• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انکساری و عاجزی اس قدر تھی کہ سامنے ہونے کے باوجود اجنبی آپؐ کو پہچان نہ پاتا

Updated: July 26, 2024, 4:33 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

اسوۂ حسنہ پر مشتمل اِس نئے سلسلے میں آج نبی کریم ﷺ کے مزاج مبارکہ کے تواضع اور انکسار کے کچھ واقعات پڑھئے۔ اسی قسط میں یہ بھی ملاحظہ کیجئے کہ جب آپؐ مدینہ منورہ پہنچے تو کس طرح لوگوں نے آپؐ کو پہچانا۔

The reluctance, modesty and humility that the Holy Prophet (SAW) has taught us, is the requirement of the love of the Messenger (SAW). Photo: INN
نبی کریم ؐ نے جس انکساری ،تواضع اور عاجزی کا ہمیں درس دیا ہے، اس پر چلنا ہی حب ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ تصویر : آئی این این

آپؐ کی متواضعانہ زندگی اور منکسرانہ مزاج
(گزشتہ سے پیوستہ):  ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ کہہ کر آپؐ سے مخاطب ہوا، اے مخلوق میں سب سے اعلا وارفع۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا: اس درجے میں تو ابراہیم علیہ السلام ہیں (صحیح مسلم: ۴/۱۸۳۹، رقم الحدیث: ۲۳۶۹) حالانکہ آنے والے شخص نے بجا طور پر آپ کو اس طرح مخاطب بنایا تھا، آپ واقعتاً مخلوق میں سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ وارفع تھے، اور یہ بات آپ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء کا سردار اور تمام مخلوق میں فضیلت کا حامل بناکر مبعوث فرمایا ہے اس کے باوجود آپؐ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ مخاطب سے فرمایا کہ تم جس درجے پر مجھے فائز کررہے ہو در حقیقت اس کے مستحق میرے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ 
حضرت مطرفؓ اپنے والد حضرت عبد اللہؓ سے نقل کرتے ہیں کہ میں بنی عامر کے وفد میں شریک ہوکر رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ہم نے عرض کیا: اے محمدؐ! آپ ہمارے سردار ہیں۔ آپؐ نے فرمایا سردار تو بس اللہ ہی ہے۔ ہم نے عرض کیا: بڑائی کے لحاظ سے آپؐ ہم سے اعلیٰ ہیں اور داد و دہش کے اعتبار سے بھی ہم سے بڑھ کر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں ! یہ کہہ سکتے ہو، اس سے بھی کم کہو تو زیادہ بہتر ہے، البتہ یہ خیال رہے کہ شیطان تم کو اپنا ایجنٹ نہ بنالے۔ (سنن ابی داؤد: ۴/۲۵۴، رقم الحدیث: ۲۸۰۶) 
ایک مرتبہ ایک شخص نے آپؐ کو ان الفاظ میں مخاطب کیا: اے ہمارے آقا اور ہمارے آقا کے بیٹے! اے ہم سب سے بہتر اور سب سے بہتر شخص کے بیٹے! آپؐ نے فرمایا: لوگو !تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں ذلیل ورسوا کردے، میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ہوں، خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، مجھے رب العالمین نے جو مرتبہ بخشا ہے میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اس سے زیادہ بڑھاؤ۔ 

یہ بھی پڑھئے: سرکار ِدو عالم ؐ کی سیرت میں تمام انبیاء کرام ؑکی سیرت کے خواص شامل تھے

