محرم کی دسویں تاریخ کو ’’عاشورہ‘‘ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’دسواں دن۔‘‘ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔
EPAPER
Updated: July 12, 2024, 1:23 PM IST | Maulana Taqi Usmani | Mumbai
محرم کی دسویں تاریخ کو ’’عاشورہ‘‘ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’دسواں دن۔‘‘ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔
یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیس دن اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں لیکن اللہ عز و جل نے اپنے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے اور ان میں کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں۔ یہ محرم کا مہینہ بھی ایک ایسا ہی مہینہ ہے جس کو قرآن کریم نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے۔
محرم کی دسویں تاریخ کو ’’عاشورہ‘‘ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’دسواں دن۔ ‘‘ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض تھا۔ بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن حضور اقدس محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عاشورہ کا روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ ‘‘ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یوم ِ عاشورہ کی فضیلت کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس میں نبی کریم ؐ کے پیارے نواسے حضرت حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ ایسے حضرات کو علم ہونا چاہئے کہ خود آپؐ کے عہد مبارک میں عاشورہ کا دن مقدس سمجھا جاتا تھا اور آپؐ نے اس بارے میں احکام بیان فرمائے ہیں۔ قرآن کریم نے اس کی حرمت کا اعلان فرمایا ہے۔ امام حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے تقریباً ۶۰؍ سال بعد پیش آیا تھا۔ یہ تو حضرت حسینؓ کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ نے آپؓ کی شہادت کا مرتبہ اس دن عطا فرمایا جو پہلے ہی سےمقدس اور محترم چلا آرہا ہے۔ بہرحال عاشورہ کا دن ایک مقدس دن ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اچھا کام اور اچھی صفت دونوں ضروری ہیں
اس دن کے مقدس ہونے کی وجہ کیا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں ۔ اس دن کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے دنوں پر کیوں فضیلت دی؟ اور اس دن کا کیا مرتبہ رکھا؟ بلاشبہ، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، ہمیں اس کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے ایام ہیں ۔ وہ جس دن کو چاہتا ہے ہے اپنی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے لئے منتخب فرما لیتا ہے، وہی اس کی حکمت کو جاننے والا ہے۔ یہ بات ہمارے اور آپ کے ادراک سے ماوراء ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اپنی رحمت اور برکت کے نزول کے لئے منتخب کرلیا تو اس کا تقدس یہ ہے کہ اس دن کو اس کام میں استعمال کیا جائے جو نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضورؐ نے فرمایا کہ اس دن میں روزہ رکھنا، گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
چونکہ یہودی بھی ۱۰؍ محرم کو روزہ رکھتے تھے اس لئے آپؐ نے اس مشابہت سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال حیات رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا، ۹؍یا ۱۱؍ محرم کا بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے آپؐ دُنیا سے پردہ فرما چکے تھے۔
چونکہ آپؐ نے یہ بات ارشاد فرما دی تھی اس لئے صحابہ کرام ؓ نے عاشورہ کے روزہ میں اس بات کا اہتمام کیا اور ۹؍ محرم یا ۱۱؍ محرم کا ایک روزہ ملا کر رکھا۔ رسولؐ اللہ کے اس ارشاد میں ہمیں ایک اور سبق ملتا ہے، وہ یہ کہ غیرمسلموں کے ساتھ ادنیٰ مشابہت بھی آپؐ نے پسند نہ فرمائی حالانکہ وہ عبادت تھی، کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا وہ سارے ادیان سے ممتاز ہے اور ان پر فوقیت رکھتا ہے، لہٰذا ایک مسلمان کا ظاہر و باطن بھی غیرمسلم سے ممتاز ہونا چاہئے۔ جب عبادت، بندگی اور نیکی کے کام میں بھی آپؐ نے مشابہت پسند نہیں فرمائی تو اور کاموں میں اگر مسلمان ان کی مشابہت اختیار کریں تو یہ کتنی بری بات ہوگی۔ افسوس کہ آج مسلمانوں کو اس حکم کا خیال اور پاس نہیں رہا، اپنے طریقہ ٔ کار، وضع قطع، نشست و برخاست اور کھانے پینے کے طور طریقے میں ہم نے غیروں کی مشابہت اختیار کرلی ہے۔
اخیر میں یہ دُعا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس مہینے کی حرمت اور عاشورہ کی حرمت اور عظمت سے فائدہ اٹھانے اور اپنی رضا کے مطابق اس دن کو گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