انسانی تخلیقیت کی پرواز دراصل اس کے ذہن کی پرواز ہے، جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ قرآن و حدیث میں انسان کو ’’اشرف المخلوقات‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں افضل قرار دیا گیا ہے، اور اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو عقل و شعور اور تخلیقی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات میں غور و فکر کرنے کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ تصویر : آئی این این
انسانی تخلیقیت کی پرواز دراصل اس کے ذہن کی پرواز ہے، جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ قرآن و حدیث میں انسان کو ’’اشرف المخلوقات‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں افضل قرار دیا گیا ہے، اور اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو عقل و شعور اور تخلیقی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ یہ تخلیقی قوتیں انسان کو اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں نئے راستے تلاش کرنے، نئے خیالات کو جنم دینے، اور مشکل حالات میں حل نکالنے کے قابل بناتی ہیں۔
تخلیقی صلاحیت ایک الٰہی عطیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی خصوصی نعمتیں دی ہیں، جن میں سب سے اہم اس کی عقل اور تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر انسان کے تخلیقی عمل کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور بے شک ہم نے آدمی کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ ‘‘ (سورۃ التین:۴)
یہ آیت اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کو خاص مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کے پاس اعلیٰ صلاحیتیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کائنات کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے تاکہ وہ اپنے رب کو پہچان سکے اور اس کی عظمت کو سمجھے۔
انسانی تخلیقیت کے بارے میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ تمام انبیاء کرام نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے مختلف تخلیقی ذرائع کا استعمال کیا۔ حضرت نوحؑ نے کشتی بنائی، جو ایک انوکھی ایجاد تھی؛ حضرت ابراہیمؑ نے بت پرستی کے خلاف دلیلوں سے کام لیا؛ اور حضرت محمدؐ نے اپنے کردار اور اعلیٰ اخلاق کے ذریعے لوگوں کے دل جیتے۔
یہ بھی پڑھئے:صبر، حسن ظن ، زبان کا صحیح استعمال انسانی رشتوں میں آنے والے ہر مسئلے کیلئے نسخۂ اکسیر ہیں
یہ تمام مثالیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ اللہ کے نبیوں نے انسان کی ذہنی اور تخلیقی قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح کے لئے انقلابی اقدامات کیے۔
فلسفیانہ نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی تخلیقیت اس کی وجودی حقیقت اور اس کے مقام و مرتبے کی عکاسی کرتی ہے۔ وجودیت کے مطابق، انسان اپنے وجود کی تخلیق خود کرتا ہے۔ فلسفی ژاں پال سارتر کہتا ہے:’’انسان کا وجود اس کے جوہر سے پہلے آتا ہے۔ ‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال، فیصلے اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اپنی شخصیت اور زندگی کا تعین خود کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے عمل اور سوچ کے ذریعے اپنی دنیا کو سنوارے یا بگاڑے۔ اس اختیار کے ساتھ، تخلیقیت انسان کو اپنی زندگی کو معنی اور مقصد دینے کے قابل بناتی ہے۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر انسان کو غور و فکر اور تخلیقیت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے؟ اور آسمان کو کہ وہ کیسے بلند کیا گیا؟‘‘
(سورۃ الغاشیہ:۱۷۔ ۱۸)
یہ آیات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ انسان کو اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے قدرت کی نشانیاں دیکھنی چاہئیں اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ تخلیقیت دراصل غور و فکر، تدبر اور مشاہدے سے جڑی ہوئی ہے، جو انسان کو اللہ کی معرفت اور اس کے قرب کی طرف لے جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تخلیقیت کا مقصد صرف مادی ترقی نہیں بلکہ روحانی و اخلاقی ترقی بھی ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے سائنس، فلسفہ، ادب، اور فنون لطیفہ میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ خلفائے راشدین اور بعد کے حکمرانوں نے علم و ہنر کی سرپرستی کی، جس کے نتیجے میں عظیم الشان علمی مراکز جیسے بغداد کی بیت الحکمت اور قرطبہ کی لائبریریاں وجود میں آئیں۔
ان تمام کامیابیوں کے پیچھے اصل مقصد انسانی فلاح و بہبود اور اللہ کی رضا تھی۔ مسلمان مفکرین نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف سائنسی اور علمی میدانوں میں ترقی کی، بلکہ انسانیت کے لئے اخلاقی اور روحانی رہنمائی بھی فراہم کی۔
انسانی تخلیق کی پرواز دراصل اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا استعمال ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس کا آغاز انسان کی عقل و شعور سے ہوتا ہے اور جس کی انتہا اللہ کی معرفت میں ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں انسان کو دنیا میں نئی راہیں تلاش کرنے، مسائل کا حل نکالنے، اور اللہ کی عظمت کا شعور حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مثبت طریقے سے استعمال کرے تو وہ نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے علم و ہنر کے میدان میں آگے بڑھنا چاہئے اور اللہ کی زمین پر خیر و بھلائی کا پیغام عام کرنا چاہئے۔