اگر ہم اس کرئہ ارض پر گہری نگاہ ڈالیں تو سے ایسے پرندے دکھائی دیتے ہیں جن کی آواز موسیقی کی آواز سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔
EPAPER
Updated: May 31, 2024, 1:05 PM IST | Dr. Sabiha Naheed | Mumbai
اگر ہم اس کرئہ ارض پر گہری نگاہ ڈالیں تو سے ایسے پرندے دکھائی دیتے ہیں جن کی آواز موسیقی کی آواز سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔
اگر میں ’کباب‘ کا ذکر کروں تو ہمارے اور آ پ کے منہ میں پانی آجائے گا، اس کی بے پناہ لذت کا احساس ہوگا اور کھانے کی خواہش جاگ جائے گی لیکن اگر میں ’ کباب ‘ کے ساتھ ’ شراب‘ کو بھی شامل کردوں یعنی ’ شراب و کباب‘ تو آپ کو اس کباب سے کراہیت محسوس ہونے لگے گی اور احساسِ لذت جاتا رہے گا۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اچھی اور بری کوئی بھی چیز بذات خود سرے سے اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس سے منسلک کئی چیزوں کی نسبت سے اچھی یا بری قرار دی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال میوزک یا نغمے کا بھی ہے۔ یعنی کون سا نغمہ، کیسے سًر اور کیا ماحول؟ لیکن اکثر لوگ اس کے بارے میں دوٹوک بات کہہ گزرتے ہیں اور اس طرح نغمہ و موسیقی کو حتماً بُرا قرار دیا جاتا ہے۔ کیا یہ درست عمل ہے؟
حقیقتاً نغموں کا انسانی زندگی سے بہت ہی گہرا رشتہ ہے۔ انسانوں کے علاوہ جانوروں اور دیگر جانداروں پر بھی نغموں کے کافی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا ذکر قرآن کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے کہ’’ جب دائود ؑلَے کے ساتھ زبور پڑھتے تھے تو فطرت کے مختلف افراد وہاں جمع ہو جاتے تھے اور وجد میں آجاتے تھے۔ ‘‘ (اردو شاعری میں منظر نگاری، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ص۔ ۶۹)۔ چونکہ انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اگر اس کے جسم کی ساخت پر غور کیا جائے تو ایک لَے اور نغمگی وہاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر دل کا ایک منٹ میں ۷۲؍ بار دھڑکنا، نبض کا ایک رفتار اور رِدھم کے ساتھ چلنا، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی جسم کے اندر آمدورفت، دماغ کا پورے جسم پر کمانڈ کرنا لَے اور نغمگی کی بہترین مثالیں ہیں۔ اگر قدرت نے ہمارے جسم کو ایک ساز اور لَے سے آراستہ و پیراستہ کر رکھا ہے تو بھلا نغمے کو سننا یا سنانا معیوب یا ناجائز کیسے ہوسکتا ہے؟
یہ بھی پڑھئے: حج دراصل محبت اور عشق کی عبادت ہے
اگر ہم اس کرئہ ارض پر گہری نگاہ ڈالیں تو سے ایسے پرندے دکھائی دیتے ہیں جن کی آواز موسیقی کی آواز سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔ پپیہا بلبل، کوئل، مَینا اور دیگر پرندوں کی نغمہ سنجی مشہور ہے۔ کچھ جانور ایسے ہیں جو خود گا نہیں سکتے لیکن نغموں کا ان پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ مثلاً جب سپیرا بین بجاتا ہے تو سانپ ایذا رسانی سے باز رہتا ہے۔ ہرن بھی نغمہ سن کر اپنی دھما چوکڑی بھول جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیقی یا نغمہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔
آکسفورڈ کے ریڈکلف اسپتال میں کئے گئے ایک تجربے کے مطابق لوکل اینستھیشیا دے کر مریض کا آپریشن کرتے وقت میو زک چلا کر دیکھا گیا تو مریض کا اِسٹریس لیول دیگر مریضوں کے مقابلے بیس فیصد کم پایا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف لمبی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو میوزک تھیرا پی دی جاتی ہے اور اس کا مثبت اثر بھی محسوس کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نغموں میں اسٹریس کو کم کرنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔
