یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حالات کا ہمت سے مقابلہ کرنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا اور اسے تاریکی میں بھی روشنی نظر آتی ہے۔ اسی لیئے اللہ رب العزت نے وقتی حالات سے آزردہ خاطر ہونے اور گھبرانے سے صاف طور پر منع فرمایا ہے۔
EPAPER
Updated: November 01, 2024, 12:16 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حالات کا ہمت سے مقابلہ کرنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا اور اسے تاریکی میں بھی روشنی نظر آتی ہے۔ اسی لیئے اللہ رب العزت نے وقتی حالات سے آزردہ خاطر ہونے اور گھبرانے سے صاف طور پر منع فرمایا ہے۔
جب انسان اس دنیا میں آتا ہے اور اللہ رب العزت اسے لمبی زندگی بھی عطا کرتے ہیں تو زندگی کی گاڑی کو بہتر ڈھنگ سے آگے بڑھانے کے لئے انسان کو مختلف زاویوں سے محنت بھی کرنی ہوتی ہے اور اس محنت میں اسے مختلف حالات کا سامنا بھی کرنا ہوتا ہے۔ یہ حالات انسان کو در اصل مضبوطی اور حکمت عملی سے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں لیکن جو شخص ان حالات سے گھبرا جاتا ہے یا حالات کو اپنے لئے اس طرح بوجھ بنا لیتا ہے کہ اس کے قدم بوجھل ہو جاتے ہیں اور وہ آگے بڑھنے کی سکت کھو بیٹھتا ہے تو ایسا شخص زندگی میں سکون کی کیفیت سے محروم ہوجاتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حالات کا ہمت سے مقابلہ کرنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا اور اسے تاریکی میں بھی روشنی نظر آتی ہے۔ اسی لیئے اللہ رب العزت نے وقتی حالات سے آزردہ خاطر ہونے اور گھبرانے سے صاف طور پر منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’(اے مسلمانو!) تم نہ ہمت ہارو اورنہ غم کھاؤ، اگر تم ایمان رکھتے ہوتو تم ہی غالب رہو گے۔ اگر تم کو زخم لگا ہے، تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم لگ چکا ہے اورہم لوگوں کے درمیان دنوں کو ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ آل عمران: ۱۳۹۔ ۱۴۰)۔ اس آیت کریمہ کی شان نزول یہ ہے کہ غزوۂ احد میں مغلوب ہونے کے بعد مسلمان دل برداشتہ تھے۔ ایسے موقع پر اللہ رب العزت نے انہیں تعلیم دی کہ حالات سے گھبرانا اور حالات کو اپنے لئے بوجھ بنا کر چلنا مسلمانوں کا کام نہیں ہے بلکہ حالات سے باہر آکر فتح کے جھنڈے گاڑنا مسلمانوں کا کام ہے۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی ہے کہ ابھی گزشتہ سال کی بات ہے کہ غزوۂ بدر میں مدمقابل کو اس سے بڑھ کر شکست ہوچکی ہے، تو جب باطل شکست کھاکر پھر عارضی فتح حاصل کرسکتا ہے تو اہل حق حالات سے کیوں گھبرائیں ؟
یہ بھی پڑھئے: اپنے ہنر اور صلاحیت سے دوسروں کو فیض پہنچائیں
مذکورہ سیاق و سباق میں جب ہم اپنی ذاتی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں جس کام سے منع فرمایا ہے، ہم وہی کام کرتے ہیں ؛ یعنی ہم حالات سے گھبرا جاتے ہیں اور حالات کو اپنے لئے پاؤں کی زنجیر بنا لیتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد صرف اور صرف حالات کا رونا روتے ہیں اور ترقی اور کامیابی کی راہ میں حالات کو رکاوٹ قرار دیتے ہیں ؛ چہ جائیکہ ہم حالات کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور فاتح بن کر سامنے آئیں ؟
ہم سب کے بہترین رول ماڈل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی سے بھی ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے کہ جب ہم پرحالات آجائیں تو قدم پیچھے ہٹانے کے بجائے آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ نبیؐ اکرم کی حیات ِ مبارکہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک رات مدینہ والے (شہر کے باہر شور سن کر) گھبرا گئے (کہ شاید دشمن نے حملہ کیا ہے)۔ سب لوگ اس شور کی طرف بڑھے۔ نبی ؐ مہربان آواز کی طرف بڑھنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ آپ چلتے اور بڑھتے جاتے اور تسلسل کے ساتھ فرماتے تھے کہ ڈر کی کوئی بات نہیں، ڈر کی کوئی بات نہیں۔ (بخاری)
رب العالمین کا یہ ارشاد غور طلب ہے کہ تم تدبر کرو، غور کرو، کیونکہ غور کرنے سے بہت سی باتیں واضح ہوتی ہیں۔ بہت سے افراد کبھی حقیقی حالات سے تو کبھی یونہی شک کی بنیاد پر انجانے خوف سے پریشان رہتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح حقیقی حالات سے ڈٹ کر مقابلہ ضروری ہے بالکل اسی طرح شک کی بنیاد پر کسی حالت سے پریشان ہونے کے بجائے تحقیق ضروری ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ جس چیز کو ہم اپنے لئے پریشانی سمجھ رہے ہیں، اس کا حقیقت میں وجود ہی نہ ہو۔ عملی تجربے سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے؛ اگر آج کوئی پریشان حال ہے تو کل اس کو آسودگی بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے حالات کو بوجھ بنا کر آگے بڑھنا نہ عقلاً درست ہے اور نہ شرعاً۔ اللہ رب العزت نے تو صاف ارشاد فرما دیا ہے:’’یقیناً ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ‘‘ (الم نشرح:۵)