Inquilab Logo Happiest Places to Work

وہ تین آیات جن کے ذریعہ حضورؐ کو تسلی و تشفی دی گئی!

Updated: September 20, 2024, 4:13 PM IST | Syed Hamid Abdul Rehman Al Kaaf | Mumbai

یہ تین آیات سورہ البقرہ، الحجر اور التوبہ میں وارد ہوئی ہیں جن میں فرمایا گیا کہ محمدؐ، تمہاری زندگی میں اور اس کے بعد بھی ہم اس قرآن عظیم، اس کے معانی اور اس کے پیغام کی حفاظت کرینگے پس تم اس معاملے سے بالکل ہی بے فکر ہو جائو اور اس پر غوروفکر اور اپنے آپؐ کو پریشان کرنا بالکل ہی ترک کر دو......اس کے ساتھ ہی، اِس مضمون میں چند سورتوں کا بھی ذکر ہے جن میں حضورؐ پاک کی خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

The Holy Prophet (PBUH) is not only our prophet, but has been sent as a messenger and a prophet (PBUH) to innumerable jinns and human beings over thousands of years. Photo: INN
حضور پاکؐ صرف ہمارے نبی نہیں بلکہ ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے زمینی فاصلے پر لاتعداد جن و انس کیلئےرسولؐ اور نبیؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ تصویر : آئی این این

خاتم الانبیا والمرسلین ہونے کے ناطے سیدنا محمد بن عبداللہ علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ان بہت سی خصوصیات سے سرفراز فرمایا ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر وارد ہوا ہے مگر وہ اکثر دوسری سورتوں کے سیاق میں ہے۔ جہاں تک سورۃ الفتح اور سورۃ النصر کا تعلق ہے تو وہ آپؐ کی فتح و نصرت اور اس کے اسباب کے لئےخاص ہیں۔ اسی طرح سورۃ الکوثر میں آپؐ کو خیرکثیر --- ہرمعنیٰ میں، ہر وقت، دنیا اور آخرت میں خیرکثیر --- عطا کیے جانے کی بشارت اس طرح دی کہ اس کے پہلو بہ پہلو آپؐ کے دشمن کی جڑ کٹنے کی خوش خبری سنائی--- خواہ دشمن کوئی کیوں نہ ہو، مادی ہو کہ معنوی۔ 
اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سورۃ الضحیٰ اور سورہ الم نشرح صرف آپؐ کی ذات بابرکات، اس سے اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے تعلق، نبوت سے مشرف ہونے سے قبل اور بعد کے تعلق کا مختلف پہلوئوں اور زاویوں اور وجوہات کے سبب اور آپؐ پر نظر خاص اور عنایت خاص کا ذکر ان دو سورتوں میں آیا ہے۔ 
سورہ کا نظم
سورۃ الضحیٰ اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے آپؐ کے ساتھ ہونے، ساتھ دینے، نظر کرم رکھنے اور آپؐ پر اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کی مسلسل بارش برسائے جانے سے عبارت ہے۔ رہی سورہ الم نشرح، تو وہ اگرچہ الضحیٰ کا تکملہ اور تتمہ ہے مگر اس میں آپؐ کی ذاتِ بابرکاتؐ کے نبوی پہلو پر توجہ فرما کر اس سلسلے میں اللہ نے اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ اس غیر محدود اور غیرمنقطع اجر کا بیان بھی کیا جو آپؐ کو عطا کیا گیا ہے۔ 
اسی میں اس عطائے عظیم کے ایک حصہ و جز--- محض ایک چھوٹے سے حصے اور جز--- کا ذکر بھی ہے جس کا وعدہ الضحیٰ میں یہ کہہ کر فرمایا تھا کہ :
’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔ ‘‘ (الضحیٰ :۵)