مندرجہ بالا مباحث اس بات کا ثبوت ہیں کہ میوزک کا اس کرئہ ارض پر پائی جانے والی مخلوقات سے کسی نہ کسی پیرائے میں گہرا رشتہ ہے۔ اگر قرآن مجید کے حوالے سے بات کی جائے تو مفسرین کا ماننا ہے کہ سماعی جمالیات یعنی نغمہ و موسیقی کا ذکر براہ راست نہ اثبات میں اور نہ نفی میں آتا ہے لیکن قرآن میں جنت کے جن انعامات کا ذکر کیا گیاہے وہاں اں کی نغماتی نعمت کا بھی ذکر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’جو لوگ ایمان لائے اور اس کے مطابق عمل کیا وہ چمن میں نغمے سن رہے ہوں گے۔ ‘‘ ( سورہ الروم:۱۵) (انقلاب کا اضافہ: آیت میں استعمال ہونے والا لفظ یحبرون میں حَبَرَ کا ترجمہ عام طور پر خوشخبری، خوشی اور مسرت کیا گیا ہے۔ یہ غلط نہیں ہے لیکن اصل ترجمہ وہ ہے جو اہلِ لغت اور اہلِ نحو نے کیا ہے۔ مرتضیٰ حسین زبیدی ؒ تاج العروس میں لکھتے ہیں : حبرہ سے مراد بہشتی نغمہ ہے اور زجاجؒ نے اس آیۃ کی تفسیر یہی کی ہے اور کہا ہے کہ حبرۃ لغت میں اچھے گانے کو کہتے ہیں۔ ایک اور مایہ ناز ماہرِ لغت شیخ عبد اللہ البستانیؒ اپنی کتاب (لغۃ البستان) میں لکھتے ہیں : الحبرۃ کا مطلب ہے ہر عمدہ نغمہ اور خاص طور پرجنت میں نغموں کا سننا۔ )
اس طرح کے تذکرے جا بجا قرآن میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذرا سوچئے کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے صرف اس حسن کا طالب ہے جس کا تعلق محض آنکھوں سے یا دل سے ہے ؟کیا اس کے سامنے حسن صوت یا حسن سمع کی کوئی قدر و قیمت نہیں ؟ اس نے آنکھوں کیلئے ساری کائنات میں حسن و جمال اور زینت و آرائش کے ان گنت منظر پھیلانے کے باوجود کانوں کیلئے کوئی حسن و جمال نہیں پیدا فرمایا؟
حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دست قدرت نے جہاں رنگ برنگے پھولوں کے دستے بچھائے ہیں وہیں چہکنے والے پرندے بھی پیدا کئے ہیں۔ جس ٹہنی پر ایک خوبصورت چڑیا اپنے حسین و جمیل پروں کی بہار دکھاتی ہے اسی جگہ اپنے سریلے ترنم سے فردوس گوش کے سامان بھی مہیا کرتی ہے۔ جس خدا نے آنکھوں کیلئے حسین مناظر، خوب صورت چہرے، نظر فریب پھول، جگمگاتے ستارے، روشن چاند، نازک آبی و خاکی حیوانات اور اس قسم کی بے شمار حسین و جمیل نعمتیں پیدا کی ہیں اس خدا نے کانوں کیلئے کیا کوئی نعمت نہیں پیدا کی؟ جس خالق نے ناک کیلئے طرح طرح کی خوشبوئیں اور زبان کیلئے رنگا رنگ لذتیں بنائیں اس نے ایسی کوئی آواز نہیں پیدا کی ہے جو کانوں کی راہ سے گزر کر دل کو اس طرح سے موہ لے جس طرح خوشبو ناک کی راہ سے، لذت زبان کی راہ سے اور حسن آنکھوں کی راہ سے دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
جس طرح شراب کے ساتھ استعمال کیا جانے والا کباب کریہہ احساس پیدا کرتا ہے اسی طرح فحاشی اور ہیجان انگیزی کو فروغ دینے والی موسیقی یا نغمے نیز وہ ماحول، اسی کریہہ احساس کے ضامن ہیں اور قطعی ناقابل قبول ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نغمہ ہو یا موسیقی ہو، اس میں اخلاق باختگی ہے تو ناقابل قبول ہے مگر صالحیت ہے تو قابل قبول مانی جائیگی۔ ہمیں مختلف متنازعہ فیہ موضوعات کا عمیق مطالعہ کرنا چاہئے اور بڑے کینوس پر مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دیکھ سن اور بول تو جانور بھی لیتے ہیں لیکن خالق کائنات نے ہمیں اشرف بنایا ہے اور سماعت اور بصارت نیز بصیرت سے نواز اہے لہٰذا ہمیں اس کا شکرگزار ہونا چاہئے اور اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہی شکرگزاری کا عملی نمونہ ہوگا۔ ہمیں عقل و فراست کا استعمال کر کے بعض معا ملوں میں اپنی راہیں خود تلاش کرنی چاہئیں بجائے اس کے کہ ہم پہلے سے بنائے ہوئے ہر راستہ پر آنکھیں بند کر کے چلیں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کرنا چاہئے ورنہ ہم تنزلی اور انحطاط کا شکار ہو جائیں گے۔ اسی روشنی میں علامہ اقبال کے ’’فلسفہ تقدیر امم‘‘ کو دیکھئے۔ وہ کہتے ہیں
آ تجھ کو بتائوں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل طائوس و رباب آخر