روایات میں ہے کہ آپؐ حج کیلئے تشریف لے گئے، یہ آپؐ کا پہلا اور آخری حج تھا، اسلام پورے جزیرۃ العرب میں پھیل چکا تھا، لاکھوں لوگ اس کے دائرے میں آچکے تھے، خود اس سفر میں آپ ؐ کے ہمراہ جو خوش نصیب حضرات حج کی سعادت حاصل کررہے تھے ان کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی، اتنے جاں نثاروں کے ہجوم میں بھی آپؐ کی سادگی اور تواضع قابل دید تھی۔ نہ کوئی زیب و زینت، نہ کسی طرح کی شان وشوکت کا اظہار، نہ ہٹو بچو کا شور۔ حضرت انسؓ اس حج کے مناظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس وقت آپؐ جس اونٹنی پر سوار تھے اس پر جو پالان پڑا ہوا تھا اس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی، آپؐ یہ دُعا بھی فرمارہے تھے کہ اے اللہ! اس حج کو ریا اور شہرت سے خالی اور محفوظ فرما۔ (سنن ابن ماجہ: ۲/۹۶۵، رقم الحدیث: ۲۸۹۰، شمائل ترمذی: ۲۷۴، رقم الحدیث: ۳۳۵)
معمولی پالان کی بات آئی تو یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ آپؐ بسا اوقات ایسا لباس زیب تن فرماتے تھے جس پر پیوند لگے ہوتے، کپڑے پھٹ جاتے تو آپؐ خود ہی پیوند بھی لگا لیا کرتے تھے، موٹے اون کا کھردرا کپڑا بھی پہن لیا کرتے تھے، مجلس میں آپؐ کے لئے نہ کوئی فرش بچھایا جاتا تھا اور نہ مسند لگائی جاتی تھی، آپؐ زمین پر بھی بیٹھ جایا کرتے تھے، کبھی تشریف لاتے اور مجلس میں بیٹھنے کی جگہ نہ ہوتی تو مجلس کے کنارے پر ہی بیٹھ جاتے، معمولی جانوروں پر سواری فرما لیا کرتے تھے حالانکہ آپؐ امیر لشکر اور سپہ سالار تھے۔ 
آپؐ زمین پر بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیا کرتے تھے، کھانا کھاتے ہوئے بہ طور خاص عاجزی اور تواضع کا اظہار فرماتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ کے پاس کھانا لایا گیا، میں نے عرض کیا کہ آپؐ ٹیک لگا کر کیوں نہیں کھالیتے، اس میں آپؐ کو آسانی ہوگی اور آرام بھی ملے گا، یہ سن کر آپؐ نے اپنی جبین مبارک نیچے کی طرف جھکالی اور اتنی جھکائی کہ قریب تھا کہ پیشانی زمین کو چھو لیتی، فرمایا کہ میں اس طرح کھاتا ہوں جس طرح غلام اپنے آقا کے سامنے کھاتا ہے۔ 
سرکار ؐدو عالم، رحمۃ للعالمین کی سادہ مزاجی کے اور بھی کئی واقعات ہیں۔ آپؐ مسجد کی صفائی بھی کردیا کرتے، کھجور کی ٹہنیوں کی جھاڑو بنی ہوئی تھی اس سے گردوغبار صاف کردیا کرتے تھے، حالانکہ خدام کی کمی نہیں تھی، مگر تواضع اس قدر تھی کہ کسی کام میں عار نہ تھا۔ (شمائل ترمذی ص: ۲۲، مصنف ابن ابی شیبہ: ص:۳۹۸، مجمع الزوائد: ۹/۲۰، سبل الہدی: ۷/۳۷)
اپنے صحابہؓ کی دل جوئی کرنا بھی آپؐ کی عادت مبارکہ تھی۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کی ذمہ داریاں بہت تھیں لہٰذا ازحد عدیم الفرصت تھے، اس کے باوجود کوئی مرجاتا تو اس کی نماز جنازہ پڑھاتے اور تدفین میں شرکت فرماتے، کسی صحابی کے بیمار ہونے کی خبر ملتی تو اس کے گھر جاکر اس کی عیادت فرماتے، کوئی کسی مقصد کیلئے اپنے گھر آنے کی فرمائش کرتا تو آپؐ اس کی فرمائش پوری فرماتے، ایک صحابی ہیں حضرت عتبان بن مالکؓ، اصحاب بدر میں سے تھے، ان کی بینائی متأثر ہوگئی تھی، اس لیے انہیں کم نظر آتا تھا، ایک مرتبہ انہوں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنے محلّے کی مسجد میں نماز پڑھتا ہوں، لیکن جب بارش ہوتی ہے تو مسجد جانا مشکل ہوجاتا ہے، پھر میں گھر میں ہی نماز ادا کرتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ کسی وقت آپ میرے گھر تشریف لے آئیں، اور نماز پڑھ لیں، میں اس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے خاص کرلوں گا، دوسرے دن صبح کے وقت آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لیا اور ان کے گھر پہنچ گئے، دروازے پر پہنچ کر اجازت چاہی، اندر سے جواب آیا، آپؐ گھر کے اندر تشریف لے گئے، اور گھر والوں کی بتلائی ہوئی جگہ پر دو رکعت نماز پڑھ کر واپس تشریف لے آئے۔ (صحیح البخاری: ۱/۹۲، رقم الحدیث: ۴۲۴)