آگے چل کر سورۃ التین میں البلد الامین … مکۃ المکرمہ…  کی قسم اس سرزمین طور سینا کے ساتھ کھا کر جس میں انجیر اور زیتون پیدا ہوتے ہیں، آپؐ کے شہر اور فلسطین مبارک کے اٹوٹ رشتے کی طرف اشارہ فرما کر یہ ثابت کیا کہ آپؐ اسی شجرئہ طیبہ و مبارکہ کا ثمرہ طیبہ ہیں جس کا مبارک سایہ فلسطین کی مبارک سرزمین سے لے کر مکہ مکرمہ کے حرم تک پھیلا ہوا ہے اور جس کا بیج ڈالنے والے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ 
علاوہ ازیں البلدالامین میں لطیف اشارہ ہے، اس مبارک شخصیت کی طرف، جس کے باشندے آپؐ کو الصادق الامین کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔ یوں یہ شہر بھی امانت دار قرار پایا اور اس کا ایک باشندہ بھی امانت دار ہونے کی صفت سے متصف ہوا۔ 
یہ وہ امانت ہے جس کو خانۂ کعبہ اور سیدنا اسماعیل ؑ کی شکل میں سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ میں چھوڑا تھا اور جو اس شخص کے حوالے کی گئی جو ہر پہلو سے امانت دار ہونے کے ناطے اس کو اٹھانے، اس کی حفاظت کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے کا ہر طرح مستحق اور قابل تھا۔ یہ توحید اور عبودیت کی امانت ہے جس کو ایک لفظ ’’الاسلام‘‘ میں ادا کیا جاتا ہے اور جس کا پیغام لے کر آپؐ کو خاتم المرسلین ؐ کی حیثیت سے معبوث کیا گیا۔ اس پیغام کو اور اُس امانت کو جس کسی نے دل و جان سے قبول کیا اور اس کے حقوق حتی الامکان ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی تو وہ اسفل السافلین میں شمار کیے جانے سے بچ کر نہ ختم ہونے والے اجر کا مستحق قرار پایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ عدل کے ساتھ فیصلہ کر کے اجر عطا کرنے والا ہے۔ 
(التین ۹۵:۵-۸)
معانی و مطالب
سورہ الم نشرح کا آغاز آپؐ پر اس بے مثال اور بے نظیر احسان سے ہو رہا ہے جس کو شرح صدر کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے صرف آپ ؐ کو اس خصوصیت سے کیوں خاص کیا گیا تو اس کا جواب ازخود سامنے آجائے گا۔ 
خاتم الانبیا ؑوالمرسلین ہونے کی وجہ سے آپؐ اس لمحے سے جب آپؐ پر غارحرا میں اقرا باسم ربک الذی خلق(پڑھئے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ العلق: ۱) نازل ہوئی، اس لمحے تک جب صوراسرافیل پھونکا جائے گا، آپؐ سارے ہی جن و انس کے نبیؐ اور رسولؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپؐ ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے زمینی فاصلے پر لاتعداد جن و انس کے لئےرسولؐ اور نبیؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ یہ زمان و مکان اور وہ لامحدود تعداد جن و انس اور ان کی ہدایت اور نجات، فلاح و بہبود کے مسائل اور اس راہ میں شیطان اور اس کے چیلوں کی ریشہ دوانیاں اور ان سے پیدا ہونے والی رکاوٹیں، اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ، ساری ہی دنیا میں، جو دُور رس اور پیچیدہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے والی تھیں، اور ان سے جو فکری، مادی، اخلاقی اور دینی فتنے اور فساد پیدا ہو کر پھیلنے والے تھے، ان کو اپنے دل و دماغ اور روح اور جسم میں سمانے اور ان کا مقابلہ کرنے، اور ان سے نمٹنے کے لئےایک اُمت وسط پیدا کرنے، اور اپنے پیغام کو آخری لمحۂ دنیا تک جاری و ساری رکھنے اور اس کے اس لامحدود اور نامعلوم عرصے تک برقرار رکھنے کے لئےایک ایسے دل کی ضرورت تھی جس میں یہ نامعلوم، غیر محدود اور ان گنت امور اور مسائل سما سکیں۔ 
