• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اصلاح کرنے والے چار عناصر

Updated: July 26, 2024, 4:43 PM IST | Syed Abul Ala Maududi | Mumbai

صرف خدا ترسی ہی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر برائی سے رکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وہ چیزیں جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے چار عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہیں :
(۱) خدا کا خوف جو آدمی کو برائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لئے ایک ہی قابل اعتماد ضمانت ہے۔ راست بازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبط نفس اور وہ تمام دوسری خوبیاں جن کی بنیاد پر ایک پُر امن اور ترقی پزیر تمدن و تہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر چہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعے سے بھی کسی نہ کسی حد تک انہیں پیدا کیا جاسکتا ہے جس طرح مغربی قوموں نے کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کی نشو و نما بس ایک حد پر جاکر رک جاتی ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیا د متزلزل ہی رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر برائی سے رکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ اور محدود پیمانے پر نہیں بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر تمام انسانی معاملات میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:انکساری و عاجزی اس قدر تھی کہ سامنے ہونے کے باوجود اجنبی آپؐ کو پہچان نہ پاتا

(۲) خدائی ہدایت کی پیروی جو انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویے کو اخلاق کے مستقل اصولوں کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں کا خود واضع اور مصنف رہتا ہے اس کے پاس باتیں بنانے کے لئے کچھ اور اصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لیے کچھ اور۔ کتابوں میں آب ِزر سے وہ ایک اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق بالکل دوسری ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت اس کے اصول کچھ ہوتے ہیں اور خود معاملہ کرتے وقت کچھ۔ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دباؤ سے اس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور’’حق‘‘ کو نہیں بلکہ اپنے مفاد کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہئے۔ اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویہ غلط ہو جاتا ہے اور اسی سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس جو چیز انسان کو امن، خوشحالی اور فلاح وسعادت بخش سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی کے مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں اور انہیں اہل مان کر تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے، خواہ وہ معاملات شخصی ہوں یا قومی، خواہ وہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست اور صلح و جنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صرف ایک صورت ہے کہ انسان ان کے اندر رد و بدل کے اختیار سے دستبردار ہو کر انہیں واجب الاتباع تسلیم کرلے۔ 
 (۳) نظام انسانیت جو شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خود غرضیوں کے بجائے تمام انسانوں کے مساوی مرتبے اور مساوی حقوق پر مبنی ہو۔ جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں۔ جس میں اونچ نیچ اور تعصبات نہ ہوں۔ جس میں بعض کیلئے مخصوص حقوق اور بعض کیلئےپابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں۔ جس میں اتنی وسعت ہو کہ روئے زمین کے سارے انسان اس میں برابری کے ساتھ شریک ہو سکتے ہوں۔ 
 (۴) عمل صالح، یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو پوری طرح استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔  یہ چار چیزیں ہیں جن کے مجموعے کا نام ’’ بناؤ‘‘ اور ’’اصلاح‘‘ ہے اور ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر نیک انسانوں کی ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بناؤ کی ان صورتوں کو عمل میں لانے کے لئے پیہم جد و جہد کرے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK