ہے۔ اگر عورتوں کو خدا نے شعور دیا ہے تو وہ خود توجہ کریں۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں غفلت برت رہے ہیں تو خود خواتین آگے بڑھ کر دعوت و تحریک کو سمجھیں اور اللہ کی عائد کردہ دینی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ مردوں کی غفلت اور لاپروائی کو بہانہ نہ بنائیں، بلکہ جہاں مرد دین سے غافل ہوں، عورتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ انھیں متوجہ کریں اور راہِ راست پر لانے کے لئے دل سوزی، حکمت اور تسلسل کے ساتھ کوشش کریں۔
ایک مثالی گھر یا خاندان وہ ہے، جہاں مہرومحبت ہو، سلیقہ اور تہذیب ہو، خوش گوار تعلقات ہوں، باہم تعاون ہو… مگر یہ سب کچھ اسلام کی روشنی اور دین دارانہ ماحول میں ہو اور پورا گھر اسلام کی نمائندگی کرنے والا ہو۔ اس نمائندگی میں بلاشبہ سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے، لیکن اس سے انکار کی کیا گنجائش کہ عورت کا رول بھی اس میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے آپ اس طرح سوچیں کہ بلاشبہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر والوں پر توجہ دیں لیکن اسی پر تکیہ کئے بیٹھے رہنا اور اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرنا، کسی طرح صحیح نہیں۔ ایک خاتون کو بھی دین کی طرف اسی طرح بطور خود توجہ کرنی چاہئے جس طرح ایک مرد سے توقع کی جاتی ہے۔ مرد اگر توجہ نہیں کرتاہے، تو اس کی شکایت کرنے یا اس کی غفلت پر اظہار رنج و افسوس کرنے سے اپنے فرض کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت حال میں تو عورت کی ذمہ داری دُہری ہوجاتی ہے کہ قوّام کے حصے کا کام بھی کسی نہ کسی طرح اسے انجام دینا ہے۔ قوّام کی غفلت اور لاپروائی نے اس کی ذمہ داری میں اضافہ کردیا ہے اور ایسے گھرانے میں عورت کو اور زیادہ دل سوزی، توجہ اور لگن کے ساتھ دینی فرائض انجام دے کر قوّام کو بھی دینی فرائض کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور ان کا حل، ص ۳۲۸)