اس لئےآپؐ کے شرح صدر، خواہ وہ مادی ہو یامعنوی یا مادی اور معنوی دونوں ہی، سے عبارت ہو، کی ضرورت تھی۔ اس کے بغیر یہ غیر محدود ذمہ داریاں جو نامعلوم زمان و مکان تک پھیلی ہوئی تھیں اٹھائی ہی نہیں جا سکتی تھیں۔ اس لئےآپؐ کے قلب مبارک میں وسعت پیدا کی گئی کیونکہ معمولی انسانی دل میں یہ امور سما ہی نہیں سکتے تھے اور نہ آج اور تاحیات سما سکتے ہیں۔ اگر بالجبر ان کو کسی معمولی انسانی دل میں سمونے کی کوشش کی بھی گئی تو وہ دل ہی پھٹ پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انسانی دل ان لامحدود امور، مسائل اور ذمہ داریوں کو سہارنے کے لئےبنا ہی نہیں ہے۔ یہ اس کے بس کا روگ ہی نہیں ہے۔ 
حقیقت تو یہ ہے کہ حضورؐ ان امور کی وسعتوں، گہرائیوں اور ’’لامحدودیتوں ‘‘ کی وجہ سے اندر ہی اندر گھلے جا رہے تھے۔ یہ سوچ سوتے جاگتے، کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہمہ وقت آپؐ کا پیچھا کرتی رہتی تھی، جبکہ عالم یہ تھاکہ آپؐ معمول کی نبوی اور انسانی ذمہ داریاں پوری کرنے میں دل و جان سے سرگرم تھے۔ اس ناقابل برداشت بوجھ تلے آپؐ کی کمر بیٹھی جا رہی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آپؐ سخت بیمار ہو جاتے یا کسی لاعلاج مرض کا شکار ہو جاتے۔ اس لئےلطف ربانی نے آپؐ پر، آپؐ کی اُمت مرحومہ پر اور ساری ہی انسانیت پر تاقیامت مع عالم جن، رحم کی بارش کی اور آپؐ کے دل کو اتنی لامحدود زمانی و مکانی، وسعتوں سے روشناس فرمایا کہ ختم نبوتؐ کا کارِ ناممکن آپؐ کیلئےبہت ہی آسان ہو گیا۔ آپؐ کے دل و دماغ سے یہ بوجھ اور دبائو ہٹ گیا اور اس کرم ربانی کی وجہ سے آپؐ ان امور کو قابل عمل اور قابل حصول سمجھنے لگے۔ آپؐ کی ہمت بڑھی، حوصلہ بڑھا اور آپؐ اپنے مشن کو کامیاب بنانے کیلئےمزید دل و جان اور روح و جسم کے ساتھ لگ گئے۔ 
غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان حقائق کی طرف قرآن مجید میں واضح اشارات ملتے ہیں :
’’بیشک یہ ذکر ِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے۔ ‘‘ (الحجر:۹)
’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ ‘‘ (البقرہ :۱۴۳) 
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔ ‘‘ (التوبہ :۳۲)
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تین آیتوں میں ان راہوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ کو سکون سے آشنا فرمایا۔ آپؐ کو اس کی تاکید یوں کی کہ اے محمدؐ! تمہاری وفات کے بعد اور تمہاری زندگی میں بھی ہم اس قرآن عظیم، اس کے معانی اور اس کے پیغام کی حفاظت کریں گے۔ تم اس معاملے سے بالکل ہی بے فکر ہو جائو اور اس پر غوروفکر اور اپنے آپؐ کو پریشان کرنا بالکل ہی ترک کر دو۔ وہ اس لئےکہ ہم نے تمہارے مبارک ہاتھوں اور تمہاری مبارک نگرانی میں ایک ایسی اُمت پیدا کرنے، اس کو جاری رکھنے اور اس کی آبیاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اس پیغام اور اس کی ذمہ داری کو جس سے ہمارا قرآن عبارت ہے، بحسن و خوبی تمہارے بعد نبھائے گی۔ 