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے والد حضرت ابو قحافہؓ کا ہے، انہوں نے فتح مکہ تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ مکرمہ ہی میں تھا، ایک دن حضرت ابوبکرؓ اپنے والد گرامی حضرت ابوقحافہؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے صحن ِ حرم میں داخل ہوئے، ان کے والد بوڑھے ہوچکے تھے اور نہایت کمزور تھے، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ انہیں کلمہ پڑھوا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! تم نے ان کو گھر پر ہی کیوں نہ رہنے دیا، ہم خود ان کے پاس چلے جاتے اور ان کو کلمہ پڑھوا دیتے! 
یہ تھا اعلیٰ اخلاق، یہ تھی منکسر مزاجی اور تواضع کہ جس کا مظاہرہ رسولؐ اللہ اس وقت بھی فرمارہے ہیں جب بغیر کسی لڑائی کے اللہ نے مکہ فتح کرادیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد مشرکین نے یا تو اسلام قبول کرلیا تھا یا مکہ سے فرار ہوگئے تھے، اس صورت حال میں بھی آپؐ پر تواضع اور خشیت کا غلبہ رہا۔ 
رسولؐ خدا مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ تواضع اور خشیت الٰہی کے غلبے سے آپؐ کا سر مبارک اونٹنی کے کجاوے سے لگا جارہا تھا اور آپؐ اللہ کی حمد وثنا بیان کررہے تھے۔ فتح مکہ کے بعد آپؐ صحن حرم میں تشریف رکھتے تھے، بڑے بڑے بہادر اور سرکش وہیں بھیگی بلّی بن کر حاضر ہوتے اور اسلام قبول کرتے۔ آپؐ نہ کسی پر طنز فرماتے نہ کسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے، بلکہ سب کے ساتھ احترام، شفقت اور محبت سے پیش آتے۔ حضرت ابوبکرؓ کے والد آئے تو ان کی پیرانہ سالی دیکھ کر آپؐ نے یہ فرمایا کہ انہیں لانے کی ضرورت نہ تھی، تم ہم سے کہتے ہم خود ان کے گھر چلے جاتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! مناسب یہی تھا کہ یہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوقحافہؓ کے سینے پر اپنا دست شفقت رکھا اور فرمایا: اسلام لے آؤ۔ ابوقحافہ اسی وقت کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ (أسد الغابہ: ۳/۵۷۵، رقم الحدیث: ۳۵۸۲، مسندا حمد بن حنبل: ۲۰/۸۱، رقم الحدیث: ۱۲۶۳۵)
نمایاں نہ رہنے کی عادت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ سب کے ساتھ گُھل مل کر رہنے کی تھی، اس لئے بعض اوقات آنے والا اجنبی شخص آپ کو پہچان نہ پاتا، بلکہ اسے پوچھنا پڑتا کہ تم لوگوں میں محمد ؐکون ہیں ؟ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تشریف آوری سے قبل آپ ایک جگہ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے، دیکھنے والے یہ سمجھ نہیں پارہے تھے کہ ان میں محمدؐ کون ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عویمر بن ساعدہؓ یہ قصہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں یہ خبر ملی کہ جناب رسولؐ اللہ مکہ مکرمہ سے نکل چکے ہیں تو ہمیں آپؐ کی تشریف آوری کا انتظار رہنے لگا، ہم ہر روز صبح کو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد شہر سے باہر نکل جاتے اور کسی اونچی جگہ بیٹھ کر ان راستوں کو تکتے رہتے جن سے آپؐ کو آنا تھا، ہم اس وقت تک وہاں بیٹھے رہتے جب تک سورج اتنا بلند نہ ہوجاتا کہ ہمارے سائے معدوم ہوجاتے۔ ان دنوں موسم ِ گرما تھا اور دھوپ میں شدت تھی، آخر وہ دن آہی گیا جس کا ہم سب کو انتظار تھا، اس روز بھی ہم سب آنکھیں بچھائے ہوئے تھے، سورج نکلا اور اتنا بلند ہوا کہ ہمارے سائے معدوم ہوگئے، ہم مایوس ہوکر اپنے گھروں کو چلے گئے، ٹھیک اسی وقت آپؐ تشریف لائے۔ 
سب سے پہلے ایک یہودی نے آپؐ کو دیکھا، اس نے چیخ کر کہا: اے بنی قیلہ! تمہارے مہمان آگئے۔ ہم یہ آواز سن کر گھروں سے نکلے، آپؐ اس وقت کھجور کے درختوں کے نیچے تشریف فرماتھے، حضرت ابوبکرؓ بھی تھے، جو تقریباً آپ ہی کی عمر کے تھے، ہم میں سے بیشتر نے آج سے قبل آپؐ کی زیارت نہیں کی تھی اس لئے ہم یہ نہیں جان پارہے تھے کہ ان میں رسولؐ اللہ کون ہیں اور ابوبکرؓ کون۔ اتنے میں آپؐ کے اوپر دھوپ آگئی، یہ دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ آپ کے سر مبارک پر چادر تان کر کھڑے ہوگئے، تب ہم نے جانا کہ ان میں رسولؐ خدا کون ہیں۔ اس واقعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنے لوگوں کے ساتھ گُھل مل کر رہتے تھے حتی کہ پہلی مرتبہ زیارت کرنے والوں کیلئے پہچاننا مشکل ہوتا تھا۔ (السیرۃ النبویۃ ابن ہشام:۲/ ۳۰۷) (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK