انسان کا مزاج اللہ عزوجل نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ اس کو معاشرہ یعنی لوگوں میں مل جل کر رہنا پسند ہے۔ اسی لئے انسان عام طور پر پہاڑوں، جنگلوں اور وادیوں میں نہ رہتے ہوئے انسانی آبادیوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 15, 2024, 3:55 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai
انسان کا مزاج اللہ عزوجل نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ اس کو معاشرہ یعنی لوگوں میں مل جل کر رہنا پسند ہے۔ اسی لئے انسان عام طور پر پہاڑوں، جنگلوں اور وادیوں میں نہ رہتے ہوئے انسانی آبادیوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔
انسان کا مزاج اللہ عزوجل نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ اس کو معاشرہ یعنی لوگوں میں مل جل کر رہنا پسند ہے۔ اسی لئے انسان عام طور پر پہاڑوں، جنگلوں اور وادیوں میں نہ رہتے ہوئے انسانی آبادیوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔ بلکہ لفظ انسان خود اُنس سے ہی بنا ہے، کہ دوسروں کے ساتھ انسیت اور لگاؤ کے ذریعہ ہی انسان کی زندگی خوشی سے گذر بسر ہوتی ہے۔ انسان کو دوسرے انسانوں سے، چاہے وہ ان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، کس قدر لگاؤ ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان کو کوئی ڈراؤنی کہانی اگر رات کی تنہائی میں ، کسی ویرانے میں سنائی جائے تو وہ ڈر جائے گا۔ لیکن اگر یہی کہانی دن کے اجالے میں یاکسی بھیڑ بھاڑ والی جگہ پر سنائی جائے تو انسان کو قطعی طور پر ڈر محسوس نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ اپنے آس پاس دوسرے انسانوں کا موجود ہونا اس کو ایک اطمینان اور تحفظ عطاکرتا ہے۔
انسان کا دوسرے انسانوں سے یہی وہ رشتہ ہے جو اس کی زندگی کو پرسکون اور محفوظ بناتا ہے اور اس کو خوشیوں سے بھردیتا ہے۔ یہ رشتہ کبھی ماں باپ اور اولاد کی شکل میں ہوتاہے، تو کبھی میاں بیوی اور بھائی اور بہن کی کی شکل میں۔ کبھی کوئی اور رشتے دار کی شکل میں ہوتا ہے تو کبھی پڑوس، دوست، یا شناسا کی شکل میں۔ کبھی اس رشتہ کی بنیاد اسکول کالج میں ساتھ پڑھنے کی بنیاد پر ہوتی ہے یا پھر آفس یا کمپنی میں ساتھ کام کرنے کی وجہ سے یا کبھی آس پاس دکان اور کاروبار ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا دوسروں سے ہر قسم کا رشتہ ہمیشہ ابلیس کے حملوں کی زد میں ہوتا ہے۔ شیطانی خیالات ہمیشہ انسانی رشتوں کوکمزور کرنے میں لگے رہتے ہیں ، کیونکہ یہ رشتے جتنے کمزور ہوں گے انسانی معاشرے میں اتنی بے چینی بڑھے گی اور ہر انسان کو اتنا زیادہ نقصان ہوگا۔ یہ نقصان اسے بے چین کرے گا، بدظن کرے گا اوربالآخر اس کو گناہ کی طرف آمادہ کرے گا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے انسانی رشتوں کے تحفظ کی دیواریں کافی اونچی کردی ہیں تاکہ ابلیس ان کو پھلانگ کر اندر نہ آسکے اور انسانی رشتوں کی ڈور کو کمزور نہ کرسکے۔
یہ بھی پڑھئے:لو َجہاد: کتنی حقیقت، کتنا فسانہ اور کتنا پروپیگنڈہ ؟
قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور ان کے سامنے اف تک نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس لئے کہ جیسے جیسے اولاد جوان ہوتی ہے، طاقتور ہوتی ہے، ماں باپ پر بڑھاپا اور کمزوری طاری ہوتی جاتی ہے۔ دنیا کا اصول ہے کہ طاقتور کمزور کو دباتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ عزوجل نے اس مقدس انسانی رشتے میں اولاد کووالدین کے خلاف اف بھی کرنے سے منع کردیا ہے تاکہ اس عظیم انسانی رشتے میں کسی قسم کی افراط وتفریط نہ ہوسکے۔ اسلامی تعلیمات میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی بتلایا گیا، بیوی پر شوہر کے حقوق اور شوہر پر بیوی کے حقوق گن گن کر بیان کئے گئے۔ شوہر کیلئےاچھے ہونے کا پیمانہ بیوی سے اچھا برتاؤ قرار دیاگیا۔ ایسے ہی رشتے دار وں او رپڑوسیوں کے حقوق کو نہایت شدت کے ساتھ بیان کیا گیا۔ ان تعلیمات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسے انسانی معاشرے کا تانا بانا تیار کرنا چاہتا ہے کہ جس میں ابلیسی کارروائیاں اثر انداز نہ ہوسکیں۔