 یہ پیغام اب ایک فرد ہی کا پیغام نہیں رہا ہے بلکہ اس کے لئےایک اُمت کھڑی ہونے والی ہے جو اس کیلئے مرمٹنے والی ہوگی۔ یہ تمہارے بعد اس کے تاقیامت جاری رہنے کی بہترین ضمانت ہے۔ 
یہ بات بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مزید اطمینان دلایا کہ ہم، خالق کائنات، خالق بشر اور خالق جن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا نور، جس کو قرآن کی شکل میں ہم نے تم پر نازل کیا ہے، قیامت تک دنیا میں ہرسُو پھیلاتے ہی رہیں گے۔ اس کیلئےہر قسم کے اسباب مہیا کرینگے اور تمہاری اُمت کو وقت بوقت کمک پہنچاتے رہیں گے تاکہ ہمارا نور ہر جن و انس تک پھیل سکے اور پہنچ سکے۔ تم تو جانتے ہی ہو اے محمدؐ! کہ ہم اس کائنات کے جن و انس کے، یکہ و تنہا خالق اور مالک ہیں۔ اس لئے ہمارے اس ارادے میں کوئی بھی حائل نہیں ہوسکتا خواہ وہ کفار جن و انس اور شیاطین کی ان گنت فوجیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم ان کو تن تنہا شکست دینے پر قادر ہیں۔ اس لئےیہ امر ہر طرح سے مضبوط و محکم ہے۔ اس کے سارے انتظامات بذاتِ خود ہم نے کیے ہیں۔ لہٰذا اب تم اطمینان و سکون اختیار کرو اور اپنے کام میں مزید دلجوئی سے لگ جائو۔ 
یہ بھی پڑھئے:امتحان و آزمائش رَب کائنات کا مستقل دستور ہے جس سے ہر ایک کو گزرنا ہے

اُن لامحدود ذہنی، فکری، روحانی اور جسمانی مصیبتوں اور تکلیفوں کے مقابلے میں جو آپؐ نے روزِ اوّل سے نور حق کو پھیلانے کے لئےاٹھائیں اُن کا اجر و ثواب بھی، رب کریم کی طرف سے، لامحدود اور ان گنت ہے۔ اس کو بھی شمار کرنا اور گنتی میں لانا ناممکن ہے کیونکہ اس اجر و ثواب کو شمار کرنے کی کوئی ایسی صورت نہیں کہ اس کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس کا احاطہ انسان کی محدود قدرت سے باہر ہے۔ اس کی وجہ آپؐ کا رفع ذکرہے۔ اس کی وہ شکلیں، جو اس خاکسار کے نوک قلم پر اس وقت آسکی ہیں وہ یہ ہیں :
رفع ذکر
 رفع ذکر کے معنیٰ ذکر کو اُونچا اور بلند کرنا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ موثر اور واضح شکل اس کلمۂ طیبہ میں ظاہر ہوتی ہے جو کسی شخص کے مسلمان ہونے یا اسلام قبول کرنے کے وقت زبان سے ادا کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے: ’’میں اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ نہیں ہے اور اس بات کی (بھی) شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسولؐ اور بندے ہیں۔ ‘‘ اس کو کلمۂ شہادت کہتے ہیں۔ 
اس میں، رفع ذکر کا یہ پہلو ہے کہ اللہ جل جلالہ کے پاک نام کے ساتھ اور پہلو بہ پہلو اسکے محبوب ترین بندے کا نام بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہاں عبودیت (عبد/ بندہ) الوہیت کے پہلو بہ پہلو جگمگا رہی ہے۔ سبحان اللہ وتبارک اللہ۔ اس سے بڑھ کر اور کس طرح ذکر کو بلند کیا جا سکتا ہے!
