اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 26, 2024, 4:52 PM IST | Syed Munawar Hasan | Mumbai
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی عقیدے میں پختہ ہو یا کمزور، یہ ضمنی بحثیں ہیں، لیکن اصلاً جس عقیدے کا حامل جو شخص ہوتا ہے اس کے اعمال، افعال، رویے اور کردار پر لازماً اس کا گہرا اثر اور چھاپ ہوتی ہے۔
عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اس طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس (موجودہ) زندگی کو ہم عارضی یا ناپائیدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دروازہ سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پائیدار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ قرآن میں جابجا اس حوالے سے جوابدہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:
’’اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ:۴)
’’کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘ (القیامۃ : ۳۶)
تمام اعمال کی جواب دہی اسی عقیدۂ آخرت کی بنیاد پر ہے۔ محاسبہ ٔ اعمال کی تفصیل قرآن پاک کے اوراق کے اندر بکھری ہوئی ہے۔ سورئہ واقعہ، سورئہ معارج، سورئہ حاقہ، سورئہ قیامہ، سورئہ تکویر اور سورئہ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جو انسان جو کچھ لے کر آیا ہے اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھئے:مثالی شخصیت کی تعمیر کے لئے فرائض کے ساتھ اخلاقی امور پر بھی توجہ ضروری ہے
اور اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اور پکاریں گے: ہائے ہماری کم بختی، کس نے ہماری خواب گاہوں سے ہمیں جگادیا اور یہ تو وہی قیامت کادن ہے، جس کا حق تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے اس کے بارے میں سچی خبریں ہم تک پہنچائی تھیں … یہ وہ منظرکشی ہے جس سے تسلسل کے ساتھ آخرت اور اس کی جواب دہی اور اس حوالے سے انسانوں کے اعمال کو دیکھا اور پرکھا جانا سامنے آتا ہے۔
عقیدۂ آخرت اور تزکیہ
ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوارنے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے اوراس کو درست رُخ دینے اور منزل کا شعور بخشنے کےلئے اگر کوئی عقیدہ ہے تو وہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ آخرت کی فکر کے لئے یہ پوری منظرکشی قرآنِ مجید اور احادیث میں ملتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے، اس لئے کہ فکر ِ آخرت انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان بے عمل ہوجائے، غلط راہوں پر چل نکلے، گم کردۂ راہ ہوجائے، سب کچھ جانتے ہوئے عملی زندگی میں انجان سا بن جائے، تو یہ آخرت کی فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور اس کے ایمان پر لگ جانے والے زنگ کو اُتارنے، دیگر افکار اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔
جناب صدیق اکبرؓ اور نبیؐ کریم پرانے ساتھی تھے۔ عمر میں بھی دو ہی سال کا فرق تھا، گویا بچپن ہی سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر تو بڑھاپا آگیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورئہ ہود، سورئہ واقعہ، سورئہ مرسلات، سورئہ نبا اور سورئہ تکویر نے۔ (ترمذی)
ان سورتوں کی اگر تلاوت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کا بیان ہے۔ ان میں اس پکڑ، بازپُرس اور تنبیہ کا بیان ہے جو آخرت برپا ہونے سے پہلے کی جارہی ہے۔ نبی کریمؐ ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے تو آپؐ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی تھی۔ آپؐ چونکہ داعیِ اعظم اور داعیِ اوّل تھے، اس لئے یہ خوف بھی آپؐ کو ستاتا تھا کہ اگر یہ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے تو لازماً پکڑے جائیں گے، اور اس طریقے سے بارگاہِ رب العزت میں دھر لئے جائیں گے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ جس میں جواب دہی اور دوسروں کی نجات کے لئے فکرمند ایک داعی کی حیثیت سے آپؐ سرشار رہتے تھے۔ لوگوں تک پہنچنا، ان کے دلوں پر دستک دینا، ان کو سیدھے راستے پر لانا، جہنم کی آگ سے بچانا اور قبر کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کیلئے تمام جتن کرنا، ان کی فکرمندی کا عنوان تھا۔ اپنی گھریلو زندگی میں بھی رسولؐ اکرم اس فکرمندی میں گھلے جاتے تھے۔ ان کیفیات کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث میں ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : میں نے حضوؐر کو بارہا یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لیجیے‘‘، تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک شخص کے اعمال نامے کو دیکھے گا اور بس اس سے صرفِ نظر فرما لے گا، تو یہ آسان حساب ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے عائشہؓ ! اس دن جس شخص سے واقعی پوچھ گچھ ہوگئی تو وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا۔ اسی لئے آپؐ نے درج ِ بالا دعا (اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ....) سکھائی۔
موت، ایک تلخ حقیقت
موت جس چیز کا نام ہے، اور جس سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں، یہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ موت کے بعد کے جو واقعات قرآن اور حدیث میں ملتے ہیں، وہ تو اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ ان کے تذکرے سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اور انسان کے اندر اعمال کے تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری دُور کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ موت سے زیادہ یقینی چیز کوئی بھی نہیں۔ یہ بڑی ہی تلخ حقیقت ہے اور اس سے انسانوں کو مَفر نہیں ہے۔ حضرت عثمانؓ قبر کو دیکھتے تھے تو آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی تھی، اور پوچھنے پر فرمایا کرتے کہ قبر، آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، لہٰذا اس کو دیکھتا ہوں تو یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ جس کے لئے یہ منزل آسان ہوئی، اس کے لئے ساری منزلیں آسان ہوئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے اَن گنت واقعات ہیں جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتے ہیں کہ وہ کس فکر کے اندر غلطاں و پیچاں رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبرؓ فرماتے تھے کہ کاش! میں تنکا ہوتا کہ اس کا کوئی حساب کتاب تو نہیں ہوتا۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ کاش! کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ میں چھو‘ٹ جائوں۔