ویسے تو انسانی رشتوں کی مضبوطی کے لئے اسلامی تعلیمات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہے، لیکن غور وخو ض کے بعد ہم اس چمن سے تین پھول، تین تعلیمات چنتے ہیں کہ جو مضبوط انسانی رشتوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ ان میں سب سے سرِ فہرست صبر آتا ہے۔ انسانی رشتوں میں ثبات کی صبر ہی شاہ کلید ہے۔ قرآن کے مطابق انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ پس انسانی رشتوں میں بھی وہ ایسا ہی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بہت بڑے بڑے فیصلے کر ڈالتا ہے۔ اگر وہ اسلام کی صبر کی تعلیمات پر عمل کرکے کچھ قوت برداشت پیدا کرلے تو وقت بہت اثر والا مرہم ہے، وقت کے ساتھ ساتھ آپس کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں۔ قرآن مجیدمیں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: اگر وہ (عورتیں ) تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے۔ (سورۃ النساء: ۱۹)
اسی طرح ایک اور چیز جو رشتوں کو تروتازہ رکھتی ہے وہ خوش گمانی ہے۔ اس لئے کہ اکثر انسانوں کے درمیان بدگمانی اور منفی سوچ ہی رشتوں میں دراڑ پید اکرتی ہے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے سے بدگمانیاں تو رکھتے ہیں لیکن اس کی وضاحت نہیں کرتے، اور اس طرح بدگمانیوں پر بدگمانیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ اسلام نے جہاں ایک طرف بدگمانی سے بچنے کی تلقین کی، وہیں دوسری طرف حسن ظن(یعنی اچھی اور مثبت سوچ)اختیار کرنے پر خوب زور دیا۔ بخاری و مسلم میں ایک واقعہ ملتا ہے: ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ اعتکاف میں تھے، تو میں رات کے وقت آپ ﷺ ْسے ملاقات کے لئے (مسجد میں ) آئی۔ میں آپ ﷺ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر جب واپس ہونے کے لئے کھڑی ہوئی، تو آپ ﷺ بھی مجھے چھوڑ کر آنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ (صفیہ رضی اللہ عنہا کی رہائش اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے مکان ہی میں تھی)۔ اسی وقت دو انصاری صحابہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، تو تیز چلنے لگے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ذرا ٹھہرو۔ یہ صفیہ بنت حیی ہیں ! ان دونوں صحابہ نے عرض کیا: سبحان اللہ، یا رسولؐ اللہ! ( کیا ہم آپؐ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ اس لئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی بری بات نہ ڈال دے۔ ‘‘یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ انسانی رشتوں میں خوش گمانی کس قدر ضروری ہے۔ اگر کہیں کسی قسم کی بدگمانی آبھی رہی ہو تواس سے متعلق شخص کو آگے بڑھ کر، بلا جھجھک اس کو دور کردینا چاہئے۔
انسانی رشتوں میں جو تیسری چیز سب سے زیادہ زہر گھولتی ہے وہ ہماری زبان ہے۔ یہ دو دھاری تلوار اچھی بات کرے تو دلوں کو جوڑ دیتی ہے، اور اگر یہ خرابی پر اترآئے تو انسانی رشتوں میں تباہی مچادیتی ہے۔ قرآن وحدیث میں زبان کو سنبھل کر استعمال کرنے کی تعلیم ہمیں ملتی ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ بھی یہ بتلاتا ہے کہ زبان کی مٹھاس سے ہی انسانی رشتوں میں بھی مٹھاس باقی رہتی ہے۔ انسان اگر اپنے رشتے دوسروں سے مضبوط رکھنا چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اپنی زبان میں مٹھاس کو کبھی مرنے نہ دے ورنہ اگر قینچی کی طرح چلنے والی یہ زبان برے الفاظ کے استعمال پر اتر آئے تو رشتے کی ہر ڈور کو تار تار کردیتی ہے۔
یہ تین باتیں صبر، حسن ظن اور زبان کا صحیح استعمال انسانی رشتوں میں آنے والے ہر مسئلے کے لئے نسخۂ اکسیر ہیں۔ کاش کہ ہم ان کی اہمیت کو سمجھیں اور انسانی رشتوں میں ان کو عمل میں لائیں تاکہ ایک صالح، صحتمند اور خوش کن انسانی معاشرے کا وجود عمل میں آسکے۔