اس کلمہ ٔ شہادت کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ یہ دروازہ صرف اس شخص پر کھلتا ہے جو نہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرے اور اس کی شہادت دے بلکہ اس کو محمد ﷺکے رسول اللہ ہونے کا اقرار اور اعلان کرنا اور اس کی شہادت دینا پڑتی ہے۔ اگر وہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرنے پر اکتفا کرے اور رسالت محمدیؐ سے انکار کرے، پہلوتہی کرے، یا چشم پوشی کرے، تو پھر وہ مسلم نہیں ہو سکتا۔ گویا الوہیت الٰہی اور رسالت محمدیؐ دونوں ہی کی شہادت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی اور دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کی شرط اول ہے۔ 
 اس اعلان شہادت کے کچھ ہی دیر بعد اذان کا وقت آپہنچتا ہے جس میں گواہی موجود ہے :میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ گواہی ایک بار نہیں دو بار ہے۔ اگر وہ تنہا ہوگا تب بھی اذان میں دو بار رسالت محمدیؐ کی شہادت کا پوری قوت کے ساتھ اعلان کرے گا اور اگر وہ مؤذن کی آواز سن رہا ہوگا تو اس کو اذان کے باقی اجزاء کے ساتھ دو بار دہرائے گا۔ اذان کے بعد وہ اپنے رب سے یہ دعا کرے گا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو الوسیلۃ اور الفضیلۃ عطا فرمائے اور آپؐ کو مقام محمود پر فائز کردے جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ 
یہ دعا پوری محبت، منت و سماجت اور لجاجت سے ہر مومن اور مسلم ہر اذان کے بعد کرتا ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ اس دعا سے قیامت کے ہولناک دن آپؐ کی شفاعت اس کے حق میں واجب ہو جاتی ہے۔ اس شفاعت کے مستحق ہونے کیلئےاور اس ہولناک دن کی ناقابل تصور اور ناقابل برداشت ہولناکیوں، تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کیلئےہر شخص دل و جان سے یہ دعا کرکے آپؐ کا نام دل و جان سے لیتا ہے۔ 
 نماز کے لئےوضو ضروری ہے اور وضو کے بعد قبلہ رو کھڑے رہ کر کلمۂ شہادت ادا کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ اس لئےہر مومن وضوکے بعد، دن اور رات میں کم از کم پانچ بار آپ ؐ کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی کلمے میں دہراتا رہتا ہے۔ 
 نماز میں تشہد ناگزیر ہے جس میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ہر نمازی … مرد، عورت، بچہ اور بچی… پڑھتے ہیں، آپؐ پر سلامتی بھیجتے ہیں اور پھر کلمۂ شہادت میں آپؐ کا نام لے کر یہ کہتے ہیں کہ میں اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ 
یہ فرائض میں نو بار اور سنتوں میں بے شمار بار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرائض اور سنتوں میں درودِ ابراہیمی میں دو بار آپؐ پر آپؐ کی آل پر صلاۃ اور برکت کی دعا مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز کے خاتمے پر جو دعا کی جاتی ہے اس کو بھی آپؐ پر سلام اور صلاۃ پر تمام کرنا ایک امر ضروری ہے۔ 
آپ ان پانچوں وقتوں، مقاموں اور موقعوں پر ۲۴؍ گھنٹوں میں آپؐ کے نام کے وارد ہونے اور آپؐ پر درود و سلام بھیجے جانے اور آپؐ کے اور آپؐ کی آل کے لئےدعا کئے جانے کا شمار کریں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ یہ ان گنت گنتی ہے جو شمار میں نہیں آ سکتی۔ 
 اس پر سونے پر سہاگہ وہ حکم ربانی ہے جس کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ فرما کر کیا کہ اے مومنو! اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر صلاۃ بھیجتے ہیں اور تم کو بھی میں حکم دیتا ہوں کہ تم بھی اپنے پیارے نبیؐ اور رسولؐ پر صلاۃ و سلام بھیجو۔ اس صلاۃ و سلام کا نہ تو کوئی وقت ہی مقرر ہے اور نہ کوئی جگہ ہی متعین ہے اور نہ کوئی موقع محل طے ہے۔ انسان جب اور جہاں چاہے اللہ سے یہ دعا کر سکتا ہے خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ آپؐنے فرمایا کہ جس کسی نے میرا نام سن کر مجھ پر صلاۃ و سلام بھیجا تو اللہ اس پر ایک بار کے بدلے ۱۰؍ بار درود و سلام بھیجتا ہے اور اس کا ذکر اس سے بہتر مجلس میں یعنی ملائکہ کے درمیان کرتا ہے۔ 
اب آپ ہی بتایئے کہ کون نہیں چاہے گا کہ اس پیارے نبی و رسول ؐ کا ایک بار نام لے کر اپنا ذکر، اور وہ بھی اپنے خالق کی زبانی، ملائکہ کے درمیان ہونا پسند نہ کرے ؟ یہ تو خیر ہی خیر اور نفع ہی نفع ہوا۔ اس لئےہر مومن چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے اور کاروبار سرانجام دیتے ہوئے اپنے پیارے نبی اور رسولؐ پر درود و سلام بھیج کر اپنا ذکر اپنے رب کی محفل میں کروا لیتا ہے۔ صلاۃ و سلام ہو اس پیارے نبیؐ اور رسولؐ پر جس پر صلاۃ و سلام بھیجنے سے گناہ گاربندوں کا ایک بار کے بدلے ۱۰؍ بار ذکر دربار الٰہی میں ہوتا ہے۔ 
آپ دیکھیں کہ ثواب کے خواہاں لوگ ہمیشہ ہی صلاۃ و سلام نبی و رسول میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بات بالکل صحیح اور سچ دکھائی دیتی ہے: اللّٰہ اللّٰہ خیر ما صلّٰی (اللہ اللہ یہ کتنی خیر کی بات ہے کہ نبیؐ پر صلاۃو سلام بھیجا جائے)۔ یقیناً یہ بہترین عمل ہے اور خوش بخت اور خوش قسمت ہونے کی علامت ہے۔ 
 لاتعداد مسلمان محض خیروبرکت اور خوش بختی کی خاطر اپنے بچوں کا نام ’’محمد‘‘ رکھتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ دن و رات کے ۲۴ گھنٹوں میں سارے عالم میں آپؐ کی اُمت کے افراد کے ذریعے سے کتنی بار یہ نام مبارک بولا اور لکھا جاتا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں اور گن سکتے ہیں ؟ یقیناً نہیں۔ 
 پیدا ہوتے ہی مسلمان لڑکے اور لڑکی کے کان میں اذان دے کر اللہ خالق تبارک و تعالیٰ کے ساتھ محمد ﷺ کے رسول اللہ ہونے کی آواز گزاری جاتی ہے۔ گویا یہ نقشِ اول ہے جو بٹھایا جا رہا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کی تمنا ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کرتی ہے کہ اس کی موت اور اس کا آخری کلام کلمہ ٔطیبہ ہو جس میں آپؐ کا نام نامی آتا ہے 
غور کیجئے کہ مشرق سے مغرب تک دن رات میں کتنے بچے اور بچیاں پیدا ہو کرآپؐ کا نام مؤذن کی زبان سے نکلواتے ہیں اور پھر ان کو اپنے اپنے کانوں میں بٹھا لیتے ہیں تاکہ موت کے وقت بھی وہ ان کے کانوں میں بیٹھا رہے اور زبان سے صادر ہو۔ 
اللہ اللہ یہ کیا رفع ذکر ہے! کیا اس کی کثرت اور بلندی ہے، اور کیا اس کے لئےمحبت بھری سبقت ہے! جو نطق کلمہ اور پیدائش سے شروع ہو کر موت اور موت کے بعد تک بھی ہر فرد، مومن مرد اور عورت کے ساتھ لگی رہتی ہے اور اس کو اور اس کی زندگی اور موت اورمابعد الموت تک اس کوخیر و برکت اور خوشی اور مسرت اور خوش بختی اور خوش قسمتی سے ہم کنار کرتی اور ہمکنار رکھتی ہے۔ 
اطمینان قلب اور تقویت ایمان
فرمایا کہ اے محمدؐ! تم آج دشمنوں کی کثرت، قوت و طاقت اور اپنے ساتھیوں کی قلت اور کمزوری دیکھ کر دل شکستہ اور پریشان نہ ہو۔ یہ بہت جلد پلٹا کھا کر ختم ہو جانے والا ہے۔ کیونکہ ہم نے اس دنیا میں ایک محکم سنت یہ جاری کر رکھی ہے کہ ہر قلت کے بعد کثرت، ہر تکلیف کے بعد راحت اور ہر تنگی کے بعد فراخی اور ہر شدت کے بعد آسانی اور ہر رات کے بعد اُجالا آئے گا۔ اس لئےعالم اسباب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تم اور تمہارے ساتھی اس نورکو پھیلانے کے لئےایڑی چوٹی کا زور لگا دو، دن رات ایک کر دو، اور اپنی جانوں پر کھیل جائو اور ان کو دائو پر لگا دو۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟ تم دیکھو گے کہ بہت جلد اہل عرب جوق در جوق اور فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوں گے اور تمہاری اطاعت کو قبول کریں گے۔ پرچم توحید سربلند ہو کر لہرائے گا اور پرچم کفر و شرک سرنگوں ہوگا۔ تمہاری تگ و دو بالآخر اپنا رنگ دکھائے گی اور تمہاری محنت و مشقت ثمرآور اور بارآور ہوگی۔ 
اس حقیقت کو دہرا کر، یعنی دو آیتوں میں بیان کر کے اور وہ بھی صیغہ اسمیہ کی صورت میں بیان کر کے اس کی حتمیت کی طرف اشارہ فرمایا:
’’سو بیشک ہر دشواری کے ساتھ آسانی (آتی) ہے، یقیناً (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے۔ ‘‘
; (الم نشرح :۶-۷)
مزید فرمایا کہ اس جدوجہد کے لمبے اور جاں گسل سفر کا اگر کوئی کارآمد زادِ راہ ہے تو وہ ہے اپنے رب کی عبادت میں، جب بھی فرصت ملے اور موقع ملے، دل لگانا جس کی بہترین شکل پوری رغبت اور محبت اور خشوع و خضوع کے ساتھ نمازپڑھنا ہے۔ اس لئےرکوع و سجود کرتے رہو اور نئی نئی طاقت و قوت حاصل کرتے رہو اور اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہوئے میری الوہیت کا ڈنکا بجاتے رہو۔ 
یہ دو آخری نصیحتیں عام طور پر ہر اُمتی کے لئےدائمی اور ابدی ہدایات ہیں مگر وہ ان لوگوں کے لئےسرمدی ہدایات اور ارشادات ہیں جو اپنی زندگیوں کو نور حق ہرسُو پھیلانے کیلئےوقف کر دینا چاہتے ہیں اور انسان کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ 
 اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب بندے محمد بن عبداللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی راہ ہدایت پر چلنے اور دوسروں کو راہ حق پر چلنے کی دعوت دینے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے، اور آپ کی اُمت کو سربلند کرے اور کامیابیوں سے سرفراز فرمائے، اور آپؐ کے اورآپؐ کی دعوتِ حق کے دشمنوں کا سرنیچا کرے۔ آمین، یا رب العالمین!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK